طویل سفر‘ فرصت کے لمحات اور غمِ دوراں

طویل سفر کے دوران مجھے فرصت کے طویل لمحات میسر تھے۔ مرزا اسد اللہ غالب نے کہا تھا کہ
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے
تصورِ جاناں میں اب وہ رعنائی خیال کہاں باقی ہے‘ اس لیے اگر ہمیں فرصت نصیب ہو گی تو غمِ دوراں ہی دامنگیر ہوگا۔ بہرحال یہ فرصت اس لحاظ سے قابلِ قدر تھی کہ اس میں وہ ریزہ ریزہ کام بھی نہیں تھے کہ جن کے بارے میں استاذِ گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا کہ
یہی ریزہ ریزہ جو کام تھے‘ مجھے کھا گئے
ان کاموں سے نجات کے علاوہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی میسر نہ تھی‘ البتہ ایسی فرصت میں دو ایک کتابوں کی رفاقت میسر تھی۔ میں ایک کتاب کے مطالعے میں ہی ایسے کھویا کہ دوسری کتاب کے مطالعے کی نوبت ہی نہ آئی۔ یہ کتاب ایک ایسے شخص کی خود نوشت ہے جو 1950ء سے 1970ء تک کی تین دہائیوں کے دوران ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں کا عینی شاہد اور حکمرانوں کا ہم راز تھا۔ مجھے ثقہ ذاتی معلومات سے یہ علم بھی ہے کہ اس مرحوم بیورو کریٹ نے اپنی کتاب میں کوئی جھوٹی یا فیک بات نہیں لکھی۔ اس کتاب کے مطالعے سے مجھے ایک بار پھر حق الیقین ہوا کہ ہمارا جو بھی سیاسی یا عسکری حکمران برسراقتدار آیا اس کی اقتدار سنبھالنے کے بعد اوّلین یہ خواہش رہی کہ اس کے پاس جتنے بھی اختیارات ہیں وہ ناکافی ہیں‘ انہیں لامحدود کیسے کرنا ہے۔ اپوزیشن کو پابہ زنجیر کیسے کرنا ہے۔ نیز تنقید کو کیسے روکنا ہے‘ اپنے اقتدار کے دوام کے لیے کیا کیا اقدامات ضروری ہیں۔ ہر حکمران کا طریقہ مختلف تھا مگر خواہش مذکورہ بالا ہی۔
آج بھی مختلف قسم کی حیلہ سازی اور قانون سازی سے مکمل اختیارات کیلئے طرح طرح کے جتن کیے جا رہے ہیں اور اپوزیشن کو اس کا آئینی وپارلیمانی حق نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان کے ممتاز صوفی فلاسفر واصف علی واصف سے کسی نے کہا کہ حضور! وطن کے حالات بہت خراب ہیں کیا کیا جائے۔ واصف صاحب نے پوچھا: یہ حالات تم نے خراب کیے ہیں؟ سائل نے عرض کیا کہ میں نے تو خراب نہیں کیے۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا تم ٹھیک کر سکتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ ایسا تو میرے بس میں نہیں۔ اس پر واصف صاحب نے کہا کہ پھر چپ رہو‘ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ مجھے مگر واصف صاحب سے اختلاف ہے۔ حکمرانوں کو اصلاح کی طرف متوجہ تو کیا جا سکتا ہے‘ عملِ خیر کے اسی تسلسل میں ہم مقدور بھر یا ذرہ برابر جو بھی بن پڑتا ہے‘ عرض کرتے رہتے ہیں۔ایوب خان کو آئین کے سلسلے میں خطوط کے ذریعے مشورہ دینے والوں میں دو شخص ایسے ہیں کہ جن کے نام عوام سے پوشیدہ ہیں۔ ایک غلام احمد پرویز‘ دوسرے علی محمد راشدی۔
''پرویز نے ایوب خان کو مشورہ دیا کہ علما کو عوام کے جذبات سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دینا چاہیے اور رفتہ رفتہ ایسا ماحول بنانا چاہیے کہ لوگ مندرجہ ذیل خیالات کو تسلیم کرنے لگیں۔ ایک تو یہ کہ 1956ء کا آئین غیر اسلامی تھا اور اسے منسوخ کرنا ضروری تھا‘ پارلیمانی نظامِ حکومت پاکستان کیلئے موزوں نہیں‘ سیاسی جماعتیں اور مذہبی فرقے غیر اسلامی ہیں۔ پاکستان کیلئے ایک عقلی اور ترقیاتی اسلامی آئین کی ضرورت ہے‘‘۔ نامہ نگار پیر علی محمد راشدی بڑے زمانہ ساز اور پہنچے ہوئے آدمی تھے۔ قیام پاکستان کے وقت وہ کراچی کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر تھے اور سندھ کی سیاست میں بڑے دخیل تھے۔ راشدی صاحب نے پرویز صاحب سے بھی آگے بڑھ کر اسلامی تاریخ کے ''تحقیقی مطالعے‘‘ کی روشنی میں ایوب خان کے سامنے ایک سنسنی خیز تجویز پیش کی۔
