ہمارا نظامِ انصاف

گزشتہ کئی روز سے میں سرگودھا میں ہوں۔ سرگودھا میرا شہر‘ شاہینوں کا شہر اور اہلِ وفا کا شہر ہے۔ یہاں ابھی تک سنہری صبحیں‘ تاحدِ نگاہ پھیلا ہوا سبزہ اور نیلگوں چمکتا ہوا صاف آسمان دکھائی دیتا ہے اور دل و نگاہ کو طراوت بخشتا ہے۔ یہاں مجھے انگریزی محاورے کے مطابق ''نہ جاننے‘‘ کی ارادتاً نعمت بھی میسر ہوتی ہے۔ اپنے شہر آ کر جذبات کا جو عالم ہوتا ہے اس کا اظہار اگلے کالم میں کروں گا۔
آج کے دور میں خبر مگرہر جگہ پہنچتی ہے اور برق رفتاری سے پہنچتی ہے۔ یہاں ہی مجھے معلوم ہوا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی رہائش گاہ پر پہلے میاں شہباز شریف کی قیادت میں حکومتی وفد سے اور پھر تحریک انصاف کے نمائندوں سے ملاقات کی۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے کسی چیف جسٹس کا اپنی رہائش گاہ پر ملنا ایک حیران کن اور نادر واقعہ ہے۔ تاہم بادی النظر میں محسوس یوں ہوتا ہے کہ یہ ملاقات عدالتی اصلاحات کے بارے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے کیلئے کی گئی ہوگی۔ یقینا حکمرانوں نے اس ملاقات میں ماضی کی روایات کے مطابق عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کے بلند بانگ دعوے کیے اور تحریک انصاف نے انصاف نہ ملنے اور حکومتی ناانصافیوں پر قاضی القضاۃ کے سامنے اپنی شکایات بھی پیش کی ہوں گی۔ ہماری عدالتی تاریخ میں اعلیٰ اور ادنیٰ دونوں طرح کی مثالیں موجود ہیں۔ پاکستان کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدالرشید نے اُس وقت کے وزیراعظم جناب لیاقت علی خان سے اس بنا پر ملاقات کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اُن کی عدالت میں حکومت کے خلاف کئی مقدمات زیر سماعت تھے مگر1958ء میں جب آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو اُس زمانے کے چیف جسٹس نے نظریۂ ضرورت ایجاد کر کے جمہوری حکومت کو رخصت کر دیا اور پھر بنفس نفیس ایوب خان کے دربار میں پہنچ کر اُسے بتایا کہ آپ نے بڑے بڑے شہروں میں جلسے کر کے عوامی تائید کیسے حاصل کرنی ہے۔تاہم ایوب خان کے آمرانہ دورِ حکومت میں جسٹس اے آر کارنیلیس نے آمرِ مطلق کی مرضی کے برعکس جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دینے کے جرنیلی فیصلے کو مسترد کر دیا۔
پاکستانی عدالتی نظام میں اتنے نقائص ہے کہ جن کا شمار نہیں۔ہم انصاف کی راہ میں حائل بڑی بڑی رکاوٹوں کا تذکرہ کریں گے اور سب سے بڑی رکاوٹ کو بھی قومی منظرِ عام پر لائیں گے جو انصاف کی تقسیم میں قدم قدم پر سدِ سکندری بن کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ پہلے ذرا دل تھام کر یہ سن لیجئے کہ ایک ثقہ امریکی ادارے کی عالمی عدالتی رینکنگ کے مطابق 139ممالک میں پاکستان 130ویں نمبر پر آیا ہے۔
تقریباً ہر سیاسی حکومت بلند بانگ دعوے کرتی ہے کہ سائل کو فوری انصاف گھر کی دہلیز پر ملے گا مگر یہ سب دعوے دھرے کے دھرے ہی رہتے ہیں۔ تاخیری انصاف کا ہمیں ذاتی طو رپر بھی ایک تلخ تجربہ ہے۔ سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں ہمارے خاندان کے بزرگوں نے ایک کوٹھی 1971ء میں خریدی تھی۔ اس کی بینک کے ذریعے ادائیگی بھی ہو گئی اورقبضہ لے کر رہائش بھی اختیار کر لی گئی مگر بعد میں فروخت کنندہ کی نیت بدل گئی اور پھر کہیں بیس برس بعد جا کر ہمیں سپریم کورٹ سے انصاف ملا۔اس دوران مال اور وقت کا کتنا ضیاع ہوا اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔
دستوری و قانونی چھتری تلے رہتے ہوئے پنچایت اور جرگہ وغیرہ کا نظام جتنا متحرک ہو گا اتنا ہی باقاعدہ عدالتوں پر کم بوجھ ہوگا۔ کرپشن ہمارے عدالتی نظام کا بہت بڑا روگ ہے۔ زیریں سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک مقدمات کے ریکارڈ تک رسائی کیلئے ناقابلِ بیان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ماتحت سے لے کر اعلیٰ عدالتوں تک کے ججز اپروچ ایبل سمجھے جاتے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی میں جتنا اضافہ ہوگا کرپشن میں اتنی ہی کمی ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ کہ لیگل کرپشن کی روک تھا م کیلئے مصدقہ خبروں کی میڈیا کوریج کی اجازت ہونی چاہیے۔ مگر جہاں سروں پر پیکا ایکٹ کی تلوار لٹک رہی ہوگی وہاں پرہر خبر پر نظر ہونے کے باوجود اسے اخباری صفحات یا ٹیلی ویژن سکرین پر نہیں لایا جا سکے گا۔
ہمارے عدالتی نظام کا عالمی سطح پر ایک بہت بڑا نقص یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس تک امیروں کی رسائی ہے غریبوں کی ہرگز نہیں۔ برسوں کی جہالت اور جاگیرداری و زمینداری نظام کی بدولت عورتوں کے قانونی و وراثتی حقوق کو دبا لینے کی وبا عام ہے۔ وَنی اور سوارہ جیسی ظالمانہ رسوم رائج ہیں۔ ان رسوم کے مطابق دو خاندانوں میں صلح کی خاطر بنیادی انسانی حقوق کو پاؤں تلے روند دیا جاتا ہے اور بعض اوقات کم سن بچیوں کو متحارب خاندان کے بوڑھے لوگوں سے زبردستی بیاہ دیا جاتا ہے۔ اس نوعیت کے مقدمات کو اوّل تو عدالتوں تک پہنچتے نہیں دیا جاتا اور اگر پہنچ بھی جائیں تو اُن کا بروقت فیصلہ نہیں ہوتا۔
پولیس کا تفتیشی نظام بھی لامتناہی مسائل کا شکار ہے۔ اگر اوپر کوئی دیانتدار افسر آ جائے اور وہ ویسے بھی مضبوط اعصاب اور بااثر پس منظر رکھتا ہو تو وہ کچھ عرصے کیلئے نیچے تک تبدیلی لے آتا ہے‘ مگر جونہی وہ اپنی جگہ سے ہٹتا ہے یا مصلحت پسند حکمران اسے ہٹا دیتے ہیں تو پھر نظام اپنی پرانی ڈگر پر واپس آ جاتا ہے۔ پراسیکیو شن کی فنی و اخلاقی تربیت کا ٹھوس نظام ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کر کے تفتیش کے نظام کو شفاف بنایا جا سکتا ہے۔ پولیس کے بجائے اگر ہر طرح کے دباؤ سے ماورا خود مختار تفتیشی ادارے ہوں تو وہ جدید خطوط پر تفتیشی کام بہت کم وقت میں مکمل کر کے کیس عدالتوں میں گواہوں اور فرانزک ثبوتوں کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔
اب آئیے ہمارے عدالتی نظام کی سب سے بڑی بنیادی خرابی کی طرف۔ یہاں ہر حکمران عدلیہ کویس مین بنانے کے خبط میں مبتلا ہوتا ہے۔ بالخصوص سیاسی مقدمات میں تو گزشتہ کئی دہائیوں سے ہماری جمہوری و فوجی حکومتیں مداخلت کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اسی طرح بعض پس پردہ ادارے بھی عدالتوں سے حسبِ منشا فیصلے لینے کیلئے دباؤ ڈالنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے حکمران انتظامیہ کو کہ جن میں سول افسران اور پولیس شامل ہیں‘ اپنے گھر کی باندی سمجھتے ہیں اور ان سے ہر قانونی و غیر قانونی کام لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی تعیناتی خالصتاً میرٹ پر ہونی چاہیے‘ مگر عملاً کئی حکمران پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ یہ بندہ اُن کیلئے کتنا مفید یا کتنا ''مضر‘‘ ثابت ہو سکتا ہے۔
ہمارے حکمران خود نہیں بدلتے آئین کو موم کی ناک سمجھتے ہوئے اسے بدلنے پر تُل جاتے ہیں۔ جب تک ہمارے حکمران صدقِ دل کے ساتھ آئینِ پاکستان کی فرمانبرداری اور عدالتی نظام کی سربلندی پر متفق نہیں ہوتے اور عدالتوں میں کسی بھی سطح کی مداخلت سے سو فیصد اجتناب برتنے پر تیار نہیں ہوتے اُس وقت تک دیگر اصلاحات کی حقیقت بے جان ایجنڈے کے علاوہ کچھ نہیں ہو گی۔
پاکستان کے ایک سابق وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی مسلسل کہتے چلے آ رہے ہیں کہ تمام ملکی سٹیک ہولڈرز‘ جن میں حکومت‘ عدلیہ اور دفاعی ادارے شامل ہے‘ ایک متفقہ فیصلہ کر لیں کہ آئندہ ہر کوئی آئینِ پاکستان کی مکمل پابندی کرے گا اورحکومتوں کو بنانے بگاڑنے میں کسی طرح کا کوئی پس پردہ کردار ادا نہیں کرے گا اور صرف اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود رہے گاتو پھر ان شاء اللہ معاملات میں بہت بڑی بہتری آئے گی۔
شاید چیف جسٹس آف پاکستان نے دوطرفہ سیاستدانوں سے ملاقات مذکورہ بالا تجویز کی تکمیل کیلئے پہلے قدم کے طور پر کی ہو گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں