میں اِن دنوں پردیس میں ہوں۔ حافظ حسین احمد کے انتقال کی خبر یہیں ملی۔ اُن کی زندگی میں جب کبھی اُن کا خیال دل میں آتا تو لبوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی۔ اُن کا تصور شگفتگی و برجستگی سے وابستہ تھا۔ اب اُن کی جدائی کے خیال سے آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ یہ کیسا سانحہ ہو گیا؟
حافظ صاحب کے ساتھ محبت اور عقیدت کا رشتہ تھا۔ وہ جمعیت علمائے اسلام کے ایک طویل عرصے تک نفسِ ناطقہ یعنی اُس کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھے۔ بھائی فرید کو فون کیا تاکہ اُن کے کسی صاحبزادے کا فون نمبر مل سکے تو تعزیت کر لی جائے۔ اُن کے پاس بھی میری طرح حافظ صاحب ہی کا نمبر تھا مگر اب وہاں سے کوئی مسکراتی اور دلوں میں رس گھولتی ہوئی صدا نہیں آئے گی۔ زندگی بھر اُن کے لب تبسم آشنا ہی رہے۔ وقتِ مرگ بھی یقینا ایسا ہی ہوگا۔ مرشد اقبال نے مردانِ حق کے بارے میں جو کچھ ارمغانِ حجاز کہا تھا حافظ حسین احمد بھی انہی میں سے ایک تھے۔ علامہ فرماتے ہیں:
نشانِ مردِ مومن باتو گویم؍ چوں مرگ آید تبسم برلبِ اوست
میں مرد مومن کی نشانی اور کیا بتاؤں‘ جب موت آتی ہے تو اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہوتی ہے۔ مجھے ہمدم دیرینہ جاوید نواز صاحب کا خیال آیا جن کے حافظ حسین احمد سے قریبی برادرانہ تعلقات تھے۔ میں نے سوچا کہ اُن سے تو فی الفور تعزیت کر لینی چاہیے۔ پاکستان کے وقت کا حساب کتاب لگا کر اُن سے بات کی‘ پہلے چند لمحوں تک تو ہماری گفتگو میں نمناک اور غمناک فضا قائم رہی پھر حافظ صاحب کی شگفتگی و برجستگی اور پارلیمنٹ کے ایوانوں اور لاجز میں اُن کی چھوڑی ہوئی پھلجھڑیوں سے گونجنے والے قہقہوں کا تذکرہ ہوتا رہا۔ میں نے جاوید نواز سے پوچھا کہ حافظ صاحب سے آپ کی محبت و قربت کا آغاز کب ہوا تھا؟ انہوں نے کہا کہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں بس چار عشروں سے اُن کیساتھ قلبی روابط قائم تھے۔ جاوید نواز نے بتایا کہ رسمی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی میں نے تعمیراتی ٹھیکوں کا کام شروع کر دیا۔ 1980ء میں ہمیں کوئٹہ میں ورلڈ بینک کی طرف سے گندم محفوظ کرنے کے بڑے بڑے گوداموں کی تعمیر کا ٹھیکہ ملا تو میرا کوئٹہ آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرے پہلے وزٹ پر ہی حافظ صاحب کے نہایت اچھی شہرت رکھنے والے دینی مدرسے مطلع العلوم میں اُن سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد ہم اُنکے ایسے اسیر ہوئے کہ اُن سے روحانی و قلبی محبت قائم ہو گئی۔ حافظ صاحب بھی مجھ پر بہت مہربان تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں جاوید نواز کا کہنا ہے کہ میں نے انہیں دینی تعلیم کیساتھ ساتھ جدید دنیاوی تعلیم انگریزی و کمپیوٹر وغیرہ کی تدریس کو رائج کرنے کی رائے دی جسے انہوں نے نہایت خوشدلی سے قبول کرلیا اور بتایا کہ انگریزی تعلیم کا کچھ انتظام پہلے سے موجود ہے۔
حافظ صاحب 1951ء میں وادیٔ کوئٹہ میں پیدا ہوئے انہوں نے کوئٹہ سے ہی دینی تعلیم حاصل کی۔ قرآن و حدیث‘ عربی ادب اور فقہ میں انہوں نے خصوصی مہارت حاصل کی۔ اس کے علاوہ حافظ صاحب نے اپنی ذاتی دلچسپی سے تاریخ ‘ سیاست اور صحافت کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان علوم کیساتھ ساتھ اُن کی نکتہ آفرینی اور شگفتہ بیانی نے انہیں دوسرے خطیبوں اور مقررین سے منفرد اور ممتاز مقام عطا کیا تھا۔حافظ صاحب اپنے سیاسی سفر کے دوران 1988ء سے 1990ء تک مستونگ بلوچستان سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1991ء اور 1994ء کے دوران سینیٹ کے رکن رہے جبکہ 2002ء سے 2007ء تک رکن قومی اسمبلی رہے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں تدریسی و انتظامی فرائض انجام دے رہا تھا اور بھائی فرید پراچہ بھی رکن قومی اسمبلی تھے جو بڑی محنت سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں کیلئے تیاری کرتے اور بھرپور حصہ لیتے۔ اسی طرح حافظ صاحب بھی اپنی تیاری و خوش بیانی سے ایوان میں سماں باندھ دیتے تھے۔ اس زمانے میں حافظ صاحب سے اسمبلی کی گیلریوں اور پارلیمنٹ لاؤنج میں ملاقاتیں ہوتی رہیں جو بعد ازاں ٹیلی فون پر زیادہ اور کبھی کبھی لاہور میں اُنکی آمد پر بالمشافہ بھی جاری رہیں۔ 2002ء والی اسمبلی میں بڑی بڑی شخصیات نے اپنا رنگ جمایا۔ کے پی سے منتخب ہونے والے جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد بھی اسی اسمبلی کے رکن تھے۔ مولانا فضل الرحمن اپوزیشن رہنما تھے۔ اُنکے ساتھ اتحاد میں مسلم لیگ (ن) شامل تھی۔
بہرحال پارلیمنٹ میں حافظ صاحب کا رنگ نرالا تھا۔ وہ ایوان کے اندر اور باہر حاضر جوانی اور خوش بیانی اور پارلیمانی حدود کے اندر خوبصورت طنز و مزاح سے پیدا کردہ نکتہ آرائیوں میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھتے تھے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک نظریاتی پارلیمانی مدبر سیاستدان تھے۔ حافظ صاحب طنزیہ گفتگو بھی نہایت نپے تلے اور مدلل انداز میں کرتے تھے۔ 2002ء کے الیکشن میں پرویز مشرف نے ''طلسماتی‘‘ طور پر( ق) لیگ کو جتوا دیا۔ پیپلز پارٹی کے اندر سے برآمد کردہ پیٹریاٹ نے (ق) لیگ کیساتھ مل کر حکومت بنا لی جبکہ مولانا فضل الرحمن قائد حزبِ اختلاف تھے۔پرویز مشرف کا لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) آئین پر حاوی رہا جبکہ اپوزیشن نے اسمبلی کے اندر اور باہر اس آرڈر کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔ اسی اسمبلی میں (ق) لیگ کی ایک خاتون رکن بھی اپنی دلکش شخصیت اور شوخیٔ بیان کیساتھ ایوان میں اکثر جلوہ گر رہتی تھیں۔ ایک روز اپوزیشن کے ارکان پارلیمنٹ ہاؤس میں ایل ایف او نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے باہر نکلے۔ ارکان کے سینوں پر اسی نعرے کے سٹیکر لگے تھے۔ حافظ حسین احمد کے سینے پر آویزاں ''نامنظور‘‘ دیکھ کر پاس سے وہ خاتون گزریں تو اُن کی رگِ ظرافت پھڑکی اور انہوں نے کہا: حافظ صاحب آپ نامنظور سٹیکر سے ''نا‘‘ ہٹا دیں۔ اس پر حافظ صاحب نے برجستہ جواب دیا: کشمالہ! آپ ''ہاں‘‘ کر دیں میں ''نا‘‘ ہٹا دوں گا۔ اس جملے پر ہر طرف قہقہے ابل پڑے۔
ہماری مولانا فضل الرحمن سے بھی نیاز مندی ہے تاہم ان کا اپنا الگ طرزِ سیاست ہے۔ 2020ء میں میاں نواز شریف کی قائم کردہ پی ڈی ایم میں مولانا فضل الرحمن نے شمولیت کا فیصلہ کیا تو حافظ صاحب نے اس شمولیت کی مخالفت کی۔ حافظ صاحب مولانا کے بہت مداح تھے مگر ''یس باس‘‘ ہرگز نہ تھے۔ مولانا نے پہلے حافظ صاحب کو سیکرٹری اطلاعات کے منصب سے ہٹایا اور پھر اُن کی پارٹی رکنیت پر نظرثانی کرنے کیلئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی۔ کمیٹی نے بھی حافظ صاحب کی جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ پینتیس چالیس برس پرانی رفاقت کی پروا کیے بغیر حافظ صاحب کی رکنیت ختم کر دی۔ ظاہر ہے حافظ صاحب کے دل میں اس فیصلے سے بہت تلخی پیدا ہوئی مگر اُن کا کہنا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام پہلے میری اور پھر مولانا کی ہے۔ انہوں نے پارٹی چھوڑی نہ ہی کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کی۔ حافظ صاحب کو برسوں سے گردوں کا مرض لاحق تھا‘ پہلے تو وہ کوئی دیسی علاج کراتے رہے مگر آخر میں انہیں ڈائلیسز کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کچھ عرصے کے بعد مولانا فضل الرحمن کو اپنے دیرینہ رفیق کی یاد آئی تو وہ کوئٹہ میں حافظ صاحب کی رہائش گاہ پر جا پہنچے۔ اس ملاقات کے بعد حافظ صاحب واپس جمعیت علمائے اسلام میں آ گئے۔ اپنی وفات سے چھ سات برس قبل وہ جاوید نواز صاحب کے صاحبزادے سلمان کی تقریب شادی میں بطور خاص کوئٹہ سے لاہور تشریف لائے اور خطبۂ نکاح ارشاد کیا۔ اس موقع پر حافظ صاحب سے تجدید ملاقات ہو گئی۔ وہ بہت محبت سے ملے۔ غالباً اڑھائی تین سال قبل وہ لاہور تشریف لائے اور منصورہ میں بھی وہ ڈائلیسز کیلئے آتے تھے۔ بہرحال اُن سے ٹیلی فون پر ملاقات طے ہوئی اور انہوں نے بیماری کے باوجود غریب خانے کو رونق بخشی۔
محاورتاً نہیں حقیقتاً حافظ صاحب جیسی دینی بصیرت‘ نظریاتی سیاست اور شگفتہ شخصیت کی جدائی سے پیدا ہونے والا خلا شاید کبھی پُر نہ ہو سکے گا۔