عدی بن حاتم کا بیان ہے کہ میں نے اپنے دل میں کہا: ''خدا کی قسم یہ بادشاہ تو نہیں ہے‘‘۔ بڑھیا سے فارغ ہو کر آپﷺ مجھے گھر لے گئے۔ چھوٹے سے گھر میں آپﷺ نے ایک گدا میری طرف بڑھایا۔ وہ کھجور کے پتوں سے بھرا ہوا چمڑے کا گدا تھا۔ مجھ سے فرمایا: ''اس کے اوپر بیٹھ جاؤ‘‘۔ میں نے عرض کیا: ''نہیں‘ آپ اس پر تشریف رکھیں‘‘۔ مگر آپﷺ نے حکم دیا: ''نہیں‘ تم اس پر بیٹھو‘‘۔ میں گدے پر بیٹھ گیا جبکہ رسولِ مقبولﷺ زمین پر تشریف فرما ہوئے۔ اب پھر میں نے دل میں کہا: ''خدا کی قسم یہ معاملہ (روایتی) بادشاہوں والا تو نہیں ہے‘‘۔
اب آپﷺ نے مجھ سے فرمایا: ''اے عدی بن حاتم! کیا تُو رکوسی فرقے سے تعلق نہیں رکھتا‘‘؟ (رکوسی ایک مذہبی گروہ تھا جن کے دینی عقائد و رسومات صابیوں اور مسیحیوں کے بین بین تھے) میں نے عرض کیا: ''جی ہاں میں رکوسی ہوں‘‘۔ آپﷺ کا دوسرا سوال تھا: ''کیا تم اپنی قوم سے مالِ غنیمت کا چوتھا حصہ وصول نہ کرتے تھے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ''جی ہاں‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: ''یہ وصولی تمہارے دین کے مطابق حلال بھی نہ تھی‘‘۔ میں نے تسلیم کیا کہ حضورﷺ کا فرمان درست ہے۔ اب میں بخوبی جان گیا کہ آپﷺ اللہ کے رسولِ برحق ہیں۔ جو باتیں عربوں کو ہرگز معلوم نہ تھیں‘ آپﷺ ان سے اچھی طرح واقف تھے۔
اب آپﷺ نے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا‘ فرمایا: ''اے عدی شاید دینِ اسلام میں داخل ہونے سے تمہیں یہ امر مانع ہے کہ اہلِ اسلام کی مالی حالت بہت کمزور ہے؟ خدا کی قسم مال و دولت کی ایسی ریل پیل ہو جائے گی کہ دینے والے سبھی ہوں گے اور لینے والا کوئی نہ ہو گا۔ اور شاید تجھے اس چیز کی بھی پریشانی ہو کہ یہ لوگ تو تعداد میں بہت قلیل ہیں اور پوری دنیا ان کی دشمن ہے؟ خدا کی قسم! اس دین کا غلبہ یوں ہو گا کہ تُو سن لے گا اور دیکھ لے گا کہ ایک خاتون زیورات سے لدی پھندی تن تنہا اپنے اونٹ پر قادسیہ سے سوار ہو گی اور حج بیت اللہ کے لیے مکہ کا سفر کرے گی۔ اسے کوئی ڈر اور خطرہ نہ ہو گا۔ اے عدی! ممکن ہے کہ تُو نے سوچا ہو دنیا میں بہت سے بادشاہ اور سلاطین ہیں اور ان لوگوں میں کوئی تاجدار نہیں۔ بخدا تُو سن لے گا کہ بابل کے سفید محلات ان لوگوں کے ہاتھوں فتح ہو جائیں گے‘‘۔ عدی کہتے ہیں: ''یہ سن کر میں نے اسلام قبول کر لیا‘‘۔ وہ کہا کرتے تھے: ''میں نے دو باتیں تو دیکھ لی ہیں۔ بابل کے محلات بھی فتح ہو چکے ہیں اور قادسیہ سے تنہا سفر کرنے والی خاتون بھی میں نے دیکھی۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تیسری بات بھی ضرور پوری ہو کر رہے گی اور صدقہ و خیرات لینے والا کوئی نہ رہے گا‘‘۔ (معجزاتِ سرورعالمؐ، صحیح البخاری)
نبی اکرمﷺ نے حضرت عدیؓ بن حاتم طائی سے اپنی گفتگو میں تین باتوں کی طرف خصوصی طور پر اشارہ فرمایا۔ آپﷺ کی سیرت کا کمال یہ ہے کہ اس کا مطالعہ کریں تو ہر دور میں پیش آمدہ مسائل و مشکلات میں رہنمائی اور روشنی ملتی ہے۔ جن تین چیزوں کی طرف آپﷺ نے اشارہ فرمایا تھا اور جو عدی بن حاتم طائی کے قبولِ اسلام میں بظاہر رکاوٹ تھیں ان میں پہلی چیز معاشی تنگ دستی اور مادی وسائل کی قلت ہے۔ دوسری چیز امن و امان کی کیفیت ہے جو اُس وقت بہت ناگفتہ بہ تھی۔ تیسری دنیا کی سپر طاقتوں اور تاجداروں کا خطرہ‘ جو اپنے مقابلے پر نہ کسی کو برداشت کرتے ہیں نہ سر اٹھانے کا موقع دیتے ہیں۔ آج بھی کم و بیش یہ تین مسائل امت کو بڑی شدت سے درپیش ہیں۔
آنحضورﷺنے جو نظام دنیا میں متعارف کرایا تھا‘ اس کی برکات سے تمام رکاوٹیں راستے سے ہٹتی چلی گئیں اور منزل واضح اور آسان ہو گئی۔ معاشی تنگ دستی کی وجہ لوٹ کھسوٹ‘ بدعنوانی اور عدل و مساوات کا فقدان ہوتا ہے۔ جب ان برائیوں کی اصلاح کر لی جائے تو کسی بھی معاشرے کی معیشت توانا اور مضبوط ہونے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ زکوٰۃ و صدقات کا نظام‘ انفاق فی سبیل اللہ اور سخاوت کی نشوونما‘ محروم طبقات کو پاؤں پہ کھڑا کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ آنحضورﷺ نے مال میں سائل اور محروم کا حق‘ اہلِ ثروت سے وصول کر کے محتاجوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا تھا۔ کسی بھی معاشرے میں یہ اصول اختیار کر لیے جائیں تو غربت و افلاس کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے۔ ہر شخص دینے والا ہوتا ہے اور بالآخر ایک موقع ایسا آتا ہے کہ لینے والا کوئی ایک بھی نظر نہیں آتا۔ آنحضورﷺ کی یہ پیش گوئی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دورِ خلافت میں پوری ہوئی۔ اس وقت زکوٰۃ دینے والے اپنے قبیلے اور علاقے میں تلاشِ بسیار کے باوجود کوئی حاجت مند نہ پاتے تو اپنی زکوٰۃ و صدقات بیت المال میں لا کر جمع کرا دیتے۔
یہ سوال بھی آج عام ہے کہ امت مسلمہ میں مشرق سے مغرب تک افراتفری‘ بدامنی‘ لاقانونیت اور قتل و غارت گری کیوں ہے؟ حقیقت میں اس کی وجہ بھی بدعنوان حکمران‘ مفسد نظامِ حکومت اور شریعتِ اسلامیہ کی معطلی ہے۔ عرب کے فساد زدہ معاشرے میں اسلامی نظامِ خلافت‘ قانونِ شریعت اور عدلیہ کے بہترین نظام کی وجہ سے جرائم مکمل طور پر ختم ہو گئے تھے۔ لوگ ہر جگہ مامون و محفوظ تھے اور کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ عہدِ خلافتِ راشدہ میں یمن سے حجاز تک تنہا خاتون بھی بلا خوف و خطر سفر کر سکتی تھی۔ آج بھی اگر مسلم ممالک میں وہ نظام نافذ ہو جائے تو شب و روز بدل جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ لوگ جنگل کے اس ماحول میں خود کو غیرمحفوظ بھی سمجھتے ہیں اور پھر ساتھ بھی اُن لوگو ں کا دیتے ہیں جو اسلامی قانونِ حدود و تعزیرات کو نعوذ باللہ غیرمہذب اور وحشیانہ قرار دیتے ہیں۔ اس سوچ و فکر اور طرزِ عمل کے نتیجے میں کہاں سے امن و امان مل سکتا ہے۔
آنحضورﷺ کے دور میں قیصر و کسریٰ نے خود کو سپر منوا لیا تھا‘ ساری دنیا ان کے سامنے دبکی بیٹھی تھی۔ ہمارے دور میں روس اور امریکہ کو قیصر و کسریٰ کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران حالات بدل گئے ہیں اور اب امریکہ نے دنیا کو اپنی نام نہاد سپریمیسی کے ذریعے اپنی باجگزار کالونی بنا لیا ہے۔ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ امریکہ کے سامنے دم مارنا ممکن نہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ قیصر ہلاک ہو جائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا۔ کسریٰ شکست کھا کر بھاگ جائے گا اور اس کے بعد کوئی کسریٰ نہیں ہو گا۔ حضرت عدیؓ کو آپﷺ نے بابل کے محلات کی فتح کی خوش خبری سناتے ہوئے اسی جانب اشارہ کیا تھا۔
حضرت عدیؓ نے تو اپنی آنکھوں سے آنحضورﷺ کی دونوں پیش گوئیاں پوری ہوتی دیکھی تھیں اور تیسری کے پورا ہونے کا انہیں مکمل یقین تھا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ وہ تیسری پیش گوئی بھی پوری ہو کر رہی اور زیادہ لمبے عرصے بعد نہیں بلکہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں پوری ہو گئی جو اگرچہ صحابی نہیں‘ مگر تابعی تھے۔ آج کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ روس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکہ بظاہر بلا شرکتِ غیرے سپر طاقت بنا بیٹھا ہے مگر امریکہ کا زوال بھی نوشتۂ دیوار ہے۔ امریکہ عنقریب مفتوح ہو گا۔ جب ہم مفتوح ہونے کی بات کرتے ہیں تو فوجی حملے اور اسلحے کا استعمال پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ امریکہ کو اسلام کی روشنی مسخر کرے گی‘ قرآن و سنت کی حقانیت ذہنوں کو تبدیل کرے گی اور سیرتِ اسلامی دلوں کو فتح کرنے کا ذریعہ بنے گی۔
آج حالات بتا رہے ہیں کہ امریکہ میں نو استعماری ذہن اپنے نظریات زیادہ دیر مارکیٹ میں نہیں چلا سکے گا۔ ایک تجسس و جھنجھلاہٹ‘ مایوسی و نا امیدی اور امریکی نظام کی دنیا بھر میں تاخت و تاراج سے اکتاہٹ‘ امریکہ کے کونے کونے میں نمایاں نظر آتی ہے۔ جس تیزی سے مسلمانوں کی آبادی مغرب میں بڑھ رہی ہے اور غیر مسلم سکڑ رہے ہیں اس کے نتیجے میں ان شاء اللہ بابل و مدائن کی طرح واشنگٹن پر بھی اسلام کا جھنڈا ضرور لہرائے گا۔