"RBC" (space) message & send to 7575

’’سوکھا واں ،خوش نئیں‘‘

یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنے بہترین دماغوں ‘ اہلِ فن ‘ تخلیق کاروں ‘ عالم فاضل افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ نہ جانے کتنے دانشور‘ وہ نہیں جن کیلئے ہم عام فہم زبان میں یہ لفظ استعمال کرتے ہیں‘ بلکہ وہ جو کسی بھی ملک میں ہوں تو قابلِ فخر ہوتے ہیں ‘ اپنی دھرتی کی تڑپ میں دیارِ غیر میں زندگیاں گزار کر چلے گئے۔ چند ہفتے پہلے منظور اعجاز کو امریکہ فون کیا مگر دوسری طرف خموشی تھی۔ خیر وعافیت کا پیغام چھوڑا تو نحیف وناتواں آواز نے جواب دیا۔ دنیا کے اُس کونے سے ایک مشترک دوست سے جب بات ہوئی تو اُس نے بتایا کہ منظور کچھ عرصہ سے اچھا محسوس نہیں کررہے۔ کوئی کسی کے بارے میں ایسی خبر دے تو ہم کچھ پرانی یادوں میں کھو جاتے ہیں۔ ہم جامعہ پنجاب میں اکٹھے تھے۔ میرے خیال میں منظور ایک سال آگے تھے۔وہ شعبۂ فلسفہ ‘ اور ہم گوشۂ سیاسیات کے مکین تھے۔ نیشنلسٹ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ہم رکن تھے ‘ اور ہمارے سرکردہ ‘ سرگرم ‘ پُرجوش اور نہایت باصلاحیت رہنما ‘ فیاض باقر تھے۔ ان کی شخصیت اور ترقی پسند خیالات سے متاثر ہو کر ہم بھی دل کے نہاں خانوں میں سرخ انقلاب کا جھنڈا تین سال ‘ جب تک کہ طالب علم تھے ‘ دھڑلے سے لہراتے رہے۔ منظور اعجاز طالب علمی کے اوائل سے ہی دانشور تھے۔ پنجابی ادب‘ فلسفے اورسماجی علوم میں ہم سب سے قدآور تھے۔ بچپن سے معذور تھے ‘ بیساکھیوں کے سہارے چلتے ‘ مگر زندگی کی جدوجہد میں عزم‘ ولولہ ‘ تدبیر اور علم وحکمت کے میدان میں تیزگام اور تیز تر۔ جدھر بھی جاتے ہم جیسے ایک دو حواری ساتھ ہوتے۔ مجھے نہیں یاد کہ انہیں کبھی اکیلا دیکھا ہو۔ اُن کی چوکڑی کیفے ٹیریا کے لان میں روزانہ لگتی‘ چائے کے کئی دور چلتے ‘ اور سگریٹ پہ سگریٹ سلگتی۔ ہم نے بھی اُس زمانے میں تمباکو کے دھوئیں کو پھیپھڑوں میں اتارنے کی مشق کی مگر جلد ہی طبیعت اچاٹ ہو گئی اور ہم آج تک اس کی لذت سے محروم ہیں۔ منظور نے آخری دم تک وہی ماحول برقرار رکھا۔ ایک ہاتھ میں سگریٹ ‘ ساتھ چائے یا کافی کا کپ اور گھنٹوں گفتگو کا بے تکان سلسلہ۔
امتحانات پاس کیے ‘ سندیں لیں اور ہم دونوں جامعہ پنجاب میں لیکچرار لگ گئے۔ یوں ہماری ملاقاتیں‘ رفاقتیں اور نظریاتی قربتیں جاری رہیں۔ ابھی عوامی حکومت کا خاتمہ نہیں ہوا تھا ا ور ضیا مارشل لاء نہیں لگا تھا۔ ایک مرتبہ کہیں ملے تو حکم ہوا کہ نجم حسین سید کے گھر ہفتے میں ایک دفعہ کلاسیکل پنجابی ادب پر نشست ہوتی ہے‘ مجھے اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ ان مہینوں میں بلھے شاہ کے کلام کو پڑھا جارہا تھا۔ کافی کو سب دہراتے‘ شاہ صاحب تشریح فرماتے ‘ سماجی اور تاریخی حوالوں سے گفتگو ہوتی اور پھر منظور اعجاز ہارمونیم پر سُر لگاتے۔ ہم سب اُن کے ساتھ مل کر گاتے۔ کاش وہ سلسلہ کبھی نہ ٹوٹتا۔ کبھی سوچا نہ تھا کہ لاہور اور جامعہ پنجاب‘ جو ہماری پہلی اور آخری محبت تھے ‘ سے جلاوطن ہونا پڑے گا۔ اپنی داستان لکھنے کا ابھی وقت نہیں آیا۔ زندگی رہی تو شاید کچھ یادیں چھوڑ جائیں۔ منظور اعجاز کی کہانی بہت المناک ہے مگر ساتھ ہی جنہوں نے انہیں قریب سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ وہ ہمت‘ عزم اور جدوجہد کا استعارہ تھے۔ ضیا الحق کا زمانہ آیا تو تب کی نظریاتی تقسیم کے ہمارے وہ دوست جو جنرل صاحب کی سوچ کے قریب تھے اور سبز انقلاب کی باتیں کرتے تھے ‘ نے جامعات سے ترقی پسندوں یا دوسرے معنوں میں اشتراکیوں بلکہ اُن کی زبان میں کمیونسٹ دھڑوں کو فارغ کروا دیا۔ فہرستیں پورے ملک میں بنیں ‘ جامعات کے قوانین تبدیل ہوئے اور کئی حربے استعمال کیے گئے کہ شرپسندوں کو نکال باہر کیا جائے۔ منظوراعجاز پر ایک بھونڈا سا کیس بنا کر اُن کی نوکری ختم کر دی گئی۔ اُس زمانے میں وہ چند سو روپے ہی تو تھے جن پر وہ گزارا کرتے تھے۔ انہوں نے کسی سے مل کر مزنگ چوک میں‘ جہاں کبھی صنم سینما ہوا کرتا تھا‘ کتابوں کی دکان کھول لی۔ سامنے کتابیں تھیں اور دکان کے عقبی حصے میں بیٹھک چلتی تھی۔
ہم تو مارشل لاء کا دوسرا سال شروع ہوتے ہی امریکہ بھاگ گئے کہ داخلہ بھی ہوگیااور ساتھ معاون استاد کی جگہ بھی مل گئی۔ ہمارے دیگر نظریاتی دوستوں نے سرزمین کو اپنے لیے تنگ ہوتے دیکھا تو باہر کی جامعات کا رُخ کرناشروع کردیا۔ منظور اعجاز نے ہارورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ‘ معاشیات میں پی ایچ ڈی کی اور واشنگٹن ڈی سی کی شہری حکومت میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ کئی بار واشنگٹن جانا ہواتو ہر مرتبہ کوشش ہوتی کہ منظور اعجاز سے ملاقات ہوجائے۔ وہ بھی جب پاکستان آتے تو ہر مرتبہ تو نہیں‘ البتہ ہم لاہور ہوتے تو ملاقات ضرور ہوجاتی۔ چند سال پہلے لاہور آئے ‘لمز میں دن کا ایک حصہ ہم نے اکٹھے گزارا۔ کہا : '' رسول بخش‘ اس مرتبہ میں اوکاڑہ میں اپنی آبائی زمین کے چند ایکڑ بیچنے آیا ہوں لیکن قریبی عزیز ہر مرتبہ روڑے اٹکاتے ہیں‘‘۔ چائے اور سگریٹ کے کئی دور ہم نے کچھ تدابیر پر غور کرنے کیلئے لگائے۔ انہیں سخت تاکید کی کہ کوئی رات وہاں نہیں گزارنی اور نہ ہی کوئی شے وہاں سے کھانی ہے ‘ اور جو بھی رقم ہے وہ لاہور میں اپنے بینک کھاتے میں وصول کرنی ہے۔ وہ بھی پنجابی سماج‘ زبان وادب اور فوک دانش کے عالم تھے‘ بس اُن سے محبت میں یہ باتیں کہہ دیں۔ ''فکر نہ کرو یار‘ میں کوئی بچہ تو نہیں‘‘۔ انکے چہرے پر عجیب سی اداسی اُس دن دیکھی۔ پوچھا : منظور‘ اگر کوئی پریشانی ہے ‘ میں مدد کرسکتا ہوں تو بتائو۔ کہا : نہیں ‘ نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔نصف صدی سے تو میں انہیں جانتا تھا۔ جوانی کے وہ دن اور جوان اساتذہ کے وہ ہمارے ابتدائی سال جامعہ پنجاب کے سبزہ زاروں میں اکٹھے گزرتے تھے۔ انہیں کبھی اس طرح افسردہ نہیں دیکھا تھا۔ اُس زمانے کی کسی ماہ جبیں کا نام لے کر چھیڑنے کی کوشش کی تو دائیں ہاتھ سے اپنی بیساکھی اٹھالی اورمصنوعی غصے سے کہا ''بکواس بند کرو‘‘۔
ان سے زمینی رشتہ جو پہلے کٹ چکا تھا اب چھوٹی سی ملکیت کی لکیر مٹنے کو آ رہی تھی۔ اس آخری ملاقات سے بہت عرصہ پہلے واشنگٹن کے اُس ہوٹل میں جہاں ہمارا قیام تھا ہماری رات بھر کی محفل جمی تھی۔ اس میں کچھ دیگر ہم خیال خواتین و حضرات بھی تھے۔ وہی فلسفے ‘ نظریاتی کشمکش کے قصے ‘ تاریخ ‘ سماج ‘ ادب اور منظور اعجاز کا عشق‘ پنجاب اور اس کی گرجدار اور اونچی آواز سگریٹ کے دھوئیں میں غالب تھی۔ کبھی میں نے جرأت کر کے انہیں کہہ دیا کہ منظور ‘ میں تو سرائیکی ہوں۔ کہتے '' چل چل‘ توں کیوں پنجابی نئیں ‘ سرائیکی وی تے پنجابی اے‘‘۔ اُس روز امریکہ میں عید تھی جب صبح سویرے وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تبارک تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں درویش صفت عالم فاضل درویشوں کی قربت اور دوستی نصیب ہوئی۔ وہ زمانے بھی دیکھے جب بھوکے بھی رہے اور روٹی کے ٹکڑوں اور چائے پر گزارا کیا۔ قناعت‘ صبر اور شکر کیساتھ ایک باوقار زندگی گزاری۔ میں نے منظور اعجاز سے بہت کچھ سیکھا ‘ جس میں خود پر یقین ‘ خود پر انحصار‘ غیر متزلزل ارادہ اور جہدِ مسلسل سے اپنے خوابوں کی تعبیر اور اپنے سماج ‘ پنجاب کی روایات ‘ زبان و ادب سے محبت شامل ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں وہ خود کار چلاتے تھے۔ وہ خاص کار جو ہاتھوں سے کنٹرول ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ساتھ بٹھا کر کسی کیفے میں لے گئے۔ کافی کا دور اور پرانے وقتوں کی باتیں بہت دیر تک ہوتی رہیں۔ انہیں معاشی طور پر آسودہ دیکھ کر غیر ارادی طور پر پوچھ لیا '' منظور اعجاز‘ یہاں پردیس میں خوش ہو؟ ‘‘ اُنکے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ پھیل گئی ‘ اور کہا '' رسول بخش‘ میں سوکھا واں ‘ خوش نئیں۔ ‘‘ پنجاب کی تہذیب میں گندھے ‘ فطری لکھاری اور دانشور اپنی دھرتی کے ہر رنگ کو اپنی تخلیقی عمل میں سجاتے۔ کون اپنی دھرتی سے جدا ہو کر خوش رہ سکتا ہے ؟ پردیس میں بھی اپنا چھوٹا سا پنجاب دل کے نہاں خانے میں بسائے رکھا۔ ہماری محفلیں تو اُجڑ گئیں مگر اُن کی فکری مہک آخری سانس تک ہماری زندگی میں خوشبو پھیلاتی رہے گی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں