یوں تو بلوچستان میں کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی کارروائیاں اور حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ ہو رہی ہے مگر گزشتہ ایک برس کے دوران دہشت گرد جتنے جری اور بڑے پیمانے پر بے گناہ معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اس کی مثال شاید اس سے پہلے نہیں ملتی۔ وہ ٹرینوں پر حملے کر رہے ہیں‘ ریلوے کی پٹڑیاں اکھاڑ رہے ہیں‘ قومی شاہراہوں پر بسوں کو روک کر ایک بڑے صوبے کے شہریوں کو بسوں سے نیچے اتار کر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بلوچستان میں صوبائی حکومت کی رِٹ ختم ہو چکی ہے۔ عام شہریوں اور سکیورٹی ذمہ داران کے تڑپتے لاشے دیکھ کر ہم سب چند روز کیلئے اشکبار ہو جاتے ہیں۔ ایسے اندوہناک واقعے پر وفاقی حکمران بھی کچھ دیر کیلئے آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہوتے ہیں‘ کوئٹہ اور اسلام آباد میں میٹنگیں طلب کرتے ہیں‘ امن کے دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کرتے ہیں اور پھر اگلی کسی ہولناک واردات تک لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔
منگل کے روز کوئٹہ سے پشاور جانے والی ٹرین میں چار سو سے اوپر مسافر سوار تھے۔ اپنے اپنے گھروں کو خوشی خوشی لوٹنے اور اپنے پیاروں کے ساتھ عید منانے کیلئے جانے والوں میں ہر عمر کے مرد بھی‘ خواتین بھی اور پھول سے بچے بھی شامل تھے۔ ٹرین میں ہمارے فوجی بھی سوار تھے کہ جو اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ ''گھر کو جاتے رستے اچھے لگتے ہیں‘‘۔ ان ہنستے مسکراتے مسافروں کو کیا معلوم تھا کہ اُن میں سے کتنے لوگوں کے لیے وادیٔ موت‘ کتنوں کے لیے خاک و خون کے ساتھ زندگی کشمکش میں مبتلا ہو کر ہسپتالوں کی طرف دوڑتی ہوئی ایمبولینسیں اور کتنوں کے لیے حملہ آوروں کی برستی گولیاں اور ویرانوں کی وحشت اُن کا انتظار کر رہی ہے۔
کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ جدید اسلحے سے مسلح دہشت گرد 400 سے زائد مسافروں کی ٹرین کو یرغمال بنا لیں گے۔ اور پھر اُن میں سے کچھ کو مختلف نسبتوں کی بنا پر موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ پاک فوج بلاتاخیر اس مقتل میں پہنچی اور انہوں نے موقع پر موجود 33دہشت گردوں کو اس مہارت سے ہلاک کیا کہ ڈھال بنائے گئے یرغمالی معصوم لوگوں میں سے کسی ایک کوبھی نقصان نہ پہنچنے دیا۔ حکومتی اطلاعات کے مطابق فوجی آپریشن سے پہلے21 مسافر اور چار ایف سی اہلکار شہید ہو گئے تھے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ شاید میاں شہباز شریف کی بلوچستان میں ٹرینوں پر حملوں کے ریکارڈ تک رسائی نہ ہو سکی۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اس کا سلسلہ 2006ء میں نواب نوروز خان اورکزئی کی گرفتاری اور جیل میں موت سے ہوا تھا۔ 9نومبر 2024ء کو کوئٹہ کے پُرہجوم ریلوے سٹیشن پر ایک خودکش بمبار نے حملہ کر کے خود کو اڑا لیا۔ اس دہشت گردی میں کم از کم 32افراد جاں بحق اور 62شدید زخمی ہوئے تھے۔ جس طرح منگل کے روز 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس ہائی جیک کرنے کی ذمہ داری کالعدم بی ایل اے نے قبول کی ہے‘ نومبر 2024ء کو کوئٹہ کے پُرہجوم ریلوے سٹیشن پر حملے کی ذمہ داری بھی اس نے ہی قبول کی تھی۔ اس سے قبل 26 اگست 2024ء کو کالعدم بی ایل اے نے ایک انتہائی خطرناک منصوبہ بندی کے تحت مستونگ ضلع میں ایک ریلوے سٹیشن پر حملہ کیا‘ ہائی ویز پر بسوں اور ٹرکوں کو روکا اور اُن میں 23 افراد کو اتار کر شہید کر دیا۔ ان وحشیانہ حملوں میں کم از کم 80 بے گناہ افراد کو شہید کیا گیا جبکہ ربِ ذوالجلال کا ارشاد ہے کہ کسی ایک شخص کا ناحق قتل ساری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔
بلوچستان کے بڑے بڑے بنیادی مسائل میں غربت‘ جہالت اور معاشی و سیاسی ناانصافی ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں لاپتا افراد بھی بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ نسلی کشیدگی کے علاوہ مذہبی انتہا پسندی بھی ایک مسئلہ ہے۔
جمعرات کے روز کوئٹہ میں وزیراعظم کی آرمی چیف کے ساتھ بلوچستان کی کابینہ کے ساتھ نہایت اہم میٹنگ ہوئی۔ اس بار وزیراعظم شہباز شریف نے نہایت دردمندی کے ساتھ معاملے کی شدت کو کسی حد تک محسوس کیا ہے۔ انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہا ہے کہ دہشت گردی کو ختم نہ کیا تو ملک کے وجود کو خطرہ ہے۔ انہوں نے پوری دلسوزی کے ساتھ کہا کہ ملک کو یکجہتی کی ضرورت ہے‘ متحد ہوئے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی نہ رکی تو ترقی کا سفر رک جائے گا۔ اس میٹنگ میں وزیراعظم نے سابقہ حکومت کی بہت سی پالیسیوں سے سخت اختلاف کیا اور یہ بھی اعلان کیا کہ اب وہ مرکزی حکومت کی طرف سے تمام تر ضروری اخراجات ادا کریں گے۔ وزیراعظم نے قومی یکجہتی کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا بھی اعلان کیا۔ یقینا یہ ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ اور بدامنی کی فضا سے باعزت طور پر باہر نکلنے کے راستے کی نشاندہی کی ہے۔ اگر حکومتی پارٹی نہایت صدق دل اور نیک نیتی کے ساتھ آل پارٹیز کانفرنس کو ثمر بار بنانا چاہتی ہے تو پھر وزیراعظم سمیت اُن کے وزرا اور مشیر حضرات کو فضا سازگار بنانے کی خاطر پی ٹی آئی پر تنقید اور طعنے کا سلسلہ یکسر بند کر دینا چاہیے۔ اس کے بغیر مستقل حل کی طرف نہیں بڑھ سکیں گے۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ارکانِ پارلیمنٹ اور ایوانوں سے باہر بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات کو بھی چاہیے کہ حکومتی ارکان پر تندو تیز تنقیدی تیروں کی بارش کا سلسلہ روک دیں۔ آل پارٹیز کانفرنس کو محض نشستن گفتن اور برخاستن کی ایک ایکسر سائز ہرگز نہ بنایا جائے بلکہ قومی نوعیت کے دیگر سیاسی و معاشی مسائل کو حل کرنے پر اتفاقِ رائے قائم کیا جائے تاکہ اس کانفرنس کے بعد دہشت گردوں‘ اُن کے اندرون و بیرونِ ملک سرپرستوں اور ساری دنیا تک یہ پیغام جائے کہ ہم حکمت و دانش سے کام لینے والی زندہ قوم ہیں جو اپنے مسائل خود حل کرنا جانتی ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس میں ایوانوں کے اندر اور ایوانوں کے باہر تمام بڑی قومی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی محبِ وطن جماعتوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے۔ حکمرانوں کو پاکستان کی تاریخ کے تلخ ابواب کا بھی مطالعہ کرنے اور بلوچستان میں مرضی کی حکومتیں بنانے اور گرانے کا سلسلہ اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کرنے کا عہد بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں من پسند حکومتوں کایہ سلسلہ نجانے کب شروع ہوا تھا‘ تاہم ہماری تاریخ کے دوسرے فیز میں 1973ء میں نیپ کی حکومت کو جناب ذوالفقار بھٹو نے برخاست کر کے اس کا آغاز کیا تھا۔
ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا بھی ریویو کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ سمجھا تو یہ جا رہا تھا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ہماری پاسباں ہوگی اور ہم اس کے پاسباں ہوں گے مگر بھائیوں کے معاندانہ رویے کے خاتمے کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ ایک حقیقت تھی کہ میاں نواز شریف کے ہر دورِ حکومت میں بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت حد تک نارمل ہو جاتے تھے مگر اب اُن کا رویہ مخالفانہ کیوں ہے؟ اس معاملے کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال کیا جاتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کب ختم ہوگی؟ بلوچستان میں دہشت گردی اس وقت ختم ہوگی جب ہمارے سیاستدان صدقِ دل سے طے کر لیں گے کہ اب وہاں حکومتیں وہاں کے عوام کی مرضی سے تشکیل پائیں گی‘ وہاں ناانصافی نہیں انصاف کا بول بالا ہوگا اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