پہلگام کے واقعے کے بعد سے کافی وقت بھارتی میڈیا کے ساتھ گزر رہا ہے۔ چند دن ہی گزرے ہیں لیکن لگ رہا ہے کہ میں گراں گوش ہو گیا ہوں۔ نیچی آواز‘ دھیما لہجہ سنائی ہی نہیں دے رہا۔ کان پھاڑ دینے والی آواز میں بات نہ کی جائے تو سمجھ ہی نہیں آتی‘ جیسے آپ نقار خانے میں کچھ وقت گزار کر باہر نکلیں تو کان سُن ہونے لگتے ہیں۔ بہت مدت سے بھارتی الیکٹرانک میڈیا ایسا ہی نقار خانہ ہے جہاں ہر شخص بڑے سے بڑا ڈھول گلے میں ڈال کر لاتا اور اسے زیادہ سے زیادہ شور کے ساتھ پیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر یہ نہ کرے تو کامیاب نہیں سمجھا جاتا۔ یہ معاملہ صرف پاکستان سے جنگی جنون کے دنوں میں ہی نہیں‘ بھارتی میڈیا کا روز مرہ کا معمول ہے۔ ریٹنگ کے شوق میں پاکستان سے نفرت اور خود کو برتر سمجھنے کا زعم بھی شامل ہو جائے تو وہی ہوتا ہے جو آج کل بھارت میں ہو رہا ہے۔ انہیں دیکھ کر سمجھ میں آ سکتا ہے کہ ماہرینِ نفسیات جو کہا کرتے ہیں وہ کتنا بڑا سچ ہے کہ برتری کا زعم بدترین احساسِ کمتری سے پھوٹتا ہے۔ اگر کوئی کبھی بھارت نہ گیا ہو تو وہ بھارتی میڈیا کو دیکھ کر یہی سمجھے گا کہ سارا معاشرہ ایسا ہے جبکہ حقیقت میں ایسا ہے نہیں۔ عقلمند‘ بردبار‘ دھمیے لہجے میں بات کرنے والے سلجھے ہوئے لوگ بھی اسی معاشرے میں موجود ہیں۔
2004ء کی بات ہے‘میں جشنِ بہارعالمی مشاعرے کے سلسلے میں دہلی میں موجود تھا۔ سعودی عرب سے ایک سعودی نژاد اردو شاعر بھی تشریف لائے ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں ایک ہی جگہ قیام تھا۔ جمعہ کا دن تھا‘ انہوں نے بھی جمعہ کی نماز پڑھنی تھی‘ سو ہم ایک ہی گاڑی میں رہائش گاہ سے کناٹ پلیس کی ایک مسجد کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ پہلی بار بھارت آئے تھے۔صفائی کے برے حالات اور ادھر اُدھر بندروں کی ٹولیوں وغیرہ کو وہ راستے بھر حیرت سے دیکھتے رہے۔ واپسی پر بولے: سعود صاحب! اگر یہ بھارت ہے تو وہ کیا ہے جو ہم فلموں میں دیکھتے رہے ہیں؟ سو بھارت کو موجودہ بھارتی میڈیا کی نظر سے دیکھنے والا وہی تصور بنانے پر مجبور ہے جو ایسے میں بننا چاہیے۔ اس نقار خانے میں جہاں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی‘ طوطی کی صدا بھلا کون سُن سکتا ہے۔
بھارتی چینل اپنا میزبان چنتے ہوئے خیال رکھتے ہیں کہ میزبان ایسا ہو جو بہت اونچی اور کرخت آواز میں بدتمیزی سے بات کر سکے۔ ان بلند بانگ بھارتی میزبانوں کے ہوتے ہوئے‘ جن میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں‘ مزید کسی چیخ وپکار کرنے والے کی ضرورت نہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ سیاستدانوں‘ سابقہ فوجی افسروں اور تجزیہ کاروں میں صرف انہیں شامل کیا جائے جو ہسٹریائی کیفیت میں منہ سے جھاگ اڑا سکیں۔ یہی ترکیب زیادہ سے زیادہ ریٹنگ اور مقبولیت کی ضامن ہے۔ اس کے علاوہ بی جے پی اور بھارتی اداروں کے بیانیے کو آگے بڑھانے والے شوز بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ پاکستان میں کم لوگوں کو علم ہے کہ ایک سال پہلے کانگریس کے سیاسی اتحاد ''انڈیا‘‘ نے 14 اینکرز کا نام لے کر ان کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا کہ وہ بی جے پی کے ایجنڈے پرکام کرتے تھے۔ پاکستان کے معاملے میں وہ بھارتی چینل اور اینکر بھی شامل کر لیں جو راء کے بیانیے کو لے کر چلتے ہیں۔ کچھ شوز میں کسی پاکستانی کو مدعو کرنے کا مقصد اسے اور پاکستان کو نیچا دکھانا ہوتا ہے۔ سات آٹھ مہمان مل کر میزبان کے ساتھ پاکستانی مہمان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک پاکستانی تجزیہ کار نے شو کے شرکا کو منہ توڑ جواب دیا۔ اس کے بعد بھارتی شوز میں پاکستانی مہمانوں کو مدعو کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ یہ شوز سرے سے صحافت ہیں ہی نہیں۔ الزامات اور جھوٹ پر مبنی یہ پروگرام نچلے درجے کے ایسے ٹی وی شوز ہیں جن کا دنیا بھر میں کہیں بھی اعتبار نہیں ہے۔ میں ریٹنگ کیلئے ہر کام کر گزرنے اور سنسنی پھیلانے والے چینلز اور ٹی وی شوز کے خلاف رہا ہوں اور مجھے ایسا کوئی پاکستانی دفاعی تجزیہ کار‘ ریٹائرڈ فوجی افسر معلوم نہیں جو اس طرح چیختا چلاتا ہو جو بھارتی چینلز کے میزبانوں اور مہمانوں کا وتیرہ ہے۔ آپ ان دنوں بھارتی چینل دیکھ لیجیے‘ اندازہ ہو جائے گا۔ میزبان ارناب گوسوامی‘ جنرل (ر) جی ڈی بخشی وغیرہ کو دیکھیں تو پتا چل جاتا ہے کہ شو کے دورا ن تشنج اور ہسٹیریا کے دورے کیسے پڑتے ہیں۔ اب ایسے نقار خانے میں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو اور دفاعی تجزیہ کار پراوین سوامی وغیرہ کی بات کون سنے جو دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں۔ جسٹس کاٹجو نے صاف کہا ہے کہ کون سے ثبوت ہیں جن کی بنیادپر پہلگام واقعے کا الزام پاکستان پر لگا رہے ہو۔ نقار خانے میں ریٹائرڈ جنرل ایچ ایس پنانگ کی آواز دب جاتی ہے جو مقبول بیانیے یعنی ''پاکستان کو فوری سبق سکھائو‘‘ کے باوجود زمینی حقائق کی بات کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فوری کارروائی کی ضرورت کے باوجود بھارت کیلئے بہت سی مشکلات ہیں اور امکانات نہایت محدود ہیں۔جنرل بخشی تو خیر نفسیاتی مریض لگتے ہیں لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرت بھارتی ریٹائرڈ جنرلز مثلاً سابق آرمی چیف وی پی ملک‘ لیفٹیننٹ جنرل ہودا وغیرہ کی گفتگو پر ہوتی ہے۔ یہ افسر بڑے عہدوں پر بہت مدت رہے ہیں اور ان سے سمجھداری اور زمینی حقائق کے مطابق گفتگو کی توقع ہوتی ہے لیکن یا تو وہ چینل کی ہدایات اور ضرورت کے مطابق یا مقبول بیانیے میں اپنے نمبر شامل کرنے کے لیے‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت کے پاس محدود آپشنز ہیں‘ زمینی حقائق سے نظریں چراتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد جو تلقین وہ اس وقت حاضر سروس افسران کو کر رہے ہیں‘ اپنی سروس کے دوران یہ کام کیوں نہیں کر سکے؟ کیا اُس وقت بھارتی فوج کی عددی اور اسلحے کی برتری نہیں تھی؟ یہ کیا بات ہوئی کہ اپنے وقت میں دم دبا کر بیٹھے رہے اور اب جب ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے اور ممکنہ ناکامی اور نتائج ان کے گلے نہیں پڑیں گے‘ وہ موجودہ افسروں کو اس میں دھکیل رہے ہیں۔ زمینی حقائق اور دفاعی تجزیہ کاروں کی گفتگو بتاتی ہے کہ 2001-02ء کے زمانے میں بھارت اپنی آرمی‘ ایئر فورس اور نیوی‘ تینوں میں پاکستان پر برتری رکھتا تھا لیکن 2025ء تک آتے آتے یہ برتری بہت حد تک ختم ہو چکی ہے یا بہت کم رہ گئی ہے۔ کئی شعبوں مثلاً ایئر فورس میں پاکستان کا پلہ قدرے بھاری نظر آتا ہے۔ اگر اپنے زمانے میں یہ ریٹائرڈ جنرلز آزاد کشمیر پر قبضہ تو کیا‘ کوئی بڑا حملہ بھی نہیں کر سکے تو اب یہ کس منہ سے اس پر اکساتے ہیں۔ ان جنرلز سے پوچھا جانا چاہیے کہ انہوں نے اپنے اپنے زمانے میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے تھے‘ حالانکہ ان میں بیشتر مقبوضہ کشمیر میں تعینات رہے ہیں۔
نیوکلیئر جنگ کا خطرہ وہ سب سے بڑا الائو ہے جس کی موجودگی میں یہ لوگ اس دائرے میں قدم دھرتے تھراتے ہیں۔ ایسے مواقع پر ہی محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر‘ ان کے ساتھیوں‘ دیگر سائنسدانوں اور دفاعی اداروں کی قدر ہوتی ہے جن کی مسلسل محنت سے نہ صرف پاکستان جوہری طاقت بنا بلکہ اب دور دراز علاقوں تک مار کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ لیکن جوہری خطرے سے قطع نظر‘ صرف روایتی ہتھیاروں اور تعداد وغیرہ کے لحاظ سے بھی بھارت بہترین حالت میں نہیں ہے۔ ایک نیا خطرہ بنگلہ دیش ہے۔ چنانچہ بھارت کو اس وقت ساڑھے تین محاذوں پر فوج چاہیے۔ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ چین اور خود کشمیر کی اندرونی تحریک۔ بظاہر ایسے میں کسی بڑی جنگ کا امکان بھی نہیں۔ جو محدود امکانات ہیں‘ انہیں بھی پاکستان کے سخت اور بھرپور جواب نے محدود تر کر دیا ہے۔ بین الاقوامی سرحد پر چھیڑ چھاڑ کے امکانات کم ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر فائرنگ تیز ہو گئی ہے اور ابھی بڑھے گی۔ کشمیر میں کسی چھوٹی موٹی واردات کا امکان بہرحال ہے کیونکہ کچھ کر دکھانا مودی کی مجبوری بن چکی ہے۔ سفارتی محاذ گرم تر ہو جائے گا۔ کے پی اور بلوچستان میں پراکسی وار تیز تر ہو گی اور اس کیلئے پاکستانی دفاعی اداروں اور قوم کو تیار رہنا چاہیے۔ نقار خانے کا جواب ان سے اونچا بولنا نہیں‘ اونچا عملی جواب ہو گا۔