''راشدی صاحب کا ایوب خان کیلئے مشورہ یہ تھا کہ وہ ملک میں بادشاہت کا نظام قائم کر دیں۔ راشدی صاحب نے ایوب خان کے نام اپنے خط کی نقل اُن کے وزیر قانون منظور قادر صاحب کو بھی ارسال کی۔ انہوں نے راشدی صاحب کو ایک تفصیلی خط لکھا کہ جس میں اُن کی تحقیق کی تعریف تو بہت کی مگر اس تحقیق کے نتائج کو مضحکہ خیز قرار دیا۔ اس طرح پاکستان بادشاہت کے تجربے سے محروم رہ گیا‘‘۔ اسی طرح میاں نواز شریف صاحب کو امیر المومنین بننے کا مشورہ دیا گیا تھا‘ اس پر کام بھی شروع ہو گیا تھا مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
مذکورہ بالا کتاب کا ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔ ''صدارتی پروگرام کے مطابق بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات جنوری 1960ء میں ہوئے۔ ایوب خان چاہتے تھے کہ وہ نومنتخب نمائندوں سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں جبکہ منظور قادر اس فکر میں تھے کہ نمائندوں سے کیا سوال پوچھا جائے جس کے جواب میں وہ ایوب خان کو اعتماد کا ووٹ دیں۔ بڑی فلسفیانہ بحث کے بعد یہ طے ہوا کہ بنیادی جمہوریتوں کے اراکین سے ایک سادہ سا سوال پوچھا جائے۔ سوال تھا: ''کیا آپ کو صدر فیلڈ مارشل ایوب خان‘ ہلالِ پاکستان اور ہلالِ جرأت پر اعتماد ہے‘‘؟ 95 فیصد سے زیادہ ارکان نے سوال کا جواب اثبات میں دیا۔ ایوب خان نے کوئی وقت ضائع کیے بغیر پہلے منتخب صدر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ عوام کو اس سارے آئینی کھیل سے خارج کر دیا گیا تھا اس لیے صدر نے حلف اٹھاتے ہی آئینی کمیشن کے تقرر کا اعلان کر دیا‘‘۔ یادش بخیر‘ 19دسمبر 1984ء کو جب جنرل ضیاالحق نے ریفرنڈم کا انعقاد کیا تو اس میں بھی میں رائے دہندگان سے اسی قسم کا سوال پوچھا گیا کہ ''کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیا الحق کی جانب سے پاکستان کے قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے‘ نظریۂ پاکستان کے تحفظ اور استحکام کیلئے کیے جانے والے اقدامات کو جاری رکھنے اور عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کی پُرامن منظم تبدیلی کی حمایت کرتے ہیں؟‘‘ عوام کو ہاں یا ناں میں جواب دینا تھا۔ ہاں میں جواب کا مطلب تھا کہ جنرل ضیا الحق اگلے پانچ برس تک یعنی 1990ء تک صدرِ مملکت رہیں گے۔
درج بالا اقتباسات میں نے ملک کے سابق نیک نام بیورو کریٹ‘ ممتاز دانشور اور صحافی‘ پاکستان ٹائمز کے سابق ایڈیٹر جناب الطاف گوہر کی خود نوشت ''گوہر گزشت‘‘ سے لیے ہیں۔ ساتھ ساتھ میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتا رہا۔
ہمارے حکمران جب تک دل وجان سے آئین پر عمل نہیں کریں گے‘ پارلیمانی روایات کے مطابق اپوزیشن کو آزادانہ اس کا کردار ادا نہیں کرنے دیں گے‘ میڈیا کی تنقید کو خوش دلی سے قبول نہیں کریں گے اس وقت تک ملک میں سیاسی استقرار آئے گا اور نہ معاشی استحکام حاصل ہوگا۔
تصحیح: ایک ہفتہ قبل میرا کالم ''چاہِ یوسف سے صدا‘‘ شائع ہوا۔ اس میں کسی غلط فہمی کی بنا پر کچھ اشعار جناب یوسف رضا گیلانی سے منسوب ہو گئے جبکہ یہ اشعار احمد ندیم قاسمی صاحب کے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں