امریکن مسلمان اپنی سوچ اور اپروچ میں ہم سے بہت مختلف ہیں۔ وہ بالعموم وسیع النظر اور ہر طرح کے تعصبات سے ماورا ہوتے ہیں۔ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت گزشتہ چند برسوں سے اسلامک سنٹرز سے وابستہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ یہاں کی مساجد فروعی‘ فقہی اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے سے اجتناب کرتی ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا کہ امریکی ریاست ٹیکساس میں واقع اکثر مساجد ترجیحاً تین کام کرتی ہیں۔ تمام مساجد اپنے نمازیوں میں عبادات کا ذوق و شوق پیدا کرتی ہیں۔ مساجد میں دروس قرآن اور احادیثِ نبوی اور سیرتِ مصطفیﷺ کے تذکرے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ عموماً ہر مسجد میں اتحادِ اُمہ اسلامیہ کے عملی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مساجد کا تیسرا اہم کام بچوں کی اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت کا پروگرام ہے۔ عرب اساتذہ اور قاری حضرات کی موجودگی سے بچے فائدہ اٹھاتے ہیں‘ وہ خالص عربی لہجے میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے سنائی دیتے ہیں۔ امریکہ میں اسلامک مراکز عملاً کمیونٹی سنٹرز ہوتے ہیں۔ سارا خاندان‘ مرد‘ خواتین اور بچے شوق ذوق کے ساتھ مساجد آتے ہیں۔ بالعموم ساری مساجد میں ایک ہی طرح کا کلچر پایا جاتا ہے۔ علامہ اقبالؒ اور جمال الدین افغانی جیسے قائدین نے امت مسلمہ کیلئے جن خواہشات کا اظہار کیا تھا اُن کی عملی تصویر یہاں دکھائی دیتی ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک
حرم کی پاسبانی کی ذمہ داری تو ہمارے سعودی بھائیوں نے اپنے ذمے لے لی ہے مگر امتِ مسلمہ کی پاسبانی کا فریضہ امریکن مسلمان بدرجہ اتم ادا کر رہے ہیں۔ ڈیلس ریاست ٹیکساس کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی تقریباً ایک کروڑ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد اندازاًاڑھائی لاکھ سے اوپر ہوگی۔ یہاں 62 مساجد ہیں۔ اکثر مساجد اہلِ سنت والجماعت کی ہیں۔ترقی کی منازل طے کرنے والے اس شہر کی طرف امریکہ کے دوسرے علاقوں سے نقل مکانی کرکے یہاں آ کر آباد ہونے کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عام امریکیوں کے علاوہ امریکن مسلمان بھی یہاں آ کر سیٹل ہورہے ہیں۔ مسجد میں آپ نماز پڑھ رہے ہیں تو آپ کے دائیں مراکشی مسلمان کھڑا ہوگا تو آپ کے بائیں انڈین مسلمان کندھے سے کندھا ملائے نظر آئے گا‘ اس کے ساتھ ممکن ہے انڈونیشی کھڑا ہوگا اور علی ہذا القیاس۔ اس یکجہتی کی بنا پر یہاں کی مسلم کمیونٹی میں ایک دوسرے کیلئے الفت و یگانگت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ڈیڑھ برس تک اسرائیل اہلِ غزہ پر شب و روز بمباری کرتا رہا‘ اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے اسرائیلی بمباری اور گولا باری کو نسل کشی کی بدترین واردات قرار دیا ہے۔ اس عرصے میں امریکی و یورپی حکومتیں ظالم اسرائیل کے ساتھ کھڑی رہیں مگر ان ملکوں کے شہریوں اور امریکن مسلمانوں نے بھی انسانی ہمدردی و یکجہتی کی بنا پر اپنے فلسطینی بھائی بہنوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر نہ صرف شدید احتجاج کیا بلکہ اُن کی مدد کیلئے امریکن مسلم اور غیر مسلم ڈاکٹر اور نرسیں زخموں سے چور اہلِ غزہ کے علاج کیلئے غزہ جاتے رہے ہیں۔ یورپ و امریکہ کے غیر مسلموں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ ہماری حکومتوں کی مصلحتیں اپنی جگہ مگر ہم اپنا انسانی فریضہ ضرور ادا کریں گے‘ چاہے اس میں ہمیں اپنی جان ہی کیوں نہ گنوانا پڑے۔
18مارچ کو سیز فائر معاہدے کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اسرائیل نے اہلِ غزہ پر دوبارہ بم گرانے شروع کر دیے۔ صہیونیوں نے بین الاقوامی قوانین کا کچھ پاس لحاظ کیا اور نہ ہی رمضان المبارک کے تقدس کا کچھ خیال رکھا۔ اس پر یہاں ایک بار پھر احتجاج ہوا۔ ڈیلس میں عالمی شہرت یافتہ شیخ عمر سلمان نے اسرائیل کی مذمت میں احتجاجی جلوس نکالا۔ شیخ یہاں کی ایک بہت بڑی مسجد کے خطیب ہیں۔ عمر سلمان فلسطینی والدین کے گھر امریکہ میں پیدا ہوئے تھے مگر دین اور امت مسلمہ کے ساتھ اُن کی قلبی وابستگی دیدنی ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر آصف حرانی بھی دینی علوم کے ممتاز سکالر اور مسجد کے خطیب ہیں۔ ان کا آبائی تعلق پاکستان سے ہے۔ ریاست ٹیکساس میں تقریباً پاکستان جیسا موسم ہوتا ہے۔ مارچ کے مہینے میں ہی دن کے اوقات میں چلچلاتی دھوپ قابلِ برداشت نہیں ہوتی۔مجھے معلوم ہوا کہ 22 مارچ کو تین بجے سہ پہر ٹیکساس کے شہر فورٹ ورتھ میں واقع فیڈرل میڈیکل سنٹر کارزویل‘ جو دراصل بہت بڑی جیل ہے اور جہاں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کئی برس سے قید تنہائی کاٹ رہی ہیں‘ کے باہر ان کی رہائی کیلئے ایک احتجاجی ریلی ہو رہی ہے۔ یہاں کے مسلمان اور انسانی جذبۂ ہمدردی سے سرشار غیر مسلم امریکی اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے ہیں‘ تاہم یہ پہلا موقع تھا کہ اس احتجاجی ریلی میں سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان خواتین و حضرات شریک تھے۔ یہ جیل نما ہسپتال شہروں سے دور فورٹ ورتھ کے ایک ویران علاقے میں بنایا گیا ہے۔ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی حراست میں 86 سال کی قید کاٹ رہی ہیں۔ وہ امریکہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اعصابی سائنسدان ہیں۔ 2003ء میں ڈاکٹر عافیہ کو کراچی سے اغوا کر کے افغانستان پہنچایا گیا جہاں کئی برس کے بعد ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے کابل میں امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کیلئے بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی۔ مئی 2023ء میں ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کے ہمراہ ٹیکساس کی اسی جیل میں 20 برس کے بعد اپنی بہن سے ملاقات کی تھی۔ دوسری بار ڈاکٹر فوزیہ نے مئی 2024میں وکیل کلائیو سمتھ کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کی۔
میاں نواز شریف‘ سید یوسف رضا گیلانی اور عمران خان ڈاکٹر عافیہ کو رہائی دلوانے کا دعویٰ تو کرتے رہے مگر عملاً کسی نے کچھ نہیں کیا۔ ڈاکٹر عافیہ کی جیل کے باہر روزے کی حالت میں چلچلاتی دھوپ میں جو خواتین و حضرات احتجاج کیلئے آئے ہوئے تھے اُن کا تعلق دنیا کی مختلف قوموں سے تھا۔ ان امریکن مسلمانوں میں فلسطینی بھی تھے‘ افریقی بھی‘ مراکشی بھی‘ پاکستانی اور بھارتی بھی۔ فلسطین سے تعلق رکھنے والی میڈم فادیہ رشق نے غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کو بھی اپنا مشن بنا لیا ہے۔ ایک طرف ڈاکٹر عافیہ کی مظلومیت دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا تھا تو دوسری طرف دل کو سکون دینے والا منظر تھا۔ نبی آخر الزماںﷺ کی حدیث ہے کہ مسلمان ایک جسد کی مانند ہیں۔ اگر اس کے ایک حصے کو تکلیف ہوگی تو سارا بدن اس کا درد محسوس کرے گا اور بے آرام رہے گا۔ جن لوگوں کا ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ خون کا رشتہ تھا یا وہ اس کے ہم وطن تھے‘ ان کی تعداد سینکڑوں کے مجمع میں آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ باقی وہ لوگ تھے جن کا ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ رشتہ تھا انسانیت کا۔ وہاں کے غیرمسلم بھی اس مظلوم سکالر کی رہائی کیلئے صدائے احتجاج بلند کرنے آئے ہوئے تھے۔ یہ احتجاج انتہائی منظم تھا‘ کوئی پولیس اہلکار نظر نہیں آیا‘ تین چار لوگ بینڈ بجا رہے تھے اور ایک نوجوان بینڈ کی دھن پر نہایت جوش و خروش سے نعرے بلند کر رہا تھا اور سارا مجمع دلی جذبات کے ساتھ بآواز بلند اس کا ساتھ دے رہا تھا۔
شیخ عمر سلمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب ایف ایم سی سے لے کر فلسطین تک سب بے گناہ قیدی رہا ہوں گے۔ ڈاکٹر عمر سلمان کے عالم اسلام کے کئی حکمرانوں سے ذاتی تعلقات ہیں انہوں نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کو امریکن مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے خط لکھا تھا کہ ہم حیران ہیں کہ پاکستانی حکمران پاکستان کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ سے لاتعلق کیوں ہیں۔ وہ سنجیدگی سے کوشش کریں تو عافیہ کو رہائی مل سکتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کے وکیل کلائیو سمتھ نے کئی راستوں کی نشاندہی کی ہے۔ ڈیلس کے دوسرے بڑے سکالر ڈاکٹر آصف حرانی نے بھی نہایت اثر انگیز خطاب کیا۔ڈاکٹر فادیہ رشق نے آخر میں احتجاجی مجمع کا شکریہ ادا کیا اور نہایت پُرجوش طریقے سے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ ہماری بہن ہے‘ وہ صرف 'ڈاٹر آف پاکستان‘ نہیں بلکہ وہ ڈاٹر آف اسلام ہے۔