1960ء میں پنڈت جواہر لال نہرو کی شاطرانہ حکمت عملی کے تحت بھارت سے سندھ طاس معاہدہ ہوا اور ورلڈ بینک اور امریکی انتظامیہ کی مداخلت کے بعد پاکستان کے مشرقی دریاؤں ستلج‘ بیاس اور راوی کے پانی کا مکمل کنٹرول بھارت کو دے دیا گیا۔ بھارت نے اس معاہدے اور دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کا مستقبل خشک اور بنجر کرنے کی سازش کی۔ بھارتی حکمرانوں نے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا لیکن دیگر تین دریاؤں کا استعمال بھی پاکستان پر بند کر دیا۔ اب بیاس مکمل سوکھ چکا ہے۔ ستلج اور راوی میں بھارت نے ماحولیات کے تحفظ کا پانی بھی بند کر دیا ہے۔ یہ تاثر یکسر غلط ہے کہ پاکستان کی اُس وقت کی حکومت نے دریا بھارت کو فروخت کر دیے تھے۔ ہم نے تو دریاؤں کے زرعی پانی کا معاہدہ کیا تھا۔ سندھ‘ جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور ستلج‘ راوی اور بیاس کا زرعی پانی بھارت کے پاس چلا گیا مگر بھارت نے ستلج‘ راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر کے سندھ طاس معاہدہ کی روح کی خلاف ورزی کی۔
سندھ طاس معاہدہ پاکستان کیلئے زہرِ قاتل کا ابتدائی مسودہ تھا۔ عالمی بینک کے آبی ماہر رابرٹ ملیس تھل نے 1952ء میں ایک رپورٹ تیار کی تھی اور اس نے یہ رپورٹ بھارت اور پاکستان کا دورہ کر کے ورلڈ پاور کے نام سے ایک مقالے کی صورت میں تیار کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت ان ہیڈ ورکس پر‘ جو اس کے قبضے میں ہیں‘ بند تعمیر کر کے پاکستان کو پانی کی فراہمی بند کر رہا ہے۔ پاکستان کسی قیمت پر آبی بندش برداشت نہیں کرے گا اور یقینا اس مسئلے پر دونوں ملکوں میں پانی کے سنگین مسئلے پر جنگ چھڑ جائے گی اور یہ جنگ برصغیر تک محدود نہیں رہے گی بلکہ رفتہ رفتہ ایشیا اور بعد ازاں ساری دنیا میں پھیل جائے گی اور تیسری عالمی جنگ کی بنیاد بنے گی۔
دراصل یہ رپورٹ مستقبل کے ایک مفروضے کی بنا پر تیار کی گئی تھی اور سپر طاقتوں کو اس اہم ایشو کی طرف متوجہ کرنا اس رپورٹ کا بنیادی ایجنڈا تھا۔ بھارت کے حکمران ہندوستان کی تقسیم کو غیر فطری سمجھتے تھے۔ ابتدا میں وہ سمجھتے تھے کہ چند سال بعد پاکستان اپنا آزادانہ وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا اور خود بھارت سے الحاق کی درخواست کرے گا۔ اسی لیے بھارتی حکمرانوں کی خواہش تھی کہ پانی کی بندش سے پاکستان کو مزید کمزور کیا جائے۔ رابرٹ تھل نے امریکی حکام کو باور کرایا کہ پانی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ مغربی پاکستان بحیرۂ عرب میں گرنے والے پانی کو ذخیرہ کرے۔ اگر پاکستان اور بھارت مل کر اس پانی کو کنٹرول کریں اور جمع کریں تو تمام سرما میں یہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور سارے صحرا سرسبز ہو سکتے ہیں۔ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ پاکستان ستلج‘ راوی اور بیاس کے پانی سے دستبردار ہو جائے اور بھارت اس کے ذریعے ملیر کوٹ اور بیکانیر کو آباد کرے۔ پاکستان اپنے بالائی دریاؤں چناب اور جہلم کے علاوہ دریائے سندھ سے پانی لائے اور ان حصوں تک پہنچائے جنہیں پہلے ستلج‘ راوی اور بیاس سراب کرتے تھے۔بعد ازاں ورلڈ بینک کی معاونت سے تمام دریائوں سے لنک کینال نکالی گئیں اور سوکھ جانے والے دریائوں میں پانی چھوڑنے کا بندوبست کیا گیا۔
اب سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا اعلان کر کے بھارت نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے اور ایسا کرنا صریح اعلانِ جنگ ہے۔ پانی کو روکنا ایسی جارحیت ہے جس کا جواب ملنا لازم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ پاکستان کا حقِ دفاع ہے جسے استعمال کیے بغیر پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ بھارت نے خود کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال لیا ہے۔ شاید بھارت کو سندھ طاس معاہدے کے معطل کرنے کے نتائج کا احساس ہی نہیں اور اس نے یہ اعلان کر کے جنگ سے بچنے کا کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا۔ اگر بھارت نے اس فیصلے کو فوری طور پر واپس نہ لیا تو کچھ بعید نہیں کہ دونوں ممالک میں طبلِ جنگ بج جائے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جنرل ایوب خان پر تین دریا فروخت کرنے کا الزام سراسر سیاسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت تمام بڑے دریا سندھ‘ جہلم‘ چناب‘ ستلج‘ بیاس‘ اور راوی شمال سے جنوب کی طرف بہتے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کا منبع کشمیر اور بھارت کے زیرِ قبضہ علاقوں میں تھا۔ 1948ء میں بھارت نے پاکستان کی طرف بہنے والے پانی کو عارضی طور پر روک دیا تھا جس سے پاکستان کی زرعی زمینوں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کو یہ احساس ہو گیا کہ اگر پانی بھارت کے رحم وکرم پر رہا تو پاکستان کا زرعی مستقبل اور اس کی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ سندھ طاس معاہدہ اس وقت کے حکمرانوں کی سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا اور اس پر 12 سال تک مذاکرات ہوتے رہے‘ جس کے بعد 1960ء میں یہ معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے میں بھارت اور پاکستان‘ دونوں نے قربانیاں دیں۔ کُل پانی کا 80فیصد پاکستان کے حصے میں آیا۔ اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ اس سے پاکستان کو کیا ملا؟ دریائے جہلم‘ چناب اور سندھ مکمل طور پر پاکستان کے کنٹرول میں آ گئے۔ تربیلا‘ منگلا اور چشمہ جیسے بڑے ڈیم بنائے گئے۔ لنک کینالز بنائی گئیں۔ نہری نظام کو بہتر بنایا گیا۔ زرعی پیداوار میں وسعت ممکن ہوئی۔ 65 برس بعد اب بھارت اس معاہدے کو معطل اور پاکستان کے حصے کا پانی نہیں روک سکتا۔یہاں یہ جاننا بھی اہم ہے کہ ایوب خان پر دریائوں کی فروخت کا الزام کیوں لگا۔ دراصل ستلج‘ راوی اور بیاس تاریخی طور پر لاہور‘ فیروزپور اور ملتان کے علاقوں کو سیراب کرتے تھے۔ ان کا پانی بھارت کے پاس جانے سے کچھ بڑے شہروں میں پانی کی قلت ہو گئی۔ لہٰذا اس وقت ایوب آمریت کے مخالف سیاستدانوں اور قوم پرست حلقوں نے اسے ''تین دریا فروخت کرنا‘‘ قرار دیا اور یہ نعرہ ایوب مخالف تحریکوں میں بھی گونجتا رہا۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ''فروخت‘‘ نہیں بلکہ ایک معاہدہ برائے تحفظِ پاکستان تھا۔ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو بھارت ہر وقت پاکستان کا پانی روکنے کی پوزیشن میں ہوتا جو ہماری قومی سلامتی کے لیے زیادہ خطرناک تھا۔ اس معاہدے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو‘ ضیاء الحق‘ بینظیر بھٹو‘ نواز شریف‘ پرویز مشرف اور عمران خان تک‘ کسی پاکستانی حکمران نے کبھی اس معاہدے کو منسوخ کرنے کی کوشش تو دور‘ اس حوالے سے کوئی بات بھی نہیں کی۔ حتیٰ کہ ہماری حکومتیں عالمی عدالتوں میں اسی معاہدے کی بنیاد پر بھارت کے خلاف مقدمات لڑتی رہی ہیں۔ میرے خیال میں ایوب خان کا یہ قدم 'دریائوں کی فروخت‘ نہیں بلکہ ایک ایسا دانشمندانہ اور سٹرٹیجک فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کے پانی پر حق کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کرایا گیا۔ اگر چہ سیاسی بیان بازی کے حد تک تو ٹھیک ہے لیکن جذبات سے ہٹ کر معروضی حقائق یہی ہیں کہ یہ معاہدہ پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر تھا۔