ایک زندگی میں سو زندگیوں کے عظیم کارنامے انجام دے کر اپنے رب کے حضور حاضر ہونیوالے پروفیسر خورشید احمد کے بارے میں سوچیں تو یہ مصرع نوکِ زباں پر آ جاتا ہے: کیا چیز بسا دی گئی مٹی کے گھروں میں۔
پروفیسر صاحب عالمی تحریک اسلامی کے ممتاز مفکر‘ مدبر‘ مصنف‘ محقق اور ہر دلعزیز معلم تھے۔ وہ 13مارچ کو لیسٹر‘ یوکے میں دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ اُن کے انتقال پر پاکستان سمیت سارے عالمِ اسلام میں گہرے رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اپنے زمانے کے وہ بڑے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ تقریباً چھ دہائیوں تک مسلم اور مغربی دنیا میں فکرِ اسلامی کے چراغ جلاتے رہے۔پروفیسر خورشید احمد نے بلاسود اسلامی معیشت کا وہ ماڈل دنیا کے سامنے پیش کیا کہ جس کے مطابق کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ معیشتوں کی طرح ساری دولت کا ارتکاز محض چند ہاتھوں میں نہیں ہوتا بلکہ منصفانہ طریقے سے پھیلتے پھیلتے یہ معاشرے کے ہر فرد تک پہنچتی ہے۔ پروفیسر صاحب صدقِ دل سے یہ یقین رکھتے تھے کہ اگر آج دنیا میں عدل و انصاف نایاب ہے‘ امن و سلامتی معدوم ہے‘ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے اور مادہ پرستی اپنے عروج پر ہے تو اس کا صرف ایک حل ہے کہ اسلام اپنی برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ ایک بار پھر دورِ جدید کے اسلوب میں جلوہ گر ہو۔ اسی خواہش کی تکمیل کیلئے وہ عنفوانِ شباب سے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے پیغام اور ان کی تصنیفات کی طرف متوجہ ہوئے۔ بچپن سے ہی خورشید احمد صاحب کتب بینی کی طرف مائل تھے۔ جوانی کی دہلیز تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے اردو اور انگریزی کے کئی معروف و مشہور ادیبوں کی کتب پڑھ ڈالی تھیں۔خورشید احمد صاحب نے 1932ء میں دہلی کے ایک علمی اور تاجر گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ اُن کے سبھی اہلِ خاندان تحریک پاکستان کے ساتھ تھے۔ پروفیسر صاحب لڑکپن میں '' لے کے رہیں گے پاکستان‘ بن کے رہے گا پاکستان‘‘ کے نعرے بلند کرتے تھے۔ 1947ء میں جب پاکستان معرضِ وجود میں آ گیا تو ان کا خاندان پہلے دہلی سے لاہور آ یا پھر یہ لوگ جلد ہی کراچی منتقل ہو گئے۔ اُس زمانے کے کراچی کی علمی و جمہوری فضا نوجوان خورشید احمد کو بہت راس آئی اور انہوں نے گورنمنٹ کامرس کالج سے اعزاز کے ساتھ بی کام کیا پھر یکے بعد دیگرے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے معاشیات و اسلامیات اور ایل ایل بی کی ڈگریاں امتیازی پوزیشن کے ساتھ حاصل کیں۔ وہ آغازِ شباب سے ہی اپنے نوجوان ساتھیوں کیلئے ایک قابلِ تقلید مثال کی حیثیت رکھتے تھے۔ مرشد اقبال نے فرمایا ہے کہ 'فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی‘۔
بیس‘ بائیس برس کی عمر تو نوجوانوں کیلئے کھیلنے کودنے اور رونق میلے کی عمر سمجھی جاتی ہے مگر قدرت نے جن لوگوں سے آگے چل کر عظیم کام لینے ہوتے ہیں انہیں ابتدا ہی سے گہرے غور و فکر اور سنجیدہ کاموں کی طرف متوجہ کر دیتی ہے۔ اس زمانے میں پروفیسر خورشید احمد مولانا مودودیؒ کی کتابوں کی طرف ایسے راغب ہوئے کہ تمام عمر کیلئے نقدِ دل ہار بیٹھے اور مولانا کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ تاحیات تحریک اسلامی سے وابستہ ہو گئے۔ وہ متحدہ پاکستان کی اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظمِ اعلیٰ منتخب ہو گئے۔ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے تو انہیں نوجوانی ہی میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کا رکن بنا لیا گیا۔ لڑکپن سے ہی میرا پروفیسر صاحب کے ساتھ محبت و عقیدت کا لازوال رشتہ قائم ہو گیا۔ یہ رشتہ ان کے اس دنیا سے کوچ کرنے تک قائم رہا۔ ان کی ہر لحظہ گرتی ہوئی صحت اور ان کی عالمی مصروفیات کے بارے میں سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ لیسٹر‘ انگلستان کی اسلامک فاؤنڈیشن میں بیٹھ کر اپنے نشیمن‘ پاکستان سے پوری طرح باخبر تھے۔ کبھی کبھار وہ میرے کالموں کی تحسین بھی فرمایا کرتے اور سلیم منصور خالد صاحب کو ہدایت فرماتے کہ فلاں کالم کی نوک پلک درست فرما کر اسے ترجمان القرآن کی اگلی اشاعت میں شامل کیا جائے۔ ان سے لاہور‘ مکۃ المکرمہ‘ طائف اور اسلام آباد وغیرہ میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
عدیم الفرصت ہونے کے باوجود وہ انتہائی شفقت سے پیش آتے اور پورے غور اور توجہ اس طالب علم کی گزارشات سنتے۔ جماعت اسلامی نے 2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تو میں نے اُس وقت کے امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد کے بے حد ادب و احترام کے باوجود اخباری صفحات میں اس فیصلے سے اختلاف کیا۔ خاکسار ان دنوں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریسی فرائض انجام دے رہا تھا۔ پروفیسر صاحب اُس زمانے میں سینیٹر اور نائب امیر جماعت اسلامی تھے۔ میں اسلام آباد میں اُن کے دولت کدے پر حاضر ہوا اور جماعت اسلامی کی انتخابی بائیکاٹ کی پالیسی کے بارے میں اپنا اختلافی نقطۂ نظر اُن کی خدمت میں پیش کیا۔ پروفیسر صاحب نے نہایت انہماک سے میری گزارشات سنیں اور پھر جماعت کی پالیسی کے دفاع میں دلائل دیے۔ اُن کی اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا کہ دورانِ گفتگو ایک لمحے کیلئے بھی پروفیسر صاحب نے کسی طرح کی جھنجھلاہٹ یا اُکتاہٹ کا اظہار نہ کیا۔
پروفیسر خورشید احمد 22 برس تک سینیٹ آف پاکستان کے ممبر رہے۔ ان سالوں میں انہوں نے جمہوریت‘ دستور و قانون سازی‘ نفاذِ شریعت اور دیگر موضوعات کے بارے میں گراں قدر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ سینیٹ کے اجلاسوں کے ایجنڈے کے مطابق بھرپور تیاری کرتے‘ وہ زیر بحث آنے والے ہر موضوع پر منطقی استدلال سے کام لیتے ہوئے اس کا تجزیہ کرتے۔ وہ تجزیہ و تنقید پر ہی اکتفا نہ فرماتے بلکہ قابلِ عمل تجاویز بھی پیش کرتے۔ سینیٹ میں دورانِ تقریر وہ جذباتیت یا متشددانہ لہجے سے کام نہ لیتے۔ وہ زیر بحث آنیوالے موضوعات کے بارے میں اگر اہلِ مغرب کی کتب سے کچھ پیش کرتے تو کتاب کے ٹائٹل اور اسکے صفحات اور پیرا گراف تک کی عکسی تصاویر اپنی تقریر کے بعد چیئرمین سینیٹ کو پیش کرتے۔ سینیٹ کی کمیٹیوں میں بھی پروفیسر صاحب بھرپور دلچسپی لیتے اور گفت و شنید کے بعد جو طے پاتا اس کو ایوان میں پیش کرنے کیلئے حزبِ اختلاف ہی نہیں حزبِ اقتدار بھی پروفیسر صاحب سے گزارش کرتی کہ وہ ساری کمیٹی کی نمائندگی فرمائیں۔ سینیٹ کی تقاریر میں پروفیسر صاحب محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حق میں ہمیشہ آواز بلند کرتے۔
پروفیسر صاحب کی دلی تمنا تھی کہ مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم محمد علی جناح کے وژن کے مطابق پاکستان دورِ جدید کی اسلامی فلاحی ریاست بن کر دنیا کے سامنے ایک قابلِ تقلید نمونے کی حیثیت سے سامنے آئے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہمارے ناخداؤں نے کشتی کو کنارے پر لگانے کے بجائے اسے ایک سے بڑھ کر ایک گرداب کے حوالے کر دیا۔ یوں تو پاکستان کے سیاسی و عسکری قائدین نے پروفیسر صاحب کی علمی و دینی اور سیاسی خدمات کو بہت سراہا‘ انہیں مشعلِ راہ بھی تسلیم کیا مگر اس راہ پر گامزن ہونے پر کبھی آمادہ نہ ہوئے۔ اسی لیے ہم ابھی تک شاہراہِ دستور کے مسافر بننے کے بجائے ادھر ادھر بھٹکتے پھر رہے ہیں اور صراطِ مستقیم پر آنے کیلئے تیار نہیں۔ پروفیسر صاحب کی علمی و اسلامی خدمات پر اردو‘ انگریزی‘ عربی اور دیگر یورپی زبانوں میں درجنوں کتب جلد ہی منظر عام پر آئیں گی مگر کالم کی تنگ دامانی کے باعث یہاں اتنا عرض کر دوں کہ ان کی اردو و انگریزی میں 120 تصانیف اہلِ نظر سے داد وصول کر رہی ہیں اور ہزاروں لوگوں کیلئے چراغ راہ کا کارِ خیر انجام دے رہی ہیں۔ ملائیشیا اور برطانیہ کی دو دو یونیورسٹیاں پروفیسر صاحب کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں پیش کر چکی ہیں۔ اسی طرح عالمی شہرت یافتہ شاہ فیصل ایوارڈ برائے خدمتِ اسلام بھی انہیں عطا کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی انہیں کئی ایوارڈ پیش کیے گئے۔ ہماری دعا ہے کہ رب العزت انہیں اپنی رضا کا سب سے بڑا ایوارڈ عطا فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دے‘ آمین!