سولر کے بعد آکسیجن پر ٹیکس کا انتظار کیجیے

حکومت کے دلچسپ کارناموں کو اگر یکجا کیا جائے تو ایک پُرلطف ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ حکمرانوں کے ہر کام میں تضاد بلکہ کھلا تضاد موجود ہے۔ پہلے لوگوں کو سولر پینلز لگانے‘ شمسی توانائی کو کام میں لانے اور قدرت کے مفت عطیے سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دی گئی۔ جب سفید پوش کسی نہ کسی طرح زرِ کثیر لگا کر عطیۂ خداوندی سے فیضیاب ہونے پر آمادہ ہو گئے تو حکومت نے طرح طرح کے ٹیکس لگا کر اور سولر پر تیار کی گئی بجلی کی قیمتِ خرید میں یکدم کمی کرکے سولر کو بے معنی کر دیا۔
مرزا اختیار بیگ بیک وقت ایک سنجیدہ سیاستدان اور ایک ماہرِ معیشت ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ اصلاحات کے نام پر بنی ٹاسک فورس نے سولر سسٹم پر ہاتھ ڈالا ہے۔ پہلے سولر کی پیدا کردہ بجلی 27 روپے فی یونٹ خریدی جا رہی تھی‘ اب اس کی قیمتِ خرید صرف دس روپے کر دی گئی ہے گویا اب جو سولر لگائے گا وہ واپڈا کو دس روپے فی یونٹ بجلی فروخت کرکے 37 روپے فی یونٹ واپس خریدے گا۔ پہلے حکومت سولر کی حوصلہ افزائی کر رہی تھی اب اس کی حوصلہ شکنی کر رہی ہے۔ ان حالات میں بیچارے صارفین جائیں تو کہاں جائیں۔ ایک طرف حکومت برآمدات بڑھانے اور زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کمانے پر زور دیتی ہے اور نئی نئی صنعتیں لگانے کی فیوض و برکات گنواتی ہے تو دوسری طرف صنعتکاروں کو مہنگے داموں بجلی فروخت کرے گی تو وہ خسارے کا کام کرنے پر کیونکر تیار ہوں گے۔ اسی طرح حکومت آئی ٹی کے شعبے کے کمالات و امکانات گنواتے نہیں تھکتی اور دوسری طرف انٹرنیٹ وغیرہ کے استعمال پر طرح طرح کی قدغنیں لگا دی جاتی ہیں‘ یہ سب منصوبہ بندی کی ناکامی ہے۔ زبانی دعووں اور زمینی حقائق میں جب ہم آہنگی نہ ہو گی تو مطلوبہ اہداف کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI) کے صدر عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ خطے کے دیگر ممالک میں بجلی کا ریٹ چھ سے سات سینٹ ہے جبکہ پاکستان میں یہ ریٹ 15 سینٹ ہے۔ یہ نرخ ڈبل سے بھی زائد ہیں۔ دیگر ملکوں کی برآمدی مصنوعات پر اٹھنے والی لاگت ہم سے آدھی ہو گی تو ہم عالمی منڈی میں ان کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے۔ ایف پی سی سی آئی کے ذمہ داران اور ماہرینِ معیشت نے لگی لپٹی رکھے بغیر حکومت اور قوم کے سامنے اصل حقائق پیش کر دیے ہیں۔ صنعت و تجارت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی کے بحران کو حل کرکے ہی ایکسپورٹ کے اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اور یہ کہ جب تک حکومت توانائی کی قیمتوں کو خطے کے دیگر ممالک کے برابر نہیں لائے گی اس وقت تک برآمدات بڑھانا اور کشکولِ گدائی توڑنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت اگر اسی طرح کاسۂ گدائی لے کر آئی ایم ایف کے در پر فریادی بن کر حاضر ہونے کو قابلِ فخر سمجھتی ہے تو پھر اپنی مہنگی پالیسی جاری رکھے۔ تاہم اگر حکومت آئی ایم ایف سے گلو خلاصی چاہتی ہے اور ایک باعزت قوم کے شایانِ شان خود کفالت کا درجہ حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اسے اپنی توانائی پالیسی پر فی الفور نظرثانی کرنا ہو گی۔ مرزا اختیار بیگ کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کم از کم دس روپے فی یونٹ کمی ہونی چاہیے۔ اس ماہر معیشت نے حکومت کو متوجہ کیا ہے کہ اگر فی الواقع وہ برآمدات میں اضافہ چاہتی ہے تو پھر صنعتی شعبے کیلئے بجلی کا ریٹ زیادہ سے زیادہ 26 روپے فی یونٹ مقرر کرے۔ اس وقت 42 سرکاری آئی پی پیز ہیں‘ حکومت نے اپنی ساری توجہ ان آئی پی پیز کے منافع پر مرکوز کر رکھی ہے۔ اسی لیے نہ صنعتوں کو سستی بجلی مہیا کی جا رہی ہے اور نہ ہی سولر سے تیار کردہ بجلی مناسب نرخوں پر خریدی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ دنیا بالخصوص امریکہ میں ویتنام اور بنگلہ دیش کے ریڈی میڈ ملبوسات نظر آتے ہیں۔ خواتین کے ملبوسات کے علاوہ مردوں اور بچوں کے سرد و گرم ملبوسات بھی زیادہ تر انہی دو ملکوں سے درآمد کیے جاتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں انڈسٹری کو چھ سے سات ٹکہ فی یونٹ تک بجلی مہیا کی جاتی ہے۔ ہم نے حساب کتاب لگا کر دیکھا تو یہ تقریباً 12 پاکستانی روپے فی یونٹ بنتے ہیں۔
