امن وامان کی مخدوش صورت حال

جمعۃ المبارک کے روز نمازِ جمعہ کے بعد جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ اور جامعہ حقانیہ کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق کو خودکش بمبار نے جامعہ کی مرکزی مسجد کے باہر نشانہ بنایا۔ چھ کلو وزنی دھماکا خیز مواد کے ساتھ خودکش دہشت گرد نے نہایت خوفناک حملہ کیا۔ اس کے نتیجے میں مولانا سمیت چھ افراد کو جامِ شہادت پینا پڑا اور 20 شدید زخمی ہوئے‘ نیز مسجد کی عمارت کو بھاری نقصان پہنچا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ جامعہ حقانیہ کوئی معمولی دینی درسگاہ نہیں بلکہ اس کا سارے علاقے میں بے حد احترام پایا جاتا ہے۔ جی ٹی روڈ پر واقع ضلع نوشہرہ کی تحصیل اکوڑہ خٹک کے مقام پر قیامِ پاکستان کے صرف ایک ماہ بعد ستمبر 1947ء میں عالمی شہرت یافتہ دارالعلوم دیوبند کی طرز پر ا سی مکتبِ فکر کی درسگاہ کی بنیاد مولانا حامد الحق کے دادا اور مولانا سمیع الحق کے والدِ محترم مولانا عبدالحق نے رکھی تھی۔
خیبر پختونخوا کے علاوہ پاکستان کے تقریباً ہر حصے سے تشنگانِ علم یہاں آ کر اپنی پیاس بجھاتے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ زیورِ تربیت سے بھی آراستہ ہوتے ہیں۔ ماضی میں افغانستان سے بھی طلبہ آتے اور جامعہ کے واجب الاحترام اساتذہ سے کسبِ فیض کرتے اور اسنادِ فضیلت حاصل کرتے تھے۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد انہی طلبہ میں سے کچھ جہادِ افغانستان میں شامل ہوتے رہے اور انہی میں سے بعض نے طالبان کے نام سے پہلے اپنی حکومت قائم کی اور پھر اقتدار سے محروم ہو کر غیر ملکی فوجوں سے اپنے ملک کی آزادی کے لیے سرگرم عمل ہو گئے۔ جب کبھی طالبان حکومت کے کسی بھی دور میں اُن کے ساتھ بات چیت کی ضرورت پیش آتی تو حکومتِ پاکستان اکوڑہ خٹک کے علماء کے اثر ورسوخ کو استعمال کرتی۔ بعض اوقات مولانا سمیع الحق اور 2018ء میں ان کی اسی طرح کی دہشت گردی کے واقعہ میں شہادت کے بعد اُن کے نہایت اعتدال پسند صاحبزادے مولانا حامد الحق براہ راست یا بالواسطہ سفارت کاری کے لیے مؤثر کردار ادا کرتے رہے۔ حقانی نیٹ ورک کے کئی اہم رہنماؤں نے اسی درسگاہ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان میں سراج الدین حقانی بھی شامل ہیں جو حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنما اور طالبان کے نائب سربراہ ہیں۔
عبدالحکیم حقانی طالبان کی عبوری حکومت میں چیف جسٹس اور وزیر قانون کے اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ یہ جامعہ حقانیہ ہی کے طالبعلم رہے ہیں۔ اسی جامعہ کے ایک اور سابق طالبعلم خیر اللہ خیر خواہ طالبان کی موجودہ حکومت میں وزیر اطلاعات وثقافت کے اہم عہدے پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح اس دینی درسگاہ سے وابستہ رہنے والے کئی اور طلبہ افغانستان کی موجودہ طالبان حکومت میں اہم ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اس ساری تفصیل کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جامعہ کے لیے اتنا احترام رکھنے والوں یا افغانستان میں موجود کسی اور عسکری نیٹ ورک سے یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ انہوں نے اپنے ہی محسنوں کو نشانہ بنایا ہوگا۔
اس نہایت افسوناک واقعہ کی کئی طرح سے تحقیق وتفتیش کی جا رہی ہے مگر ابھی تک تفتیشی ٹیمیں حملے کے ذمہ داروں کا کھوج نہیں لگا سکی ہیں‘ نہ اس گھناؤنی واردات کا کوئی سراغ ملا ہے۔ مولانا حامد الحق 2002ء میں قائم ہونے والی اسمبلی کے انتخابات میں ایم ایم اے کے خیبر پختونخوا سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ پاکستان کے دینی و سیاسی حلقوں میں اُن کا بہت احترام پایا جاتا تھا۔ اس وقت سارے ملک میں امن وامان کی صورت حال انتہائی تشویشناک ہے۔ مختلف علاقوں میں امن عامہ کو تہ وبالا کرنے کے اسباب مختلف ہو سکتے ہیں مگر عمومی طور پر شہریوں کی جان ومال محفوظ نہیں۔
کراچی تو جرائم کا شہر بن چکا ہے۔ مصطفی قتل کیس حکمرانوں اور شہریوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے ۔ روزانہ ڈمپروں سے شہریوں کی ہلاکتیں بھی ہو رہی ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ دو ماہ کے دوران کراچی کے 140 مکیں لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اس پر سندھ حکومت مستعفی ہوتی ہے نہ شرمسار ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ڈمپروں کو چلانے والے قاتل ڈرائیوروں کے سامنے بے بس ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ کُرم میں 153 روز سے مرکزی شاہراہ نہیں کھلوائی جا سکی۔ ٹل پارا چنار سڑک پانچ ماہ سے بند ہے۔ کرم میں پٹرول اور ادویات سمیت اشیائے خور ونوش کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ امدادی سامان لے جانے والے ڈرائیوروں اور سکیورٹی کے ذمہ داران کو کئی بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ کرم کے علاقے میں برسہا برس سے فرقہ وارانہ فسادات کی آگ دہک رہی ہے۔نومبر 2024ء میں ایک فرقے کے لوگوں نے دوسری کمیونٹی پر حملہ کر دیا‘ جس کے نتیجے میں 130 افراد لقمۂ اجل بنے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ بھی دہشت گرد حملوں کی بہتات ہے‘ جن میں سکیورٹی اہلکاروں اور پولیس والوں کو آئے روز نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہاں بھی حکومت کی کوئی رِٹ نہیں۔ امن وامان کی سب سے مخدوش صورتحال بلوچستان میں ہے‘ جہاں بہت سے علاقوں میں عملاً حکومت بالکل بے بس ہے۔ وہاں آئے روز سکیورٹی ذمہ داران‘ سول افسران‘ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے عام مزدوروں کو درجنوں کے حساب سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بڑی بڑی شاہراہوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے‘ ریلوے کی پٹڑی کو اکھاڑ کر رقبے کے حساب سے سب سے بڑے صوبے کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ کاٹ دیا جاتا ہے۔اتوار کے روز وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے اپنی بے بسی اور اپنے صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کی انتہائی مخدوش صورت حال کا علی الاعلان اعتراف کیا۔ جمہوری روایات کے مطابق تو ایسی بے بسی کی صورت میں صوبے کا ذمہ دار فوری طور پر مستعفی ہو جاتا ہے مگر وطن عزیز میں ایسا کوئی تکلف نہیں کیا جاتا۔
بلوچستان کے تین نہایت اہم اور بڑے مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ غربت اور جہالت ہے‘ دوسرا وسیع معنوں میں پسماندگی اور تیسرا لاپتہ افراد۔ صوبائی اور مرکزی حکومت کسی ایک مسئلہ کو بھی حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ لگتا یوں ہے کہ ہماری حکومتیں ذخیرہ اندوزوں امن وامان کو تہ وبالا کرنے والے مجرموں اور قانون شکنوں کے سامنے بے بس ہیں۔ اگر چینی اور دیگر اشیائے ضرورت کئی گنا مہنگی ہوتی ہیں تو حکومت ڈپٹی کمشنروں کو دھمکی دیتی ہے کہ وہ قیمتوں کو نیچے لائیں۔ اگر شاہراہیں بند ہوتی ہے تو بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی ڈپٹی کمشنروں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ ہماری حکومتوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ جب تک وہ اسمبلیوں کے اندر وسیع تر مشاورت ومفاہمت کا کلچر نہیں اپنائیں گی اور سیاسی ڈائیلاگ سے کام نہیں لیں گی اس وقت تک بے چارے ڈپٹی کمشنروں کو دھمکیاں دینے سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلے گا۔
کالم کے اختتام سے پہلے ایک بار پھر اکوڑہ خٹک چلتے ہیں جہاں یہ بھی خیال ظاہر کیا گیا کہ کہیں افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کو اُن کا شرعی حق قرار دینا ہی مولانا حامد الحق کی شہادت کا باعث نہ بنا ہو۔ ہمیں یہ خیال بعید از قیاس لگتا ہے کیونکہ طالبان نے بھی اس بزدلانہ خودکش حملے کی مذمت کی ہے۔حکومت امن وامان کی عمومی صورت حال کو فیصلہ کن اقدامات کر کے درست کرے اور مولانا حامد الحق کے قاتلوں کا سراغ لگائے۔ اگر مولانا جیسی اہم دینی وسیاسی شخصیت محفوظ نہیں تو پھر وطنِ عزیز میں کون محفوظ ہے؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں