"KMK" (space) message & send to 7575

ڈبل ڈیکر! ایک گمشدہ تختۂ گل

پرسوں نواں شہر چوک سے ڈیرہ اڈہ کی طرف مڑا تو کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے ایک سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکر بس آ رہی ہے۔ ڈبل ڈیکر بس دیکھنا بلکہ اس پر سفر کرنا کم از کم میرے لیے ایسی بات نہیں کہ اس پر حیرانی یا کسی قسم کا تعجب ہو کہ میں نے اس بس پر ابھی دو ماہ قبل ہی لندن میں سفر کیا ہے۔ لندن شہر میں تو سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکر بسیں ایسی بہتات سے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ لندن کے علاوہ مانچسٹر میں بھی ڈبل ڈیکر بسیں ہر طرف چلتی دکھائی دیتی ہیں لیکن حیرانی تب ہوتی ہے جب آپ اس قسم کی دو منزلہ بسوں کو لمبے روٹ پر موٹروے پر چلتے دیکھتے ہیں۔ چار‘ چھ ماہ پہلے میں مانچسٹر سے گلاسگو میگا بس کی ڈبل ڈیکر بس میں گیا تھا اور بالکل بچوں والی حرکت کرتے ہوئے اس کی دوسری منزل پر سب سے اگلی سیٹ پر بیٹھ کر سفر کا لطف لیتا رہا۔ انسان کے اندر کا بچہ اسے چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور اسے سرخوشی سے شرابور کرتا رہتا ہے۔ لیکن ملتان میں ڈبل ڈیکر بس دیکھ کر بہرحال ایک خوشگوار حیرت بھی ہوئی اور یہ حیرت مجھے پچاس‘ پچپن سال ماضی میں لے گئی۔
تب ملتان میں بھی سرخ رنگ کی ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ ان بسوں کا مرکزی ڈپو تو ڈیرہ اڈہ چوک پر ہوتا تھا مگر ان کے دو روٹ بہت معروف ہوتے تھے۔ ایک روٹ چوک شہیداں سے کھاد فیکٹری تک چلتا تھا اور دوسرا روٹ مظفر آباد سے کھاد فیکٹری تک چلتا تھا۔ یہ والا روٹ ملتان کے دو انتہائی سروں کو آپس میں ملاتا تھا۔ ملتان شہر عملی طور پر ان دونوں کناروں کے درمیان ہی ختم ہو جاتا تھا۔ کھاد فیکٹری بھی شہر ختم ہونے کے بعد آتی تھی اور مظفر آباد بھی شہر ختم ہونے کے کئی کلو میٹر بعد آتا تھا۔ ہاں البتہ چوک شہیداں والا روٹ شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے کھاد فیکٹری جاتا تھا۔ میرا گھر چوک شہیداں سے چند سو گز کے فاصلے پر تھا اس لیے میں نے اس روٹ پر چلنے والی بسوں میں بہت بار سفر کیا تھا۔ یہ سفر شاید ہی کبھی ضرورتاً کیا ہو۔ عموماً میں یہ سفر محض لطف اندوز ہونے کیلئے کرتا تھا۔
چوک شہیداں اب تو سارے کا سارا ہی تبدیل ہو گیا ہے۔ کبھی یہ بس جس جگہ سے روانہ ہوتی تھی اس بس سٹاپ کے بالکل سامنے ریاض کی بوتلوں کی دکان تھی۔ ابا جی مرحوم کا ریاض کے ساتھ ایسا معاملہ تھا کہ ہم جب چاہتے ریاض کی دکان سے ابا جی کے کھاتے میں بوتلیں پی لیتے تھے۔ یہ دکان دراصل چھوٹی سی بوتلیں بھرنے کی ایسی فیکٹری تھی جس کے عقبی حصے میں کار بونیٹڈ واٹر کو بوتلوں میں بھرا جاتا تھا اور اس کے فرنٹ پر مختلف اقسام کی بوتلیں از قسم دودھ سوڈا‘ لیمن‘ پائن ایپل‘ اورنج اور لمکا وغیرہ دھڑا دھڑ بک رہی ہوتی تھیں۔ یہ واحد دکان تھی جہاں سے ہم بے دھڑک اور بے حساب بوتلیں پی جاتے تھے۔ ابا جی نے بھی کبھی ہم سے اس رعایت کے بے طرح استعمال پر باز پرس نہیں کی تھی۔ ملتان اومنی بس سروس کا سٹاپ ریاض کی بوتلوں والی دکان جمع منی فیکٹری کے عین سامنے تھا۔
اس سٹاپ سے چلنے والی سرخ رنگ کی بسوں میں ڈبل ڈیکر اور عام بسیں دونوں شامل تھیں لیکن مجھے صرف ڈبل ڈیکر سے دلچسپی تھی۔ پچھلے دروازے کے ساتھ ہی دائیں ہاتھ پر اوپر جانے والی سیڑھی تھی۔ ڈبل ڈیکر سے دلچسپی بھی صرف اس کی اوپر والی منزل کے باعث تھی وگرنہ اس میں اور کیا خاص بات تھی؟ اس میں کنڈیکٹر کی بڑی شان ہوتی تھی۔ خاکی وردی میں ملبوس کنڈیکٹر کے کندھے پر ایک عجیب و غریب چمڑے کا چھوٹا سا بیگ لٹکا ہوتا تھا۔ اس بیگ کے اندر کی جانب تو وہ پیسے وغیرہ ڈالتا تھا لیکن اس کی باہر والی جانب مختلف رنگوں اور قیمتوں کی پانچ چھ مختلف قسم کی ٹکٹیں رکھنے کی جگہیں تھیں جو ٹکٹ کے سائز کے مطابق بنی ہوئی تھیں۔ سب ٹکٹیں رنگ اور قیمتوں میں مختلف ہونے کے باوجود ایک ہی سائز کی ہوتی تھیں۔ تقریباً ایک انچ چوڑی اور تین انچ کے قریب لمبی ان ٹکٹوں کے دونوں کناروں پر سٹاپ نمبر لکھے ہوتے تھے اور آپ نے جس اگلے سٹاپ پر جانا ہوتا تھا کنڈیکٹر ہاتھ میں پکڑی دستی پنچ مشین سے اس سٹاپ نمبر پر سوراخ کر دیتا تھا۔ ٹکٹ کے دائیں بائیں درج سٹاپ نمبر آنے اور جانے یعنی اَپ اور ڈاؤن کے حساب سے لکھے ہوتے تھے۔
میں کبھی کبھار ڈبل ڈیکر پر سفر کا اپنا شوق پورا کرنے کی غرض سے اپنے قیمتی چار آنے خرچ کرتا۔ دو آنے کی ٹکٹ خرید کر چوک شہیداں سے چھاؤنی ریلوے سٹیشن جاتا اور پھر وہاں سے دوبارہ دو آنے کا ٹکٹ خرید کر واپس چوک شہیداں آ جاتا۔ کبھی کبھار تو ایسا کرتا کہ چار آنے نہ ہوتے تو دو آنے کا ٹکٹ خرید کر ڈیرہ اڈہ چلا جاتا اور وہاں سے پیدل واپس گھر آ جاتا۔ ڈبل ڈیکر کی اوپر والی منزل پر بیٹھ کر سفر کرنے کا شوق ایسا تھا کہ واپسی پر پیدل آتے ہوئے رتی برابر ملال یا افسوس نہ ہوتا۔ واپسی کا راستہ اس لطف سے حظ لینے میں گزر جاتا جو جاتے ہوئے ڈبل ڈیکر بس پر بیٹھ کر حاصل ہوا تھا۔ کیا زمانہ تھا اور کیا چھوٹی چھوٹی باتوں سے لطف کشید کرنے کا سماں تھا۔ جیسے جیسے خواہشات کی تکمیل کی دسترس بڑھتی گئی ویسے ویسے بے اَنت خواہشات کا سمندر پھیلتا گیا۔ حتیٰ کہ اس نے خوشیوں کا معیار اتنا اونچا کردیا کہ خوشیاں ہماری دسترس سے نکل کر خدا جانے کہاں چلی گئیں۔
اس ڈبل ڈیکر سے یاد آیا کہ اسّی کی دہائی میں مین مارکیٹ گلبرگ کے قریب پارک میں کسی خوش دل نے لاہور اومنی کی پرانی بیکار سی ڈبل ڈیکر کو رنگ روغن کرکے ایک بالکل نئی شکل دی اور اس میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنا دی۔ یہ لائبریری غلام احمد پرویز کی رہائش گاہ کے قریب تھی۔ میں اس لائبریری میں دو تین بار گیا۔ اس لائبریری میں میرے لیے دو طرح کی کشش تھی۔ ایک یہ کہ اس میں کتابیں تھیں اور دوسری یہ کہ یہ لائبری ایک ڈبل ڈیکر بس میں تھی۔ حالانکہ میں تب ڈبل ڈیکر بس میں سفر کے لیے دو آنے خرچ کرکے سفر کرنے کے شوق کی منزل سے آگے جا چکا تھا مگر دل کے کسی کونے میں کہیں ڈبل ڈیکر بس سے محبت کا جذبہ بہرحال اتنا ماند نہیں پڑا تھا کہ اپنی طرف کھینچ نہ لیتا۔ پھر کارِ زندگی نے اتنا مصروف کر دیا کہ باوجود خواہش کے دوبارہ اس ڈبل ڈیکر والی لائبریری نہ جا سکا۔ بقول فیضی:
یہ عمر تو کسی عجیب واقعے کی عمر تھی
یہ دن فقط سپردِ روزگار کیسے ہو گئے
ایک دوبار دل کیا کہ دوبارہ ادھر جاؤں اور اس ڈبل ڈیکر والی لائبریری میں بیٹھ کر کتاب کھولوں۔ مجھے یقین ہے کہ جب میں یہ کتاب کھولوں گا تو اس میں چالیس‘ پینتالیس سال کی یادوں کا ایک سیلِ رواں ہوگا جو مجھے کہیں سے کہیں بہا کر لے جائے گا لیکن میں صرف اس خوف سے ادھر نہیں جاتا کہ اگر وہ بس والی لائبریری وہاں نہ ہوئی؟ یا اگر اس کا محض ڈھانچہ یا کباڑ وہاں ہوا اور دیگر لائبریریوں کی طرح اگر وہ لائبریری بھی برباد ہو چکی ہوئی تو میرا کیا حال ہوگا؟
میں اپنے بچپن سے وابستہ یادوں کی پٹاری کھولتا ہوں اور اس خوف سے بند کر دیتا ہوں کہ اگر سب کچھ ویسا نہ ہوا تو کیا ہو گا؟ خوبصورت اور حسین یادوں کو برباد ہوتا دیکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ ان کی یادوں سے ہی دل بہلا لیا جائے۔ ایسے میں بانو قدسیہ آپا کا ناولٹ یا طویل افسانہ ''موم کی گلیاں‘‘ بہت یاد آتا ہے۔ ''خرم بھائی کہتے تھے کہ قبرستان کی جانب جنگلی پھولوں کا ایک تختہ ہے‘ میں زندگی کے آخری لمحات گزارنے اس وادی میں چلا جاؤں گا اور اس تختۂ گل پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے سو جاؤں گا۔ رکی ٹکی! سنا ہے جنگلی پھولوں میں ایک مادہ ہوتا ہے کہ لاشیں حنوط ہو جاتی ہیں۔ میں نے مری کا کونہ کونہ چھان مارا لیکن اس تختۂ گل کی طرف اُترنے کا مجھے حوصلہ نہ ہوا‘‘۔ جس نے یہ ناولٹ نہیں پڑھا وہ اردو ادب کے ایسے شاہکار سے محروم رہ گیا ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں