یہ ہمارے قدم ہی ہیں جو تپتی ریت میں دھنستے جا رہے ہیں۔ پیر اور جسم بوجھل ہیں‘ ہمت جواب دے چکی ہے‘ ذہن میں وہ جذبہ نہیں کہ یکبار توانائیاں جمع کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھا جائے۔ ایسا معلو م ہوتا ہے کہ ہم وقت کے صحرا میں اٹھتی ہوئی آندھیوں میں کھو چکے ہیں۔ سب اپنی اپنی ٹولیوں میں بٹے اپنے فکری غبار میں سرگرداں ہیں۔ شاید اجتماعیت اور مل کر چلنے اور آگے بڑھنے کی سمت متعین کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ ہم کہیں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ بحران در بحران کا مسلسل شکار سیاسی لڑائیوں سے نڈھال ‘ مگر جس گروہ کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھتا ہے یا بٹھایا جاتا ہے وہ سلطنتِ مغلیہ کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا مگر قول وفعل‘ رعب داب‘ رہن سہن اور طرزِ حکمرانی اور جلالِ شاہی میں مغل شہزادوں سے کم بھی نہیں رہتا۔ مغل دربار ہو یا ایران اور دیگر سلطنتوں کے بادشاہ‘ سب میں خاندانِ اول کی اولیت تھی۔ ایک بڑا بادشاہ اور باقی سب شہزادے‘ شہزادیاں‘ وزیر مشیر اور مقرب‘ درباری مرکزِ اقتدار میں بیٹھ کر لوگوں کی قسمت کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ یہ منصوبے‘ دوامِ اقتدار‘ استحکامِ شاہی نظام‘ امورِ فرمانروائی اور وسائل کے حصول کے لیے ریاست کے ہر گوشے اور ٹکڑے میں جاگیرداروں اور منصب داروں کی سہولت موجود ہوتی۔ ان کی طرف کوئی حکم عدولی‘ نافرمانی اور بغاوت کا تھوڑا سا بھی خدشہ ہوتا تو فوج کشی ہوتی‘ سب کچھ چھین لیا جاتا اور خاندان کے خاندان تباہ کر دیے جاتے کہ آئندہ سرکشی کا سوچنے والوں کے لیے عبرت ناک مثال قائم کی جائے۔ کہتے ہیں ایسا خوف ماضی میں بنیادی ہتھیار کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔ پرانے وقتوں کے نظاموں میں بادشاہ کی سلامتی اور ملک کی بقا کو علیحدہ دیکھنے کی روایت نہ تھی۔ بادشاہ ہے تو مملکت ہے اور ملکت ہے تو بادشاہ سلامت ہیں۔ ایسے نظاموں کی پائیداری کے لیے موروثیت کا اصول تھا کہ آخر بادشاہ نے تو ایک دن آخری سانس لینی ہے‘ تو ان کے بعد تخت شاہی پر کون براجمان ہو گا۔ مغرب کے ممالک کی بادشاہتوں میں تاج بڑے بیٹے کے سر پر رکھا جاتا تھا۔ اب بھی جہاں کہیں یہ قدیم آئینی بادشاہتیں قائم ہیں ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسا کرنے میں تسلسل اور یقین کی سی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور تخت نشینی کے جھگڑوں سے اُن کی بچت ہو جاتی۔ مغلوں‘ ایرانیوں اور افغانوں کے مسائل کچھ اور تھے جو آج ہمارے بھی ہیں۔ ان میں کثرتِ ازدواج کا رواج تھا۔
سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں کے وسیع حرم مشہور تھے۔ اولاد ان سلطنتوں کے حکمرانوں کی سینکڑوں نہیں تو درجنوں میں تو ہوتی تھی۔ بادشاہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی طاقتور ملکائوں کے رشتے دار شہزادوں کو آگے کرکے اقتدار پر قبضے کی سازشوں میں مصروف ہو جاتے۔ مغلوں اور افغانستان کی درانی سلطنت کا انجام آپ تاریخ میں پڑھ سکتے ہیں۔ دنیا تو بدل چکی ہے اور ہمارا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ہم آئینی جمہوری اور دورِ جدید کے ریاستی اصولوں سے بڑھ کر اسلامی مملکت ہیں۔ اس کا اندازہ نہیں‘ آپ تجربہ کسی بھی شہر کے بازار میں ٹریفک‘ ہر طرف گندگی‘ تجاوزات اور خورو نوش کی اشیا میں ملاوٹ میں کر سکتے ہیں کہ ہم کسی حد تک اپنی اعلانیہ شناخت کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں۔ ہمارے بانی اور وہ اکابرین جنہوں نے اس ریاست کا خواب دیکھا اور اس کے لیے جدوجہد کی وہ اور قسم کے لوگ تھے۔ مغرب کی جامعات کے پڑھے ہوئے‘ انگریزی تاریخ‘ سیاست‘ فلسفے اور قانون کے ماہر اور صحافی کے طور پر نہ قبائلی اور نہ جاگیردار‘ وہ آئین‘ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے تھے اور ریاست اور قوم سازی کے ان بنیادی اصولوں کو اپنے معروضی حالات میں لاگو کرتے۔ ہمارے ملک کو دنیا کی ممتاز ترین ریاستوں کی صف میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ہماری قومی زندگی کے پہلے سات سال کی سیاسی تاریخ اس کی گواہ ہے۔ اس کے بعد پھر چراغوں میں روشنی رہی اور نہ کارواں وقت کی آندھیوں کا سامنا کر سکا۔
ریاست اور سیاسی نظام کی تشکیل اور انحصار کئی عناصر پر ہے۔ کسی بھی ملک کی سماجی ساخت خشتِ اوّل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ سماجی ساخت ریاست کی پالیسی اور قانون تبدیل کر سکتی ہے اور اس کے ذرائع تعلیم عام‘ صنعتی انقلاب‘ معاشی ترقی اور سماجی اصلاحات ہیں جو دنیا میں تقریباً ہر ریاست میں جدیدیت کی طرف قدم رکھنے کے لیے استعمال میں لائے گئے ہیں۔ یہاں اپنے تناظر میں جو بات جمود اور مسلسل سیاسی بحرانوں کو سمجھنے کے لیے ہم نظر انداز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ سیاست پر قبضہ قبائلیوں اور جاگیرداروں کا ہے۔ آزادی کے وقت مسلم لیگ کا جو منشور تھا اس میں زرعی اصلاحات کے ذریعے ان دو سماجی گروہوں کا خاتمہ تھا مگر جب اس پارٹی پر غلبہ جاگیرداروں کا تھا تو پارٹی بھی ان کی اور سیاست بھی‘ ان کی ہو کر رہ گئی۔ مشرقی پاکستان میں تو زرعی اصلاحات کچھ اور وجوہ کی بنیاد پر کی گئیں ‘ اس میں سے ایک سماجی انقلاب بھی پیدا ہوا جس کے اثرات بنگلہ دیش کی سیاست پر گہرے رہے ہیں۔ بھارت میں بھی کانگریس پارٹی نے زرعی اصلاحات نافذ کیں‘ سیاسی اور جمہوری عمل کو بھی جاری رکھا تو نئے کارواں بھی پیدا ہوتے رہے اور سیاسی بحرانوں سے بچ نکلنے کی تدبیریں بھی کام آتی رہیں۔
دنیا بھر میں جمہوری نظام لوگوں کی ترجیح اور انقلابوں کی بنیاد اس لیے ہے کہ نئی قیادت عوامی تائید سے پیدا ہوتی ہے۔ انتخابی مسابقت میں عوام اور ملک کا مفاد سامنے رکھا جاتا ہے اور جوابدہی‘ ذمہ داری اور احتساب قانون اور عدلیہ کی آزادی کی صورت میں قائم ہو جاتے ہیں‘ جسے ہم جمہوریت کہتے ہیں۔ جاگیرداری اور قبائلی معاشرے میں یہ نظام بادشاہت کے زمانوں کی طرح چند بڑے سیاسی گھرانوں‘ سرکاری مصاحبوں اور ہر ضلع میں جاگیرداروں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتا ہے۔ اس میں اگر آپ کو شک ہے تو آزادی کے بعد سے آج تک تمام انتخابات‘ حتیٰ کہ انگریزی دور کے دو چنائو بھی شامل کر لیں‘ آپ کو قبائلی سرداروں‘ گدی نشینوں اور جاگیرداروں کی چھاپ دکھائی دے گی۔ ہمارے بحرانوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نئی مڈل کلاس‘شہروں کے پھیلائو‘ کچھ نہ کچھ معاشی ترقی اور سماجی تحریکوں کے زور پر نیا سیاسی شعور پیدا ہوا ہے‘ جو جاگیرداروں کے سیاست پر قبضے اور ان کی ریاستی سرپرستی کے خلاف ہے۔ ایک اور بڑا تضاد ‘ جو سب تضادوں کا بادشاہ ہے‘ اس فرسودہ نظام کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ آج کل تو گہرا اتحاد ہے‘ مگر تضاد کے دوسرے سرے پر جو ادھر اُدھر تحریکیں جنم لے رہی ہیں‘ اس میں ہمارے تضادات میں مزید اضافہ ہو گا‘ اور بحران در بحران کی کیفیت ختم نہیں ہو سکے گی۔ ہمارے اندازے کے مطابق صرف دو سو سیاسی خاندان اور تین چار موروثی شہزادے اور شہزادیاں ہیں جو اس ملک کی سیاست پر جمہوریت کے نام پر قابض ہیں۔ جنہوں نے آواز اٹھائی ان کے ساتھ جو حشر ہو ا وہ اس خوف اور جبر کا تسلسل ہے جو وادیٔ سندھ میں حکمران طبقات نے ہمیشہ قائم رکھا ہے۔