"RBC" (space) message & send to 7575

کسان‘ حکمران تضاد

تاریخِ عالم کے سب سے بڑے اور المناک تضاد کا شکار ہونے سے شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ اپنا دامن بچا سکا ہو۔ جہاں حکمران ہوں گے‘ وہاں نظام کے زیریں سرے پر کسان اور کاشتکار ہوں گے۔ اور جہاں کسانوں کا معاشرہ ہوگا‘ استحصال کرنے کے لیے حکمران طبقات موجود ہوں گے۔ البتہ صنعتی انقلاب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی تبدیلیوں نے ایک نئے معاشی نظام کو پیدا کیا جسے مارکس ''سرمایہ دار اور مزدور کا تضاد‘‘ کہتا ہے۔ جمہوریت کے زور پر حقوق کی جنگ مغرب میں مزدور طبقات نے اگر مکمل طور پر جیتی نہیں تو وہ ہارے بھی نہیں۔ جب سے انہیں ووٹ کا حق ملا اور سیاسی جماعتیں ان کے جائز مطالبات کو اپنے اپنے منشوروں میں شامل کرکے اصلاحات کا عمل آگے بڑھاتی رہیں تو اشتراکی نظریہ اس کے ساتھ اپنی جگہ وہاں بنانے میں ناکام رہا۔ کسان کی حیثیت مزدور اور شہروں کے باسی میں تبدیل ہوئی تو وہاں زراعت کا نظام بھی سرمایہ داروں کے ہاتھ میں آ گیا‘ جس طرح آج کل ہمارے ہاں کارپوریٹ ایگریکلچر ہو رہی ہے۔ یہ بہت دور کی بات ہے‘ ہم ابھی تک جاگیردار‘ قبائلی معاشرہ ہیں۔ تبدیلی کا عمل سست ہے مگر شہروں کے پھیلاؤ‘ صنعتوں کے فروغ اور کسانوں کی شہروں کی طرف منتقلی کی صورت میں جاری ہے۔ معاشی نظام کا جبر ہر ایک ملک کو جلد یا بدیر تبدیل کرے گا۔ ہم تو بات آج کے پاکستانی معاشرے کی کر رہے ہیں‘ جہاں ابھی تک کسان اور حکمران کا تضاد گہرا ہے۔ ہمارے حکمران طبقات تو کچھ تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ مغلوں کے منصب داری نظام سے انگریز دور کی بندوبستی جاگیرداری اور موجودہ دور کی نئی زمیندار کلاس‘ جس نے جاگیرداروں کو تو ختم نہیں کیا مگر ان کی سماجی حیثیت‘ سیاسی کردار اور مقام سے متاثر ہو کر اکثر نے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے جہاں زمینیں فروخت ہوئیں‘ خرید لیں۔ ملک کے ہر حصے میں نئے زمیندار‘ جن میں کچھ صنعتی گھرانے بھی موجود ہیں‘ ابھر کر سامنے آئے۔
جاگیردار ہوں یا نئے زمیندار طبقات‘ زرعی معیشت میں کبھی وہ خسارے میں نہیں رہے۔ اکثر زمینداروں نے کارخانے لگا کر خام مال اپنی زمینوں سے حاصل کرنے کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ یہاں تو اپنوں نے شوگر ملیں لگا رکھی ہیں‘ پھر مرغیوں‘ انڈوں‘ چپ بورڈز‘ ڈیری فارمز اور کچھ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرف بھی گئے ہیں۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز‘ جو ملک کے ہر حصے میں پھیلی ہوئی ہیں‘ حکمران طبقات کی حصے داری کے بغیر بن ہی نہیں سکتیں۔ ہر جگہ سرکاری زمینیں‘ جو عوام کی ملکیت تھیں‘ خفیہ طور پر کئی ہاتھوں میں منتقل ہوتے ہوتے شاندار کالونیوں کے مالکان کے قبضوں میں آ گئیں۔ اس بارے میں ہمارے راوی کبھی جھوٹ یا مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لیتے۔ کہتے ہیں ان اربوں‘ کھربوں میں سے جہاں غیر ملکی کرنسی خرید کر باہر کی دنیا میں لے جائی گئی‘ اس کا ایک حصہ مزید زرعی زمینوں کی خریداری میں سرمایہ کاری میں لگا دیا گیا۔ جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کا سیاسی کاروبار ہی ایسا ہے کہ زراعت میں انہیں کبھی خسارہ ہوا‘ اور نہ ہونے کا کوئی امکان ہے۔ ذرا متوسط قسم کے زمیندار‘ ہماری طرح کے کاشتکار کبھی کبھار گزارا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں مگر عام کسان کی طرح بدحال نہیں ہوتے۔
