چاہِ یوسف سے صدا

سیّد یوسف رضا گیلانی کی خود نوشت ''چاہِ یوسف سے صدا‘‘ ادب وسیاست کا ایک حسین شاہکار ہے۔ کتاب میں جابجا برجستہ اشعار بھی ہیں اور پاکستانی سیاست کے بعض سربستہ رازوں کا انکشاف بھی۔ اسلوبِ نگارش اتنا شستہ اور شائستہ ہے کہ ماننا پڑتا ہے کہ ملتان کے روحانی خانوادے سے تعلق رکھنے والے یوسف رضا گیلانی ایک صاحبِ مطالعہ خوش ذوق آدمی ہیں۔ سیّد صاحب اڈیالہ جیل میں کئی برس تک پابند سلاسل رہے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد اور نیلسن منڈیلا کی روایات کے مطابق جیل میں ہی یہ کتاب لکھی تھی۔ گیلانی صاحب نے اپنی خودنوشت کا نہایت معنی خیز نام منتخب کیا۔ ہماری نسلِ نو فارسی زبان سے مکمل طور پر ناآشنا ہے‘ اس لیے وضاحت کر دوں کہ فارسی میں 'چاہ‘ سے مراد کنواں ہے۔
جیل میں لکھی گئی مولانا ابوالکلام آزادکی خود نوشت ''غبارِ خاطر‘‘ بھی ایک یادگار ادب پارہ ہے ۔ خیر بات ہو رہی تھی گیلانی صاحب کی آٹو بائیو گرافی کے نام کی۔ ''چاہِ یوسف سے صدا‘‘ میں ایک طرف تو تلمیح ہے حضرت یوسفؑ کے واقعے کی جب اُن کے بھائیوں نے انہیں ایک اندھے کنویں میں پھینک دیا تھا‘ دوسرا اس میں یوسف رضا گیلانی کے نام کی مناسبت بھی شامل ہے۔ مصنف نے کتاب کا یہ نام مولانا الطاف حسین حالی کے اس شعر سے اخذ کیا تھا:
آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا
دوست یاں تھوڑے اور بھائی بہت
یوسف رضا گیلانی کو ستمبر 2004ء میں نیب کی طرف سے نوکریاں دینے کی پاداش میں دس برس کی سزا سنائی گئی تھی۔ میں نے برسوں قبل اس کتاب اور صاحبِ کتاب کے بارے میں لکھا تھا۔ میرے قیامِ اسلام آباد کے دوران‘ جب وہ وزیراعظم تھے‘ گیلانی صاحب سے دو ایک بار ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ ایک ملنسار آدمی ہیں جو مخاطب کی بات غور سے سنتے ہیں۔ ان دنوں مجھے یوسف رضا گیلانی کی یاد بحیثیت چیئرمین سینیٹ ان کی اصول پسندی کی بنا پر آ رہی ہے۔
گیلانی صاحب اس وقت چیئرمین سینیٹ تو ہیں مگر کئی دنوں بلکہ ہفتوں سے سینیٹ کے اجلاس کی صدارت نہیں کر رہے۔ اُن کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک اُن کے جاری کردہ سینیٹر اعجاز چودھری کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد نہیں ہوتا اس وقت تک وہ اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔ ایوان کی صدارت نہ کرنے کا یہ وہ ''جرم‘‘ ہے کہ جسے گیلانی صاحب بار بار کرتے آئے ہیں۔ ملتان کا یہ سیّد زادہ محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دورِ حکومت میں (1993ء تا 1997ء) قومی اسمبلی کے سپیکر تھا۔ اسی دور میں محترمہ بینظیر بھٹو پر شیخ رشید احمد بڑی تند وتیز تنقید کیا کرتے تھے۔ بالآخر کسی مقدمے میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ گیلانی صاحب نے شیخ رشید کے پروڈکشن آرڈرز جاری کر دیے۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے اپنے معتمد سپیکر کے اس اقدام یا اس کی قانون پسندی اور جمہوریت نوازی کو ناپسند کیا اور اُن کے پروڈکشن آرڈرز پر عمل درآمد روک دیا گیا۔ مخدوم زادہ اپنے احکامات پر عمل درآمد کرانے پر ڈٹ گیا۔ گو محترمہ کا بہت احترام کرتے تھے مگر انہوں نے قانون کے مطابق قیدی رکنِ پارلیمنٹ کو ایوان میں نہ لانے پر کمپرومائز کرنے سے انکار کر دیا۔ تب ایک وزیر باتدبیر نے محترمہ کو سمجھایا کہ آپ کے اجازت دینے سے آپ کے ہی سپیکر‘ ایوان اور خود آپ کا وقار بڑھے گا۔ محترمہ نے وزیر کی رائے کو قبول کر لیا اور شیخ رشید احمد قیدی کی حیثیت میں ایوان میں آ گئے اور انہوں نے سپیکر کا شکریہ ادا کیا۔
ایک صحافی دوست کی دلچسپ آبزرویشن کے مطابق محترمہ بینظیر بھٹو بڑے شوق وذوق سے کتابیں پڑھتی تھیں‘ کسی صاحبِ مطالعہ کو قائل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے‘ اس لیے وہ مان گئیں۔ جبکہ میاں شہباز شریف نے کتاب بینی جیسا کوئی شوق نہیں پالا ہوا‘ وہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں اور انہیں جو کرنے کا اشارہ ملے اس پر عمل درآمد کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔
''چاہِ یوسف سے صدا‘‘ کے مصنف نے اپنی کتاب میں بعض نہایت دلچسپ واقعات کا تذکرہ کیا ہے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوسرے دور میں متحدہ عرب امارات کے حکمران شیخ زاید بن النیہان اسلام آباد تشریف لائے۔ ان سے محترمہ نے یوسف رضا گیلانی کا تعارف ایک شاعر کے طور پر کرایا ۔ گیلانی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ سنتے ہی شیخ نے فوری طور پر اُن کے تازہ کلام میں سے چند رومانوی اشعار سنانے کی فرمائش کر دی۔ اشعار سنائے گئے تو شیخ زاید نے کہا: سپیکر صاحب! آپ کی رومانوی شاعری میں بڑا تکبر ہے۔ یہ شاعری عرب مزاج اور ماحول کے مطابق نہیں ہے۔ پھر انہوں نے خود کچھ عربی اشعار سنائے جن میں ننگے پاؤں‘ ریگستان اور پھٹے کپڑوں کا ذکر تھا۔
اپنی خود نوشت میں گیلانی صاحب نے لکھا ہے کہ 1990ء میں وزیراعظم بینظیر بھٹو نے کور کمانڈروں کے اعزاز میں اپنی رہائشگاہ پر ایک عشائیہ دیا۔ انہوں نے ہر کور کمانڈر کے ساتھ اپنا ایک ایک وزیر بٹھا دیا۔ مجھے وزیراعظم کی طرف سے چٹ موصول ہوئی کہ میں آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کے ساتھ بیٹھوں اور اُن سے حکومت کی کارکردگی بارے دریافت کروں۔ حمید گل نے کہا کہ آپ کی حکومت پر بدعنوانی کے کئی الزامات ہیں اور آپ کے برے دن آنے والے ہیں۔ پھر کچھ ہفتوں کے بعد ایسے ہی ہوا۔
یوسف رضا گیلانی کوئی باقاعدہ شاعر تو نہیں مگر زندگی کے بعض اوقات شدّتِ احساس کے لمحوں میں بڑے برمحل شعر کہہ دیتے ہیں۔ اپنی کتاب کے آغاز میں گیلانی صاحب نے جو اشعار تحریر کیے ہیں اُن کے ایک ایک لفظ سے قفس میں قید طائر کی آزادی کے لیے تڑپ جھلکتی ہے۔ ملاحظہ کیجئے:
زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں
دیکھنا‘ حدِ نگاہ سے آگے دیکھنا بھی جرم ہے
سانس لینے کی اجازت تو ہے مگر
زندگی کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے
آج کے قیدی کی زندگی کے لیے ''کچھ اور بھی‘‘ کی ضرورت کو یقینا کل کا قیدی بخوبی سمجھتا ہے۔ اس لیے وہ قیدی رکن پارلیمنٹ کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کر کے کمتر درجے میں سہی‘ مگر آج کے قیدی کے دکھ کو کسی حد تک محسوس تو کرتا ہے۔
20 ماہ سے اوپر کوٹ لکھپت جیل لاہور میں مقید سینیٹر اعجاز چودھری کیلئے 13 جنوری 2025ء کو چیئرمین سینیٹ نے پروڈکشن آرڈر جاری کیے تھے‘ جن پر پنجاب حکومت نے تاحال عمل درآمد نہیں کیا۔ اسی لیے سابق قیدی سیّد یوسف رضا گیلانی اپنی بات پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک اور سینیٹر عون عباس کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ مگر ان کیلئے گیلانی صاحب کے جاری کردہ پروڈکشن آرڈرز کی تعمیل ہو گئی مگر سینیٹر اعجاز چودھری کو ابھی تک سینیٹ میں نہیں لایا جا سکا‘ اسی لیے گیلانی صاحب بھی سینیٹ اجلاس کی صدارت کیلئے ایوان میں واپس نہیں آئے۔
چاہِ یوسف سے دما دم صدا آ رہی ہے کہ جب تک میرے جاری کردہ آرڈرز پر عمل درآمد نہیں ہوتا اس وقت تک میں سینیٹ اجلاس کی صدارت کے لیے واپس نہیں آؤں گا۔ اپنے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد کا جذبہ یقینا قابلِ قدر ہے مگر مسلسل چار دہائیوں تک سیاست کے ایوانوں اور خارزاروں میں رہنے والے سابق وزیراعظم کو ''زندگی کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے‘‘ کی طرف توجہ دیتے ہوئے سیاست اور سیاستدانوں کو واپس ایوانوں میں لانے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں