بچھڑے بھائیوں یا دوستوں کی مدتوں بعد ملاقات کی شدت اور حلاوت سے وہی لوگ آشنا ہیں جو کبھی بچھڑے یا بچھڑنے پر مجبور کیے جانے کے صدمے اور دکھ سے گزرے ہوں۔ بدھ کے روز 53 برس بعد اپنے بنگلہ دیشی بھائیوں کے دس رکنی صحافتی وفد سے لاہور کے ایک کلب میں ملاقات کا موقع ملا تو آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ اس کیفیت کو بیان کرنے کیلئے فوری طور پر کوئی اردو کا کوئی شعر تو ذہن میں نہیں آیا البتہ فارسی کے اس برمحل شعر نے میری دستگیری بھی کی اور ترجمانی بھی۔
رواقِ منظرِ چشمِ من آشیانۂ تست؍ کرم نما و فرود آ کہ خانہ خانۂ تست
میری آنکھ کا پردہ تیرا آشیانہ ہے۔ کرم کر اور اس میں اتر جا کہ یہ گھر تیرا اپنا ہے۔
اس میں شک بھی کوئی نہیں لاہور اہلِ ڈھاکہ کے دلوں میں بستا تھا اور ڈھاکہ والے لاہوریوں کے دلوں میں شاد اور آباد تھے۔ لاہور وہی شہر ہے کہ جہاں 23 مارچ 1940ء کو ڈھاکہ کے اے کے فضل الحق نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی صدارت اور دیگر زعما کی تائید سے نعرہ ہائے تکبیر کی گونج میں قراردادِ پاکستان پیش کی تھی۔ اس روز منٹو پارک لاہور میں ہندوستان کے چپے چپے سے آئے ہوئے کم وبیش ایک لاکھ مسلمان موجود تھے۔ باقی سب کچھ تاریخ پاکستان کا حصہ ہے۔ 23 برس تک مشرقی ومغربی پاکستان میں آباد دونوں بھائی چھوٹے موٹے گلوں‘ شکوں کے ساتھ یک جان دو قالب اور ایک دوسرے کا دست وبازو بن کر رہے۔ پھر اپنوں کی پے بہ پے غلطیوں اور غیروں کی سازشوں سے ہمیں 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ دیکھنا پڑا۔ ہماری اپنے بھائیو ں سے جدائی بھی بڑے ہی تکلیف دہ اور ناقابل بیان حالات میں ہوئی۔
اس جدائی کے عذاب سے ہمیں دوچار کرنے والے تقریباً سارے ہی کردار اپنے اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ جنرل یحییٰ خان‘ شیخ مجیب الرحمن‘ ذوالفقار علی بھٹو اور اندرا گاندھی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جدائی کے 53 برس کے دوران دونوں ملکوں کے سیاستدانوں اور جرنیلوں نے کوئی خاص سبق نہ سیکھا اور دونوں ملکوں میں حقیقی جمہوریت پنپ نہ سکی۔
بیس برس تک شیخ حسینہ واجد کی آمرانہ حکومت‘ بدترین کرپشن اور ظالمانہ ہتھکنڈوں کے خلاف زبردست عوامی تحریک چلی۔ مجیب الرحمن کی صاحبزادی کے حکم پر اس تحریک کو کچلنے کیلئے ڈھاکہ کی گلیوں میں سینکڑوں نوجوانوں کا خون بہایا گیا جب احتجاجی لہر میں زبردست جوش وخروش پیدا ہوا تو شیخ حسینہ واجد عوامی انقلاب کے سامنے نہ ٹھہر سکی اور بھارت فرار ہو گئی۔ اس انقلاب کے بعد ہر سطح پر پاکستان سے پرانے برادرانہ تعلقات کی تجدید کی زبردست خواہش دیکھنے میں آئی۔ 25 ستمبر 2024ء کو اقوام متحدہ کے ایک اجلاس کے دوران بنگلہ دیش کے ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس اور پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان ہارٹ ٹو ہارٹ ملاقات ہوئی جس میں دونوں ملکوں کے حکمرانوں نے باہمی تعلقات کو گرمجوشی کے ساتھ آگے بڑھانے اور معاشی اور تجارتی تعلقات کو وسیع تر کرنے کی دو طرفہ خواہش کا اظہار کیا۔
اعلیٰ سطح کی اس ملاقات سے لے کر اب تک بنگلہ دیش سے عسکری ڈیلیگیشن کے علاوہ دیگر کئی وفود بھی آ چکے ہیں۔ بہرحال اس وقت میں آپ کو اس خوشی میں شامل کرنا چاہتا ہوں جو ہمارے صحافی بھائیوں کو اپنے بچھڑے برادرِ ملک میں آ کر اور جو ہمیں بچھڑے بھائیوں سے گلے مل کر حاصل ہوئی۔ حکومت پاکستان کی دعوت پر بنگلہ دیش کے صحافیوں کا دس رکنی وفد 12 فروری کو اسلام آباد پہنچا وہاں وفاقی وزیر اطلاعات نے اُن کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا اور دوران ملاقات دو طرفہ محبتوں اور چاہتوں کا پُرجوش اظہار کیا گیا۔ تقریباً چار پانچ روز اسلام آباد میں کئی سرکاری وصحافتی ملاقاتوں کے بعد بنگلہ دیشی بھائی لاہور پہنچے تو اُن کی مسرت وشادمانی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ لاہور میں بھی سرکاری طور پر تاریخی مقامات اور لاہور کے تہذیبی وثقافتی ورثے سے بنگالی بھائیوں کو روشناس کرانے کیلئے ایک جامع پروگرام ترتیب دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ وفد کے پاس باقی ماندہ تین چار روز کے محدود وقت کے پیش نظر اُن کیلئے 'دنیا نیوز‘ کے جدید ترین صحافتی ادارے کے وزٹ اور لاہور کے کئی صحافی خواتین وحضرات کے ساتھ تبادلۂ خیالات کی نشست کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
میں ڈی جی انفارمیشن شفقت عباس صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے بھی اپنے بچھڑے ہوئے بنگالی بھائیوں سے ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ بنگلہ دیشی وفد کے سربراہ وہاں کے نیشنل پریس کلب کے سیکرٹری جنرل ایوب صاحب تھے۔ دس رکنی وفد میں ایک خاتون صحافی بھی شامل تھیں۔ وفد میں بنگلہ دیش کے تمام نمایاں بنگلہ وانگریزی اخبارات کی نمائندگی موجود تھی۔ بدھ کے روز بنگالی صحافیوں سے ملاقات ہوئی تو دو طرفہ جذبات اور بچھڑے بھائیوں کی ملاقات کا عجیب عالم تھا۔ ایک طرف ہمارا حال بقول جناب احمد ندیم قاسمی یہ تھا کہ
کاش پلکوں پر اٹھا سکتے چراغِ خانہ ہم
دوسری طرف بنگالی بھائی بھی ایک ہی سانس میں بہت کچھ کہنے کو بیتاب تھے۔ اگرچہ ڈی جی انفارمیشن پچیس‘ تیس صحافی خواتین وحضرات کی نشست کی کمپیئرنگ کر رہے تھے مگر دل سے دل کی بات کہنے پر یہاں کوئی پابندی نہ تھی۔ دو طرفہ تعارف کے بعد بنگالی اخبار ڈیلی سٹار اور ڈپلومیٹک خبروں کے عالمی رپورٹر راشد رومیو نے وفد کی ترجمانی کرتے ہوئے بزبانِ انگریزی حالِ دل بیان کیا۔ ادھر سے جناب مجیب الرحمن شامی نے ڈاکٹر محمد یونس اور میاں شہباز شریف کے گھٹتے ہوئے فاصلوں اور بڑھتی ہوئی قربتوں کے اظہار کیلئے اقوام متحدہ کے ایک اجلاس کے موقع پر ہونے والی ہارٹ تو ہارٹ ملاقات کے حوالے سے ایک خوبصورت کالم لکھا تھا جس میں دردِ مشترک کا حال بھی تھا اور طویل جدائی کے بعد ملاقاتوں کی تجدید کا تذکرہ بھی تھا۔
شامی صاحب نے اپنے کالم کا انگریزی ترجمہ پڑھ کر سنایا اور بہت سی آنکھوں کو نمناک کر دیا۔ محمد مہدی صاحب نے بھی اپنے کالم کے کچھ حصے سنائے۔ بنگالی صحافی ایک روز پہلے شالامار باغ‘ شاہی قلعہ‘ بادشاہی مسجد اور مزارِ اقبالؒ پر حاضری دے کر آئے تھے۔ وہ ان پرانی تاریخی عمارتوں کے بہترین حفاظتی انتظامات اور اس ورثے کو اصل حالت میں برقرار رکھنے پر بہت حیران اور خوش تھے۔ بدھ کے روز وفد کے ارکان کو اندرون لاہور کی بھی سیر وسیاحت کرائی گئی۔
محفل کی مناسبت سے خاکسار نے اپنے بنگالی بھائیوں کو پاکستان کے دل اور شہرِ مہر و وفا میں خوش آمدید کہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ سرسبز وشاداب بنگال کے ساتھ ہماری بہت سی ذاتی یادیں بھی وابستہ ہیں۔ میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری حضرت عطا اللہ شاہ بخاری کے رنگ میں خطابت کی شہرت رکھتے تھے۔ وہ جمعیت اتحاد العلما کے صدر کی حیثیت سے اکثر 1960ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان آتے جاتے رہتے تھے۔ اگرچہ بنگلہ زبان نہیں جانتے تھے مگر انہوں نے اردو‘ عربی اور بنگلہ ملا کر پلٹن میدان ڈھاکہ سے لے کر دیہات تک میں خطاب کیا۔ ان کے بنگالی سامعین انہیں دل کھول کر داد دیتے تھے۔ والد محترم دلوں کی زبان خوب جانتے تھے اور دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ انگریزی میں گفتگو کرتے ہوئے میں نے اپنے بنگالی بھائیوں سے کہا کہ ہم Two bodies one soul تھے‘ اب نام چاہے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش ہو جائے مگر دل وجان تو جدا نہیں ہو سکتے۔ اس پر بنگالی بھائیوں نے پُرجوش مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یقینا ایسا ہی ہے۔