ایک زمانہ تھا جب بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کی زمینیں یورپ سے لے کر چین اور وادیٔ سندھ کے موجودہ علاقوں میں کسان کاشت کرتے اور فصل تیار ہوتے ہی سب کچھ وہ اٹھا کر لے جاتے۔ کسان کو زندہ رکھنے کے لیے کچھ اسے دے دیا جاتا۔ وہ زمانہ ہم نے بچپن میں دیکھا تھا اور اب بھی اندرونِ سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں موجود ہے۔ لیکن وہاں بھی اس طرح نہیں جیسے نصف صدی پہلے تھا۔ دو تبدیلیاں آئی ہیں۔ ایک تو چھوٹا زمیندار کاشتکار‘ جو چھوٹے قطعۂ اراضی پر اپنی کفالت کرتا ہے‘ ملک کے ہر حصے میں پھیلا ہوا ہے۔ اگر ناموں کی تعداد اور زمین کی ملکیت کے اعداد و شمار دیکھیں تو محدود ایکڑوں پر خود کاشت کرنے والے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ چونکہ پورا خاندان مل کر کاشت کرتا ہے اس لیے چھوٹے خود کاشتی فارموں کی اوسط پیداوار بھی زیادہ ہے۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہے کہ جاگیردار اور بڑے زمینداروں کی اکثریت نے زمینیں خود کاشت کرنے کے بجائے ٹھیکے پر دینی شروع کر دی ہیں۔ گھر بیٹھے‘ کچھ کیے بغیر کروڑوں روپے ہر سال مل جائیں تو ہاتھ ہلانے کی کیا ضرورت ہے؟ ہماری ملکی معیشت کا المیہ ہی یہی ہے کہ ایک بہت بڑا فائدہ طلبی طبقہ (رینٹ سیکنگ کلاس) جو خود کچھ کرنے کے بجائے دوسروں کی محنت پر پلتا ہے‘ ہر شعبے میں پھیل چکا ہے۔ وہ لوگ جو کسی زمانے میں کسان تھے‘ کچھ محنت مزدوری سے بچا کر تجارت یا باہر کے ملکوں سے ترسیلِ زر کی بدولت زمینیں ٹھیکے پر لیتے ہیں۔ بے شک گندم کی قیمت چار ہزار من سے اگر آج کے بھاؤ 2150 روپے پر آ جائے‘ ٹھیکے دار کو تو طے شدہ رقم ادا کرنی ہے۔ اپنے سامنے کئی مثالیں موجود ہیں کہ فصل خراب ہونے‘ قیمت گرنے اور اچانک موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی ٹھیکے دار کنگال ہو گئے اور جن کے پاس مال مویشی یا کچھ زمین کے ٹکڑے تھے‘ انہیں بیچنے پڑ گئے۔ کئی معمولی کاشتکاروں نے بھاری سود پر قرضے ادا کرنے کی مجبوری میں زمینیں انہی کے سپرد کر دی ہیں۔ آج ہمیں پنجاب کے وزیرِ مالیات‘ انگریزی دور کے چھوٹو رام کی یاد آتی ہے جس نے قانون بنا کر سود خوروں کو زمین خریدنے کے لیے نااہل قرار دیا تھا۔ آج ملک کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں‘ ابھرتے ہوئے زمیندار آپ کو سود خور ہی ملیں گے۔ چغے اور پگڑیوں کے رنگ دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی عرش سے فرشتے اُتر کر آئے ہیں! سود کی شرح 40 فیصد سالانہ ہے‘ اور ہر چھ ماہ یعنی ہر فصل کے بعد حساب ہوتا ہے۔ اگر مقروض پوری رقم ادا نہ کر سکے تو بقایا اگلے چھ ماہ تک قرض تصور ہو گا۔ سود در سود کی لعنت نے نجانے کتنے گھر تباہ کر دیے ہیں۔ سود خور بھی زمینداروں کے نئے طبقات میں شامل ہو رہے ہیں۔
کسانوں‘ کاشتکاروں اور ٹھیکے داروں کا جو حشر گزشتہ ایک سال میں تختِ لاہور کے حاکمین نے اور عبوری حکومت کے کئی گھناؤنے کرداروں نے کیا ہے‘ ہماری تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اشارہ تو کرتے رہے ہیں لیکن کبھی تفصیل سے لکھیں گے کہ نسل در نسل‘ گزشتہ نصف صدی سے مسلسل محنت اور سرمایہ کاری کر کے بنجر‘ قدیم زمینوں کو صرف اس درویش نے نہیں‘ ہزاروں لوگوں نے قابلِ کاشت بنایا ہے۔ یہی لوگ اپنے محدود علاقے میں لاکھوں من گندم ہر سال پیدا کرتے ہیں۔ روزانہ کئی ٹرک اور ٹرالے ہزاروں بوریاں اٹھائے‘ ملک کی ہر سمت میں رواں دواں ہیں۔ ذخیرہ اندوز‘ فلور ملز مالکان اور نئے سرمایہ دار کروڑوں من گندم اپنے گوداموں میں بند کر رہے ہیں۔ عام کاشتکار مجبور ہے کہ اس نے ادھار واپس کرنا ہے۔ ابھی تک جو اطلاعات اکٹھی کی ہیں‘ 2200 روپے من سے زیادہ کسی کی گندم نہیں بکی۔ آپ شہروں میں آج کل آٹا خریدتے ہیں تو تقریباً پانچ ہزار سے چھ ہزار روپے فی من کے حساب سے ادا کرتے ہیں۔ یہ جو تین سے چار ہزار کا نفع ہے‘ آپ خود اندازہ لگائیں کس طبقے کے کھاتے میں جا رہا ہے۔ جس زمیندار کی اوسط پیداوار 40من فی ایکڑ سے کم رہی ہے‘ اور ساتھ اس نے سود خوروں سے قرض بھی لیا ہوا ہے‘ وہ تو بیچارہ خوار ہو گیا‘ اور ٹھیکے دار تو اگلی چار نسلوں تک شاید نہ سنبھل سکے۔ اگلے سال بھی وہی ڈرامہ بازی ہو گی‘ خبریں چھپیں گی کہ آٹے کی قلت ہے‘ حکومت باہر سے گندم خریدے گی‘ جس کا تخمینہ ایک ارب ڈالرز لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح حکمران سستی روٹی کی سیاست میں کسانوں اور کاشتکاروں کو معاشی خودکشی کی طرف دھکیلتے رہیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں