پاکستان کی مغربی سرحد‘ جو افغانستان کے ساتھ ملتی ہے‘ طویل اور دشوار گزار ہے۔ اس خطے نے امن کی تلاش میں ایک کٹھن سفر طے کیا ہے۔ آئے روز اس سرحد سے دراندازی کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں جن کا مقصد پاکستان میں عدم استحکام پھیلانا ہوتا ہے‘ تاہم حالیہ دنوں میں خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور خاص طور پر پاک بھارت تعلقات میں جاری کشیدگی کے پیشِ نظر دہشت گرد عناصر نے اپنی مذموم کارروائیوں کے لیے اس سرحد کو ایک نیا محاذ بنانے کی کوشش کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق افغان سرحد سے بڑی تعداد میں دہشت گردوں نے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی جس کا مقصد ملک کے اندرونی حصوں میں تخریبی کارروائیاں انجام دینا تھا لیکن چوکس اور مستعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے بروقت اطلاع ملنے پر فوری اور مؤثر کارروائی کرتے ہوئے ان کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سکیورٹی فورسز نے 54 خوارج کو ہلاک کر دیا جس سے ان کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔ اس کامیاب کارروائی نے ایک بار پھر پاکستانی فورسز کی پیشہ ورانہ مہارت اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ان کے عزم کو ثابت کر دیا۔ خیبرپختونخوا کی طرح بلوچستان میں بھی دراندازی کے خطرات بدستور موجود ہیں جس کی بنیادی وجہ اس کی طویل اور دشوار گزار سرحد ہے جو ایران اور افغانستان سے ملتی ہے۔ اس سرحدی علاقے کی مکمل نگرانی ایک بڑا چیلنج ہے۔ مزید برآں پہلے سے فعال علیحدگی پسند اور دہشت گرد عناصر کے سرحد پار تخریبی گروہوں کے ساتھ روابط دراندازی کے امکانات کو بڑھا دیتے ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ جب کسی ملک کی سکیورٹی فورسز ایک مخصوص سرحد یا محاذ پر اپنی توجہ مرکوز کرتی ہیں تو دشمن عناصر اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کی موجودہ کشیدگی کے تناظر میں اگر سکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد مشرقی سرحد پر متوجہ ہے تو یہ امکان موجود ہے کہ دہشت گرد گروہ اور دیگر ملک دشمن عناصر مغربی سرحد یا ملک کے کسی اور کم توجہ والے حصے میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے کی کوشش کریں۔ وہ ایسی صورتحال میں دراندازی‘ تخریب کاری یا کسی بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں تاکہ ملک کو بیک وقت کئی محاذوں پر غیر مستحکم کیا جا سکے۔ افغانستان سے دراندازی کرنے والے خوارج کے منصوبے کو بروقت ناکام بنا کر سکیورٹی فورسز نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ دشمن کو کسی بھی مقام سے حملہ آور ہونے کا موقع نہیں دیں گی۔
سکیورٹی فورسز کا بیک وقت تمام سرحدوں پر مصروف رہنا بلاشبہ ایک کٹھن عمل ہے جس کے نتیجے میں وسائل پر شدید دباؤ آتا ہے اور قومی خزانے پر اضافی اخراجات کا بوجھ پڑتا ہے۔ انتظامی سطح پر بھی متعدد محاذوں پر کارروائیوں کو مربوط کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسی صورتحال سے عموماً دشمن فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے جس کا مقصد سکیورٹی فورسز کے وسائل کو مختلف محاذوں پر پھیلا کر کسی ایک مقام پر ان کی قوت کو کمزور کرنا‘ ایک سرحد پر توجہ مرکوز کروا کر دوسری جگہ حملہ کرنا‘ ملک میں افراتفری پیدا کرنا اور معاشی دباؤ بڑھانا ہوتا ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک جامع سکیورٹی حکمت عملی کے ساتھ ساتھ قومی اتفاقِ رائے کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا بیرونی دشمن کے خطرات کی موجودگی میں سیاسی قیادت کی اولین ترجیح باہمی اتحاد و اتفاق کو فروغ دینا ہونی چاہیے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ دشمن ہمیشہ اندرونی اختلافات اور تقسیم کا فائدہ اٹھانے کی تاک میں رہتا ہے۔ سیاسی قیادت کی جانب سے اتحاد پر غیرمعمولی توجہ نہ صرف قوم کو یکجا کرتی ہے بلکہ دشمن کو یہ واضح پیغام بھی دیتی ہے کہ بیرونی خطرات کے مقابلے میں پوری قوم متحد اور ایک پیج پر ہے۔ آپس کے اتحاد پر توجہ دینے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے انفرادی اور گروہی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد کو مقدم جانیں۔ مشترکہ قومی اہداف کو ترجیح دیں اور ان کے حصول کے لیے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کریں۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن کا ایک میز پر بیٹھ کر تبادلہ خیال کرنا‘ اہم قومی معاملات پر اتفاقِ رائے پیدا کرنا اور ایک دوسرے کے مثبت پہلوؤں کو سراہنا شامل ہے۔ اسی طرح سیاسی قیادت کو اپنے بیانات اور رویوں میں انتہائی محتاط رہنا چاہیے۔ کسی قسم کی اشتعال انگیزی‘ الزام تراشی یا تفرقہ انگیز گفتگو سے گریز کرنا چاہیے‘ جو قوم میں تقسیم پیدا کر سکتی ہے۔ مثبت اور مصالحانہ انداز اختیار کرنا چاہیے تاکہ اعتماد کی فضا قائم ہو اور باہمی رنجشیں کم ہوں۔
سیاسی قیادت کو ایک مشترکہ قومی بیانیہ تشکیل دینے میں کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔ یہ بیانیہ ملک کی سلامتی‘ خودمختاری اور قومی مفادات کے تحفظ پر مبنی ہو اور اس میں تمام طبقات اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ اس بیانیے کے ذریعے قوم کو یہ احساس دلایا جا سکے کہ بیرونی خطرے کے مقابلے میں سب ایک ہیں اور مل کر اس کا مقابلہ کریں گے۔ یہ خوش آئند اور مثبت پیش رفت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے بھارت کے ساتھ کشیدگی کے موقع پر حکومت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ قومی سلامتی کے نازک معاملات پر سیاسی جماعتوں کا متحد ہونا ملک کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ جب ملک کو بیرونی خطرات کا سامنا ہوتا ہے تو تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو مقدم رکھتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کی حمایت کا اعلان نہ صرف قومی یکجہتی کا مظہر ہے بلکہ اس سے بین الاقوامی سطح پر بھی یہ پیغام جاتا ہے کہ پاکستانی قوم کسی بھی بیرونی خطرے کے خلاف متحد ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں سیاسی جماعتوں کا اتحاد دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے اور ملک کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ اقدام سیاسی پختگی کا بھی عکاس ہے کیونکہ جب سیاسی قیادت اس طرح باہمی اتحاد و اتفاق پر توجہ مرکوز کرتی ہے تو اس سے قوم میں ایک مضبوط اور متحد محاذ بنتا ہے۔ دشمن اس صورتحال میں کسی بھی اندرونی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا‘ اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ ایک مضبوط اور متحد قوم کے خلاف برسرپیکار ہے۔
یہ پاکستانی قوم کی قابلِ تحسین خوبی ہے کہ جب بھی وطن عزیز کو کسی کٹھن مرحلے‘ خواہ وہ کشمیر کا حساس معاملہ ہو یا پاک بھارت کشیدگی کے نازک لمحات اور ماضی میں جنگوں کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو‘ اس نے ہمیشہ بے مثال قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ اتحاد محض ایک اتفاق نہیں بلکہ اس سرزمین کے باسیوں کے دلوں میں موجزن حب الوطنی اور مشترکہ شناخت کا اٹوٹ بندھن ہے۔ ہر رنگ و نسل‘ ہر عقیدے اور ہر سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر پاکستانیوں نے اپنی صفوں میں ایسا فولادی اتحاد قائم کیا ہے جس نے ہمیشہ بیرونی طاقتوں کو حیران اور مایوس کیا ہے۔ یہ قومی یکجہتی کسی ایک گروہ تک محدود نہیں رہی بلکہ معاشرے کے ہر طبقے نے سیاسی قائدین سے لے کر عام شہری تک ایک آواز ہو کر اپنے وطن کی حرمت اور سلامتی کے لیے اپنی جانیں تک قربان کرنے کا عزم دکھایا ہے۔ مشکل کی ہر گھڑی میں اس قوم نے جس صبر‘ استقامت اور باہمی تعاون کا مظاہرہ کیا ہے وہ نہ صرف ہماری تاریخ کا ایک زریں باب ہے بلکہ مستقبل کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ قومی اتحاد دشمن کے لیے ایک واضح اور غیرمبہم پیغام ہے کہ پاکستانی قوم اپنی سرحدوں اور اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے ہمیشہ متحد اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہے گی۔