گزشتہ چند برس کے دوران تیسری دنیا کے جن ممالک نے برآمدات کے شعبے میں محیر العقول ترقی کی ہے اور اپنے ملک کیلئے کثیر مقدار میں زرِمبادلہ کما کر خود کفالت کا درجہ حاصل کر لیا ہے ان میں ویتنام پیش پیش ہے۔ 2024ء میں ویتنام کی برآمدات 406 ارب امریکی ڈالرز تک جا پہنچیں۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا ہے کہ امریکہ ویتنام کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے۔ ویتنام کی برآمدات میں معیار کا بطورِ خاص خیال رکھا جاتا ہے اسی لیے ویتنام کی اشیا کیلئے امریکی ڈیمانڈ میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ویتنام سے درآمدات پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے تو پھر اور بات ہے مگر ابھی تک ویتنام کی امریکہ کیلئے برآمدات میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ جہاں تک ویتنام میں انڈسٹری کیلئے توانائی کے نرخوں کا تعلق ہے تو وہ بہت مناسب اور ہمارے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ 2024ء میں وہاں کی بجلی کمپنی نے صنعتوں کیلئے بجلی کے ریٹس بڑھانے کی بات کی تو حکومت نے اس سے اتفاق نہ کیا۔ ویتنام میں انڈسٹری کو کئی ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی مہیا کی جا رہی ہے۔ ایل این جی اور تھرمل پاور پلانٹس وغیرہ سے حاصل کی جانیوالی بجلی انڈسٹری کو فراہم کی جاتی ہے۔
ہمارے اردگرد ماڈل تو ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ چین کا ترقیاتی ماڈل‘ سنگاپور کی چند دہائیوں میں حیران کن ترقی کا ماڈل اور حالیہ برسوں میں اب ویتنام کا برآمدی ماڈل‘ مگر مسئلہ تو یہ ہے کہ ہم کمر کس کے دوچار قدم آگے بڑھتے ہیں مگر پھر آگے بڑھنے کا ارادہ ترک کر کے راستے میں ہی کسی اور طرف چل پڑتے ہیں۔ حکومت کا گہرے غور و خوض کی بنیاد پر منصوبہ بندی کے بجائے زیادہ زور اپنی تشہیر پر ہے۔ ہمارے ماہرین کو تحقیق کرنی چاہیے کہ ویتنام کو برآمدی صنعت کے فروغ میں درجۂ کمال کیسے حاصل ہوا۔کہاں پاکستان کی 32سے 33ارب ڈالر سالانہ برآمدات اور کہاں ویتنام کی 406ارب ڈالر برآمدات۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق ویتنام کے اقتصادی منصوبہ سازوں نے 2025ء کیلئے 454 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا ہے۔ وہ یقینا اس ہدف کو حاصل کر لیں گے۔ جنگ کا محاذ ہو یا اقتصادی ترقی کا میدان ویتنامی جو کام کرتے ہیں دل و جان سے کرتے ہیں اور کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ 1955ء سے لے کر 1975ء تک کی دو دہائیوں میں شمالی اور جنوبی ویتنام کے درمیان جنگ جاری رہی۔ اس جنگ میں امریکہ نے اپنی فوجوں سمیت جنوبی ویتنام کی حمایت کی تھی مگر بالآخر شمالی ویتنام مکمل طور پر جنگ جیت گیا اور امریکہ کو وہاں سے ہزیمت اٹھا کر اپنے سپاہیوں سمیت نکلنا پڑا۔ اس جنگ کے بعد 1976ء میں ویتنام کے دونوں حصے یکجا ہو کر ویتنام بن گئے۔
خیر بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں آ پہنچی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کا وفد وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب سے بھی ملا۔ وزیر خزانہ نے ایکسپورٹ انڈسٹری میں مہنگی بجلی کی بنا پر زیادہ لاگت کا اعتراف کیا اور توانائی کے نرخوں میں کمی کا وعدہ کیا ہے‘ دیکھیے یہ وعدہ وفا ہوتا ہے یا نہیں۔ جب چند برس قبل سولر پینلز لگنے کا آغاز ہوا تو کچھ لوگ کہتے تھے کہ حکومت اس پر بھی اسی طرح ٹیکس لگا دے گی جیسے دوسرے ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی پر طرح طرح کے ٹیکس ہیں۔ اس پر بہت تعجب ہوتا تھا مگر اب سولر پینلز کی درآمد پر ٹیکسوں کے علاوہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی پر طرح طرح کی کٹوتیاں عائد کی گئی ہیں۔ قدرتی شمسی توانائی کے بعد کل کلاں حکومت آکسیجن پر بھی ٹیکس لگا دے تو کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ جب حکومتوں کو جوابدہی کا احساس نہ رہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں