چھوٹے صوبوں کا قیام ہی ہمارے مسائل کا حل

سیاست کو تو رکھیں ایک طرف‘ آج پاکستان کے حقیقی اور بنیادی مسائل کے حوالے سے بات ہو گی۔ گزشتہ 77 برس کے دوران ہر حکومت‘ چاہے وہ جمہوری تھی یا عسکری‘ نے وقتی چکاچوند اور پروپیگنڈے کے ذریعے اپنا ڈنکا بجانے کی کوشش کی مگر اصل مسائل سے آنکھیں کبھی چار نہ کیں۔
جدید ریاست عمومی طور پر ترجیحاً چھ کام کرتی ہے۔ پہلا کام‘ جدید ریاستیں عوامی فلاح وبہبود کو ترجیح نمبر ایک قرار دیتی ہیں۔ امن وامان اور ہر امیر وغریب کے لیے فوری انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جاتی ہے۔ سوشل ویلفیئر کہ جس میں ہر شہری کی صحت کا تحفظ‘ بچوں کی خوراک‘ بہترین تعلیم کا حصول ریاست اپنے ذمے لیتی ہے۔ اسی طرح معاشی آسودگی اور سیاسی استحکام بھی ریاست کے اہم کام سمجھے جاتے ہیں۔
ابھی تو ہم نے اُس اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کی طرف اشارہ نہیں کیا جسے اختیار کرنے کی تلقین بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی تھی۔ یہ فلاحی ریاست آج کی جدید ریاستوں سے بھی آگے کی بات ہے۔ اب ذرا دل تھام کر پاکستان کے گزشتہ 77 برس پر ایک نظر دوڑائیے اور بتائیے کہ کبھی ریاست کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف بھی کسی نے توجہ کی ہے؟ آج 77 برس کے بعد ہماری حکومتیں بڑھتے ہوئے غریبوں کے لیے خوراک کے تھیلے بطور رمضان پیکیج یا دو چار ہزار روپے ماہانہ ''کفالت‘‘ کے دے کر اور کچھ لنگر خانے کھول کر فخر محسوس کرتی ہیں۔ یہ فخر محسوس کرنے کا نہیں شرمسار ہونے کا مقام ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کو باعزت روزگار فراہم کرنے اور ملکی پیداوار بڑھانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں غربت کی کثرت اور پسماندگی کا بنیادی سبب اس کی بیڈ گورننس ہے۔ گورننس سے مراد فیصلے کرنے کا طریق کار اور اُن پر عمل درآمد کا نظام ہے۔ پاکستان میں فیصلہ سازی اور عمل درآمد کا طریق کار نہایت فرسودہ ہے۔ جب غربت‘ پسماندگی اور عوامی شرکت کے بغیر سیاست ومعیشت کو دھکا لگانے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایلیٹ کلاس کو بے وسیلہ لوگوں کی غربت کا مذاق اڑانے اور اُن کے استحصال کا موقع مل جاتا ہے۔
میں اگر تھوڑی سی اور گہرائی میں جاؤں تو جو بھیانک حقائق سامنے آئیں گے وہ ہم سب کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہیں۔ مگر یہاں رویہ ''Who Cares‘‘ والا ہے۔ کسی کو کچھ پروا نہیں۔ 2023ء میں پاکستان کی 24 کروڑ آبادی میں سے تقریباً ساڑھے نو کروڑ خطِ غربت سے نیچے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اُن کی روزانہ آمدنی تین امریکی ڈالر‘ گویا ساڑھے آٹھ سو روپے بھی نہیں۔ بھارت میں تازہ ترین رپورٹس کے مطابق صرف ایک فیصد لوگ خطِ غربت سے نیچے ہیں۔ اگر حکمرانوں کے ماتھے پر بل نہ آئے تو کچھ دل سے دل کی باتیں ہو جائیں۔
میں مایوسی نہیں پھیلا رہا‘ حقیقتِ حال کو بے نقاب کر رہا ہوں۔ زراعت کہ جسے پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے‘ وہ ترقی یافتہ زراعتوں کے مقابلے میں کہاں کھڑی ہے؟ ایک ڈیڑھ مربع والے چھوٹے زمینداروں کا کہنا ہے کہ اُن کی پیداواری لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔ ذرا قرضوں کا حال بھی سن لیجئے۔ قومی قرضے‘ بیرونی قرضے‘ گردشی قرضے‘ بینکوں کے قرضے‘ قرضے ہی قرضے۔ اور کہیں سے ہمیں ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے دو چار بلین ڈالر کا سہارا مل جاتا ہے تو خوشی کے شادیانے بجائے جاتے اور اس عظیم کارنامے کا کریڈٹ لیتے ہیں۔ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ اس کے علاوہ بجلی اور گیس کے بھی بہت سے مسائل ہیں۔ آبادی ہے کہ بے ہنگم طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک عالمی رپورٹ کے مطابق 2047ء میں موجودہ آبادی 24 کے بجائے 48 کروڑ ہو جائے گی۔ جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو اوّل روز سے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی دی ہوئی جمہوریت کا ہم نے جو حشر کر رکھا ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ جمہوریت کی گاڑی کو بار بار پٹڑی سے اتارا گیا حتیٰ کہ ملک ہی دولخت ہو گیا۔
یہ ہے ہماری 77 سالہ کہانی جس کی ہم نے آپ کو نہایت مختصر جھلک دکھائی ہے۔ دنیا میں ہر فیڈریشن اپنی ممبر ریاستوں یا صوبوں کے ساتھ مل کر وجود میں آتی ہے۔ کچھ معاملات میں صوبوں نے وفاق کو اختیارات دے رکھے ہوتے ہیں۔ اس لیے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے اپنے دائرے میں خودمختار ہوتی ہیں۔ ہماری خرابی کی اصل جڑ یہ ہے کہ ہمارے بڑے بڑے صوبے ہیں۔ ان صوبوں کے سائز کو گھٹانے اور اعلیٰ گورننس کے لیے انتظامی نقطۂ نظر سے نہایت مناسب ومعقول سائز کے صوبوں کی تشکیل کی بات کی جائے تو فوراً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم کراچی کو باقی سندھ سے کاٹ کر الگ صوبے کی تجویز دے رہے ہیں۔ پنجاب کو تقسیم کر کے سرائیکی صوبے کی حمایت کر رہے ہیں یا یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم خیبر پختونخوا میں نیا صوبہ ہزارہ بنانے کی حمایت کر رہے ہیں۔ مگر ہم دنیا میں چھوٹے چھوٹے خود مختار صوبوں کو اور وہاں اُن کی شاندار پرفارمنس اور عوامی فلاح وبہبود کا خوبصورت منظر نامہ دیکھ کر یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز میں بھی ایسا ہی ہو۔ ترکیہ میں 81 خود مختارصوبے ہیں‘ ملائیشیا میں 11 ریاستیں یا صوبے ہیں۔
دونوں اسلامی ملکوں کے صوبوں میں باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ صوبے اپنے ہی ذرائع سے وسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔ چھوٹا یونٹ ہونے کی بنا پر وہاں کے لوگوں کے تعلیم‘ صحت و روزگار اور انصاف وغیرہ کے مسائل اپنے ہی علاقے میں اُن کی اپنی ہی منتخب کردہ حکومت حل کرتی ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی صوبائی حکومت آتی ہے وہ بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیتی۔ اب بھی پنجاب حکومت کے خلاف جماعت اسلامی نے لاہور ہائیکورٹ میں ایک رِٹ داخل کی ہوئی ہے کہ فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ ہم صوبوں کی تشکیلِ نو سیاسی یا لسانی و نسلی بنیاد پر نہیں چاہتے۔ ہمیں یہ تشکیلِ نو خالصتاً گڈ گورننس‘ حسنِ انتظام اور حقیقی خدمتِ عوام کے لیے کی بنیاد پر درکار ہے ۔ 1972ء میں صوبوں کی انتظامی طور پر تشکیل نو کا ایک نقشہ گہرے غور وخوض کے بعد پیش کیا گیا تھا۔ اس پروگرام میں پنجاب کے پانچ انتظامی خودمختار صوبوں‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کے تین تین اور بلوچستان کو دو یعنی سارے پاکستان کے لیے کل 13صوبوں کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ پنجاب کو راولپنڈی‘ لاہور‘ سرگودھا‘ ملتان اور بہاولپور کے پانچ خودمختار صوبائی یونٹس میں بدلنے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ اس منصوبے میں نئے صوبوں کے باقاعدہ نقشے میں بھی بنائے گئے تھے۔ صوبہ سندھ کو سکھر‘ حیدر آباد اور کراچی میں تقسیم کرنے کی تجویز تھی۔ خیبر پختونخوا کو مالاکنڈ‘ پشاور اور ڈیرہ اسماعیل خان کے تین انتظامی صوبوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تھا۔ اسی طرح بلوچستان میں کوئٹہ اور قلات کے دو صوبے تجویز کیے گئے تھے۔ چھوٹے انتظامی صوبوں کے ذریعے گورننس میں ایک بہت بڑا مثبت انقلاب لایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں صوبوں کی اس تشکیلِ نوکے بارے میں دو اہم سوالات اٹھیں گے۔ پہلا تو یہ کہ کیا یہ خودمختار صوبے مالی‘ اقتصادی اور انتظامی طور پر قابلِ عمل ہوں گے۔ جی ہاں‘ یہ سو فیصد قابلِ عمل ہیں۔ ان کی تفصیل ہم کسی اگلے کالم میں بیان کر دیں گے۔ دوسرا اہم سوال یہ ہوگا کہ چھوٹے صوبوں کا قیام کیسے وجود میں آئے گا؟ یہ تشکیل نو موجودہ صوبوں کے عوام‘ وہاں کی اسمبلیوں اور سیاسی پارٹیوں کی رضامندی سے ہونی چاہیے‘ کسی غیبی اشارے سے ہرگز نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں