یہ ایک انوکھا اور دلچسپ تجربہ تھا۔ سٹی کونسل کے کسی بھی اجلاس میں کوئی بھی شہری آ سکتا ہے اور اپنی شکایات اور تجاویز کا برملا اظہار کر سکتا ہے۔ تاہم امریکی ریاست ٹیکساس کی کاؤنٹی ڈیلس کے چودہ اضلاع میں سے ایک ارونگ کی سٹی کونسل کا یہ اجلاس غیرمعمولی نوعیت کا تھا۔ اس اجلاس میں شرکت کیلئے ارونگ کے ووٹروں کے مختلف طبقات کی طرف سے بھرپور تیاری کی جا رہی تھی۔ ہم جب ارونگ کے سٹی کونسل ہال کے باہر پہنچے تو پارکنگ میں گاڑی پارک کرنے کی جگہ تو کجا‘ تل دھرنے کو بھی جگہ نہ تھی۔ میری بھتیجی عبیر سعید کار پارکنگ میں بمشکل گاڑی پارک کر سکی۔
ٹیکساس کی سٹی کونسلز کے نظام کی حیران کن باتیں تو بعد میں آپ سے عرض کروں گا‘ پہلے آپ کو اس غیرمعمولی اجلاس کی ایک جھلک دکھا دوں۔ ٹیکساس سٹیٹ کے قانون کے مطابق یہاں کے کسی ضلع میں کسینو نہیں کھل سکتے۔ دو اڑھائی ماہ پہلے یہاں یہ خبر پھیلی کہ ٹرمپ کی ایک ڈونر خاتون ارونگ میں کسینو اور نائٹ کلب وغیرہ کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس خبر سے بالعموم شہر کے تمام حلقوں اور بالخصوص کیتھولک مسیحیوں اور مسلمانوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ کیتھولک پادریوں اور اسلامک سنٹرز کے ذمہ داران کی آپس میں ملاقاتیں شروع ہو گئیں‘ یہاں کی سول سوسائٹی بھی بہت متحرک ہو گئی۔ انہیں معلوم تھا کہ جب کسی علاقے میں کسینو کھلتے ہیں تو وہ اپنے ساتھ ایک طوفانِ بلاخیز لاتے ہیں۔ جوئے اور مادر پدر آزادی والی ''تفریحات‘‘ کے آنے سے شہروں کا ناک نقشہ بدل جاتا ہے اور پھر یہی کسینو اور کلبوں والی دنیا ان مقامات کی وجۂ شہرت بن جاتی ہے۔ اسی خوف نے مختلف نظریات کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کر دیا۔میٹنگ کے روز سینکڑوں لوگ ہال کے اندر تھے اور اتنی بڑی تعداد باہر بھی موجود تھی۔ اس علاقے کے لوگ پہلے ہی اپنے جذبات کا اظہار کر چکے تھے کہ یہاں ان غیراخلاقی تفریحات کو نہیں آنا چاہیے۔ مسلمانوں سے بھی پہلے سینکڑوں کی تعداد میں کیتھولک مسیحیوں نے ہال کی پہلی قطار کو بھر دیا تھا۔ ہمیں ہال کے آخر میں جگہ ملی۔ تقریباً ایک سو افراد کو اجلاس کے ایجنڈا پر دو منٹ فی کس بولنے کی اجازت دی گئی۔ اجلاس کی کارروائی کا آغاز ٹھیک شام سات بجے ہوا۔ سب سے پہلے ایک خاتون پادری نے دعاؤں سے ابتدا کی۔ اس کے بعد حاضرین سے امریکی پرچم کے احترام میں کھڑا ہونے کی درخواست کی گئی۔ یہ قومی ترانے سے مختلف قسم کی کارروائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اجلاس کی ایجنڈا کے مطابق کارروائی کا آغاز ہوا۔
کونسل کے سیکرٹری نے سب سے پہلے ایک شخص کو اظہارِ خیال کیلئے بلایا۔ اس شخص نے بتایا کہ میں ارونگ کے فلاں علاقے کی فلاں گلی کا رہائشی ہوں۔ اس نے کہا کہ کونسل کے قواعد کے مطابق ہر گھر کی بلندی 25 فٹ ہے مگر فلاں گھر کی بلندی 36 فٹ ہے۔ کونسل جواب دے کہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گیارہ فٹ کی اضافی بلندی کی اجازت کیوں دی گئی۔ اس کے بعد بھی چند اعتراضات کیے گئے۔ارونگ کے رہائشی اور پیدائشی امریکی شیخ عمر سلیمان صرف امریکہ میں ہی نہیں‘ عالمی سطح پر بھی مسلمانوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے جاتے ہیں۔ شیخ کا نام خطاب کیلئے پکارا گیا تو انہوں نے طے شدہ وقت دو منٹوں کے اندر دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسینو کی ٹیکساس کے کسی بھی مقام پر قواعد و ضوابط کے مطابق اجازت نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس خبر سے ہر مکتبِ فکر کے امریکی بہت پریشان ہیں۔ ایک دو اور کیتھولک مقررین کے بعد ڈپٹی میئر مائیک پر آئے۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ اگرچہ پلاننگ ڈپارٹمنٹ سے کسینو پروجیکٹ کی منظوری دے دی گئی تھی مگر ہماری نو رکنی سٹی کونسل نے قواعد و ضوابط کی روشنی اور ارونگ کے عوام کی اکثریت کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ ارونگ میں مجوزہ کسینو نہیں بنے گا اور نہ ہی یہاں نائٹ کلبوں کو اجازت دی جائے گی اور اسی طرح تفریحی ریزارٹ کی بھی ممانعت ہو گی۔ درخواست گزار عام ہوٹل اور ریسٹورنٹ تعمیر کرنا چاہے تو اس کی اجازت دی جا سکتی ہے۔یہ دل خوش کن خبر سن کر ہال تادیر تالیوں سے گونجتا رہا۔ اس کے بعد ایجنڈا کے دیگر نکات پر کارروائی جاری رہی‘ جن خواتین و حضرات نے اظہار خیال کیلئے اپنے نام لکھوائے تھے وہ اپنی اپنی باری پر آتے گئے اور وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہوئے سٹی کونسل کے مستحسن فیصلے کو سراہتے رہے۔ اس دل خوش کن نظام و انتظام کا مختصر نقشہ قابلِ تحسین بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ ہر سٹی کونسل دو اڑھائی لاکھ کی آبادی سے لے کر چھ سات لاکھ تک کی آبادی کیلئے قائم کی گئی ہے۔ سٹی کونسل بہت سے معاملات میں خود مختار ہے۔ شہر کے انتظامات میں ریاست مداخلت کر سکتی ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت۔ مثلاً ارونگ سٹی کونسل نے اپنے شہریوں کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کسینو اور کلبوں کی اجازت نہیں دی تو اس فیصلے کو ٹیکساس سٹیٹ کا براہِ راست منتخب ہونے والا گورنر تبدیل کر سکتا ہے اور نہ ہی امریکی صدر سٹی کونسل کا فیصلہ بدل سکتا ہے۔
سٹی کونسل کے اختیارات کی ایک جھلک دیکھئے۔ سٹی کونسل شہر کا سالانہ بجٹ بناتی ہے۔ وہی پراپرٹی وغیرہ کی خریدو فروخت پر عائد اور دیگر ٹیکسوں کا فیصلہ کرتی ہے۔ سٹی کونسل کے دس سے پندرہ منتخب افراد اپنی ہفتہ وار میٹنگز میں متفقہ یا اکثریتی فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ کونسل بانڈز بھی جاری کرتی ہے اور اسے آرڈیننس نافذ کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ اپنی پولیس ا ور ٹرانسپورٹ اور شہر کے اندر سڑکوں وغیرہ کی تعمیر بھی کونسل کے ذمے ہوتی ہے۔ میونسپل سطح کی عدلیہ کے ججز کا تقرر بھی کونسل کی ذمہ داری ہے۔ اگرچہ صحت اور تعلیم سٹیٹ کے ذمہ ہیں مگر وہ بھی جگہ کے حصول وغیرہ کے معاملے میں سٹی کونسل ہی کے مرہونِ منت ہیں۔ مختصر یہ کہ ساری شہری خدمات سٹی کونسل کی ہی ذمہ داری ہیں۔جہاں تک ٹیکساس کی ریاست کے اختیارات اور عوام کیلئے خدمات کا دائرہ متعین ہے‘ پبلک تعلیم سٹیٹ کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح محکمہ صحت کی خدمات بھی ریاست ہی انجام دیتی ہے۔ بین الاضلاعی سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر‘ ٹرانسپورٹ اور محدود ٹیکسوں کے نفاذ کے اختیارات بھی سٹیٹ کو حاصل ہیں۔ بجلی گیس بھی سٹیٹ کے ذمے ہے مگر وہ سٹی کونسل کے مشورے کے ساتھ ہی ان کے ریٹس کا تعین کر سکتی ہے۔ سٹیٹ کی اہم ترین ذمہ داری ہر شہری کیلئے سیفٹی اور سکیورٹی کو یقینی بنانا ہے۔ اس کے علاوہ ریاست ہائیکورٹس تک کا عدالتی نظام چلاتی ہے۔ اس نظام کی کامیابی اور خوبصورتی کا راز یہ ہے کہ ریاست یا فیڈرل گورنمنٹ شہری حکومتوں کے انتظامات و اختیارات میں ہرگز کوئی مداخلت نہیں کرتیں اور نہ ہی ان کے طے شدہ شیڈول کے مطابق انتخابات کے راستے میں کسی طرح کی رکاوٹ کھڑی کرتی ہیں۔ عدم مداخلت کا یہ خوبصورت اور خود کار نظام اگر وطن عزیز میں موجود ہو اور تین چار لاکھ کے ایک شہر کی حکومت اپنے شہر کے انتظامات میں خود مختار ہو تو پھر وہ اپنی مدد آپ کے تحت محیر العقول کرشمے انجام دے سکتی ہے مگر یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک مداخلت ہی مداخلت ہے۔ مرکزی حکومتیں صوبائی حکومتوں کو نہیں چلنے دیتیں‘ صوبائی حکومتیں شہری حکومتوں کے انتخابات نہیں ہونے دیتیں۔ غیبی قوتیں سیاسی حکومتوں کو نہیں چلنے دیتیں۔ سب حکومتیں مل کر عدلیہ کے کام میں مداخلت کرتی ہیں۔ حیرت تو ہمیں ان سیاسی شخصیات پر ہے کہ جو ہاورڈ‘ برکلے اور آکسفورڈ جیسی دانش گاہوں سے فارغ التحصیل ہو کر پاکستان لوٹتی ہیں تو وہاں سے سیکھا ہوا وہیں چھوڑ کر وطن عزیز پہنچتے ہی ووٹ سے نہیں‘ دھن اور دھونس سے نظام چلانے میں جُت جاتی ہیں۔
خدا جانے وہ دن کب آئے گا جب ہم اپنے حالِ زار کو سنجیدگی سے بدلنے کی طرف مائل ہوں گے؟