کسی ایک شہر سے محبت رہی ہے‘ وہ بھی نامراد عاشقوں کی طرح یکطرفہ‘ تو وہ لاہور ہے۔ وہی موسمِ بہار اور وہی لاہور جو چھپن سال پہلے تھا‘ اب بھی آنکھوں میں بستا ہے اور دل میں خوشبو کی طرح آباد ہے۔ کبھی یہ شہر چھوڑ کر کہیں اور جا کر بسنے کی خواہش نہ تھی‘ لیکن جب تعلیم مکمل کرنے امریکہ گئے تو وہاں دنیا بھر سے آئے نوجوانوں کے درمیان ہمیں لاہور اور جامعہ پنجاب کی یاد ستانے لگی۔ ادھر اُدھر دیکھنے‘ کچھ سوچنے اور کسی اور جگہ کا خیال ذہن میں لائے بغیر ایک بیقرار پرندے کی طرح اُڑ کر ہم واپس آئے‘ ایسا پرندہ جو اپنا گھونسلا کسی درخت پر چھوڑ جاتا ہے اور موسمِ بہار کے آتے ہی اسے دوبارہ سنوارنے کے لیے بے تاب سا واپس آ جاتا ہے۔ کبھی سوچا تک نہ تھا کہ ہمارے وقت کی سیاسی دنیا تبدیل ہوتے ہی انصاف‘ قانون اور روایتوں کے اصول بھی بدل جائیں گے۔ دل میں یہ گھمنڈ بھی تھا کہ آخری ڈگری ایک مشہور امریکی جامعہ سے ہے تو ہمیں اپنے پرانے گھونسلے میں قدم رکھنے سے کون روک سکے گا۔ خدا نہ کرے کہ آپ کبھی اپنے گھر سے جائیں اور کچھ سالوں کے بعد واپس آئیں اور دیکھیں کہ کوئی تالا لگا کر پہرہ دے رہا ہو اور پوچھے کہ ''آپ کون ہیں؟‘‘ ادارے کے سربراہ سے ملاقات صرف چند منٹ ہو سکی۔ جب ابھی کچھ دیارِ غیر کی جامعہ کے بارے میں ابتدائی کلمات ہی کہے تھے کہ طالب علم رہنماؤں کا ایک گروہ اندر گھس آیا اور ایک ہلکی سی معذرت کے ساتھ حکم دیا گیا کہ آپ کہیں اور ملازمت تلاش کریں۔ بھاری دل کے ساتھ اُٹھنا پڑا اور پھر کہیں اور جا کر آباد ہوئے۔ رہے ہم جہاں بھی‘ لاہور آج تک ہماری چاہتوں کا مرکز ہے۔
بائیس سال قبل لاہور کی ایک اور جامعہ میں شرفِ قبولیت حاصل ہوا تو اتنے ہی سال وہاں گزارے‘ اور لاہور کو ہر طرف پھیلتے دیکھا۔ انہی سالوں میں ہم اپنے گمشدہ لاہور کو پرانی گلیوں‘ محلوں‘ بازاروں اور علاقوں میں تلاش کرنے نکل پڑتے‘ ہمیشہ ایک اجنبی کی طرح‘ جو تازہ تازہ لاہور آیا ہو اور اس کی رونقوں‘ ثقافتی رنگوں اور باغوں میں کھویا ہوا ہو۔ لگ بھگ تیس سال یہاں گزار چکے ہیں مگر ابھی دل بھرا نہیں۔ شاید اگر ٹھکانا یہاں ہوتا تو اپنائیت کے احساس کے ساتھ وہ اجنبیت نہ ہوتی جو کسی اور شہر میں رہ کر یہاں ہر دفعہ آنے پر محسوس ہوتی ہے۔ اس مرتبہ تو تقریباً ایک سال بعد لاہور آنا ہوا۔ ہم کبھی سیر و تفریح کے مزاج کے تو نہیں تھے مگر کس کا دل نہیں چاہتا کہ فرصت ملے تو کہیں نکل جائے۔ ہم زیادہ تر اپنے چھوٹے گوشے اور جنگل کے درمیان بیٹھ کر دنیا کا جائزہ لینے کے عادی ہیں۔ وہی پرندے‘ تتلیاں‘ درختوں کی خوشبو‘ پھول اور قسمت میں لکھا ہو تو کچھ موسمی پھل‘ یہی چھوٹی سی دنیا ہماری سب سے بڑی دنیا ہے۔ کوئی ملک ہو یا لاہور یا کوئی اور شہر‘ بغیر کسی وجہ کے آج تک یونہی بستر بوریا اٹھا کر نکلنے کو جی نہیں مانا۔ کچھ دن پہلے لاہور کی ایک جامعہ سے عالمی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو انکار نہ کیا۔ اور جب لاہور ہو تو انکار ہو بھی نہیں سکتا۔ شام کا وقت ہوا‘ پہلے دن کی کارروائی ختم ہوئی تو میزبان ایک علاقے میں واقع ہوٹل میں رات گزارنے کے لیے چھوڑ گئے۔ یہ لاہور پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ہر طرف چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں کی قطاریں۔ یہ تو صبح ہی معلوم ہوا جب اپنی عادت سے مجبور‘ سورج نکلنے سے کچھ دیر پہلے اس شہر کی ہزاروں صبحوں کی یاد میں باہر نکل آیا۔ یہ وہ لاہور تو نہیں جسے ہم ساری زندگی دل میں بٹھائے رہے۔ کبھی گمان ہوتا ہے کہ یہ شہر ایسا درخت ہے جو اپنی شاخیں ہر طرف پھیلا کر دور دور تک لوگوں کو اپنے سائے میں لے چکا ہے۔ ادھر اُدھر چلتا رہا اور سوچ یہی تھی کہ سینکڑوں سال پرانے مضبوط تنے کا پھیلاؤ ہے۔ ہر سڑک‘ گلی اور عمارت کا موازنہ اُس لاہور سے کرنے لگا جس سے پہلی محبت کا آغاز ہوا تھا۔ تو یک دم احساس ہوا یا تو شہر وہ شہر نہیں رہا یا ہم خود اجنبی ہو چکے ہیں۔
شہر تو وہی ہے‘ لاہور‘ مگر اس کے اندر اب کئی شہر بس چکے ہیں۔ ہر ایک نئی آبادی کی شناخت اپنی ہے اور وہ اب کئی سیکٹروں میں بٹی ہوئی ہیں۔ ہمارے لاہور کی آبادیاں سمن آباد‘ گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن تھیں جو ہماری جامعہ سے صاف دکھائی دیتی تھیں۔ جہاں کل رات گزری وہ بظاہر تو منصوبہ بندی کا عکس ہے‘ جو ہماری اشرافیہ‘ ترقیاتی ادارے اور فنِ تعمیر کے ماہر کر رہے ہیں‘ مگر اسے دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ ابھی یہاں سے بھاگ کر اُس لاہور کی طرف چلا جاؤں جو اَب صرف خیالوں کی دنیا میں آباد ہے۔ آپ کو کیا بتاؤں‘ کتنا مختصر سا شہر تھا‘ اور کتنا پُرامن اور پُرسکون۔ لکشمی چوک میں شام کو سڑک پر بیٹھ کر وہاں کی مشہور کڑاہی گوشت کی دکان سے کھانا کھاتے‘ سامنے سڑک پار ایک سنیما گھر تھا اور فلم دیکھنے کے بعد وہی محفل کی جگہ بن جاتی۔ اس وقت لاہور کے جس حصے میں ہوں‘ بند کمرے میں بھی دور دور سے ٹریفک کے شور کی آواز دھیرے دھیرے آ رہی ہے۔ صبح سویرے سڑکوں پر مٹرگشت شروع کی تو تنگ گلیوں میں پانچ منزلہ ہوٹل‘ بڑی سڑک پر قطار در قطار‘ اور ان کے پیچھے گلیوں میں تمام گھر‘ کئی سمتوں میں‘ کئی راستوں سے جُڑے‘ آج کے لاہور کی زندگی کا مکمل جائزہ ایک گھنٹے میں تو نہیں لیا جا سکتا مگر یہ اندازہ ضرور ہو جاتا ہے کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔
باہر نکلتے ہی صبح کی تازہ ہوا کی خواہش کسے مسحور نہیں کرتی؟ مگر یہاں پہلی ہی سانس میں محسوس ہوا جیسے کہیں قریب ہی کسی بھٹی میں لوہا پگھلایا جا رہا ہو۔ فضا میں کثافت اور ساتھ ہی صاف ستھرے پنجاب کے مرکزی شہر کی گلیوں میں پھیلی ہوئی بدبو نے کچھ لمحوں کے لیے ذہن کو مفلوج کر دیا‘ مگر ہم کون سا ہار ماننے والے تھے‘ قدم بڑھاتے رہے۔ جس طرح آج کل ہمارے شہر کے شہری بے بسی اور بے آواز زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم بھی کوئی آسمان سے نہیں اترے۔ اپنے شہر میں بھی حالت کچھ اچھی نہیں مگر ہم تو لاہور کی اُس صبح کی تلاش میں نکلے تھے جو ہم نے کسی زمانے میں دیکھی تھی۔ جہاں انسانوں اور حکمرانوں نے گندگی پھیلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہاں محسوس ہوا کہ فطرت نے کم ظرفی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بڑی سڑک کے کنارے کچھ شریں (Siris)اور نیم کے درختوں کی دور دور تک خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔ کچھ دیر کے لیے ان کے سائے نے ہمارے قدموں میں زنجیر سی ڈال دی‘ آگے قدم اُٹھانا بھاری پڑ رہا تھا۔ آج کل کے موسم میں آپ پنجاب میں کہیں بھی ہوں‘ ذرا صبح کا وقت ان درختوں کے قریب گزاریں تو دنیا بھر کے مشہور عطاروں کی خوشبو کی تشہیر ماند پڑتی محسوس ہو گی۔ کاش یہ درخت سینکڑوں‘ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہماری سڑکوں کے کناروں پر ہوتے۔ تنگ گلیوں میں بھی فطرت کے مناظر دیکھنے کو ملے‘ چھوٹے گھروں کی دیواروں سے جھمکا بیل کی خوشبو‘ بوگن ویلیا کے رنگوں کی بہار‘ ان میں جو سبق اہلِ دل اور اہلِ فکر لے سکتے ہیں‘ کہ کہیں کہیں تو کچھ روشنی کے آثار ہیں۔ سوچ میں پڑ گیا کہ ہماری فطرت سے محبت ہر دل میں جگہ بنا لے تو ہماری گلیاں‘ محلے‘ کوچے اور سڑکیں بھی باغوں میں بدل جائیں۔ ہمارے زمانے کا لاہور ایسا ہی تھا‘ جس کی تلاش میں ہر مرتبہ نکلتا ہوں مگر اُداس دل کے ساتھ واپس گھر لوٹ آتا ہوں۔