جی چاہتا ہے کہ اصغر ندیم سید کا ''جہاں آباد کی گلیاں‘‘ بار بار پڑھتا رہوں کہ یہ گزشتہ زمانوں کی یاد دلاتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہمیں دیسی اور ولایتی فلمیں دیکھنے کا شوق ہمعصروں کی نسبت کہیں زیادہ تھا۔ ہمارے کالج کا زمانہ شروع ہوتے ہی گھر اور سکول سے آزادی کی پہلی شام ''ایک ٹکٹ میں دو مزے‘‘ کا اشتہار کسی دیوار پر نمایاں رنگدار تصویریں دیکھ کر کہکشاں سنیما میں منائی تھی۔ ڈیرہ غازی خان میں تب تین سنیما ہوا کرتے تھے۔ نئی فلم کی آمد کی تشہیر کے طور طریقے ہر شہر‘ بشمول لاہور بہت رنگین اور نرالے ہوا کرتے تھے۔ اب سکرینوں پر ساری دنیا کا تماشا دیکھنے والوں کو آج ہم کیا بتائیں کہ خوب صورت سجے سجائے تانگے کی اگلی نشست پر ایک بڑی پینٹنگ بندھی ہوتی‘ ہر شہر میں فلم کے موضوع اور اس میں مشہور اداکاروں‘ خصوصاً ہیروئن کی تصویریں بنانے والے ماہر نقاش موجود ہوتے۔ کسی کے پاس عقل ہوتی تو وہ ان فلمی اشتہاروں کے جہازی سائز کے نقش محفوظ کرکے فلمی دنیا پر عجائب گھر بنا سکتا تھا۔ ہمارے ایک دوست فرخ خان کے پاس ''ہیر رانجھا‘‘ کا اشتہار ہے جو اُسے اعجاز درانی صاحب نے اپنے دستخطوں سے عنایت کیا تھا۔ فرخ کی قسمت پر مجھے رشک آتا ہے‘ لیکن زیادہ غصہ اپنی غفلت اور غیر ضروری طور پر اور خواہ مخواہ پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں وقت صرف کرنے پر ہے۔ اب بھی جب موقع ملا تو کبھی لاہور کے اُن علاقوں میں جہاں فلموں کا کاروبار ہوا کرتا تھا‘ اور جن سے بہت پرانی واقفیت بھی ہے‘ وہاں سے چند ایسے اشتہار لا کر کتابوں کے ساتھ سجانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ہمارے شوق ایسے ہی ہیں‘ اور بے پایاں خوشی ایسی پرانی‘ بھولی بسری یادوں کی طرف بھٹکنے میں ہوتی ہے کہ کوئی اور چیز وقتِ موجود میں اپنی طرف متوجہ کر سکے۔
اشتہاری تانگے کی پچھلی سیٹ پر دو تین لوگوں میں سے ایک ڈھول بجا رہا ہوتا‘ دوسرے دو چھنا چھن بجا رہے ہوتے۔ شہر کی سڑکوں‘ بازاروں میں ہر سنیما گھر کے اطراف میں ہفتے میں ایک دو دفعہ یہ اشتہاری منظر عام دیکھنے کو ملتا۔ مصوری میں لگتا کہ رنگریزنے سب رنگ بکھیر دیے ہیں‘ اور جس انداز میں اداکاروں کے انگ انگ کو اجاگر کیا جاتا‘ وہ آج کل کے گھٹن‘ جبر اور خدائی رضا کاروں کے لشکروں کے دور میں ناممکن ہے۔ ہم کتنے محروم ہیں کہ ان چھوٹے چھوٹے شہروں سے لے کر لاہور تک کے فلمی مصوروں کے بارے میں کوئی تحقیق‘ کوئی کتاب اور کوئی تاریخی دستاویز نہیں چھوڑ سکے۔ ''فلم اور سوسائٹی‘‘ کے موضوع پر ایک زبردست کتاب ہمارے لمز کے علم بشریات کے دو دوستوں‘ علی خان اور علی نویل نے تحریر کی ہے‘ لیکن اس کے بارے میں پھر کبھی سہی۔ بات تو ان مصوروں کی ہو رہی ہے‘ جو اپنی پیٹ پوجا کی دھن میں شاہکار بناتے رہے۔ جونہی نئی فلم کی تشہیر کی ضرورت پڑتی تو اُسی کینوس پر سفید رنگ پھیر کر اُسے مٹا دیا جاتا۔ ہمارے معاشرے میں آرٹ کی قدر دانی نہ تب تھی‘ نہ اب ہے۔ اگر کسی شوقین مزاج نے اُس زمانے کی اشتہاری فلمی تصاویر کہیں سنبھال کر رکھی ہیں تو ہمارا مشورہ ہے کہ کسی کو بتائیں ہی نہیں۔ آج کے جو مزاج بن چکے ہیں‘ یہ نہ ہو کہ غریب فحاشی کے الزام میں دھر لیا جائے۔ ہمارے جیسے لوگوں کی بات اور ہے کہ ہم لوک ورثہ فنکاروں کے کسب اور فنونِ لطیفہ کی سماجی صحت کے لیے اہمیت اور مثبت تفریح کی قدر کو کچھ پہچانتے ہیں۔
اگر آپ پاکستانی ہیں اور 60 ء اور 70ء کی دہائی میں لاہور میں شعور کی آنکھ نہیں کھولی‘ کسی کالج میں نہیں پڑھے‘ اس زمانے کے لوک میلوں میں عالم لوہار‘ بالی جٹی اور عنایت حسین بھٹی کو گاتے نہیں دیکھا تو جتنا بھی ہم زبان وکلام کا زور لگا لیں اپنے سماج کے کھلے‘ وسیع‘ رنگدار اور باہمی قبولیت اور ہم آہنگی کے مزاج کا احاطہ نہیں کر پائیں گے۔ مغرب میں تو ان دو دہائیوں میں ''کائونٹر کلچر‘‘ کی صورت نوجوانوں میں طوفان اٹھا تھا۔ راک میوزک‘ خصوصاً بیٹلز کے چند نوجوانوں کا امریکہ کا وہ پہلا دورہ اور پھر نیویارک ریاست کے ایک ڈیری فارم میں جو وڈسٹاک میوزک اور آرٹ فیسٹیول کے نام سے مشہور ہوا‘ ایک اور زمانے میں ہماری نسل کے لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ اُس دور میں پاکستان میں ایک نیا سیاسی‘ سماجی اور نظریاتی شعور نہ صرف اجاگر ہوا بلکہ پروان چڑھا تھا۔ ایک روایتی معاشرہ ہونے کے باوجود موسیقی‘ فلم‘ میلے ٹھیلے‘ تھیٹر اور ڈرامے عام ہوا کرتے تھے۔ ہمارے دور دراز کے آبائی علاقے کے مڈل سکول میں جہاں سے مڈل سٹینڈرڈ امتحان پاس کیا تھا وہاں ہر سال عوام کے لیے ایک ڈرامہ سٹیج ہوتا تھا۔ دو سال ہم نے بھی ''جہالت کے بھوت‘‘ ڈرامے میں حصہ لیا۔ ہر سکول میں ایسا ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو پاکستان تب عروج پر تھا۔ اُسی پر نئی فلموں کے گانے‘ فلم ریلیز ہونے سے پہلے نشر ہوتے تو ایک طرح سے آنے والی فلموں کی تشہیر ہو جاتی۔ ہر ضلعی شہر میں کئی سنیما گھر ہوا کرتے تھے‘ اور لاہور کا لکشمی چوک تو اس کا مرکز تھا۔ وہیں فلم سازوں کے دفاتر بھی تھے‘ اور ساتھ کیفے جہاں شاعر اور دانشور شام کے وقت اکٹھے ہوتے۔
ان دہائیوں میں دیہاتی میلوں میں جہاں کم از کم دو تھیٹر ایک دوسرے کے مقابلے میں ہر شام شو کرتے‘ وہاں بھی فلمیں دکھانے کا بندوبست ہوتا۔ بجلی پیدا کرنے کے لیے ایک بڑا جنریٹر چلایا جاتا اور سارادن لگاتار فلمیں دکھائی جاتیں۔ لاہور میں پہلی بار کوئی نوجوان آتا تو خواہش کرتا کہ کسی کی سفارش سے ملتان روڈ پر واقع شاہ نور سٹوڈیو تک رسائی ہو جائے جہاں فلمیں بنتی تھیں۔ ہر ہفتے کوئی نئی فلم متعارف ہوتی اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں مختلف سنیما گھروں کا رخ کرتے۔ ہمارے ہاں ایک دور صرف ختم نہیں ہوا بلکہ صدیوں سے ارتقا پذیر وادیٔ سندھ کی ثقافت پر بھاری ضرب لگی ہے۔ زخم اتنا گہرا ہے کہ بھرنے میں شاید ابھی کچھ اور نسلیں بیت جائیں۔ زندہ معاشروں میں فنونِ لطیفہ‘ آرٹس‘ تخلیقی ادب اور لوک ورثہ سے جڑے تہذیبی رنگوں کی حفاظت کی جاتی ہے۔ ہماری تباہی بلکہ تباہیوں کی وجوہات ایسی ہیں کہ ہم ان کے بارے میں کھل کر بات بھی نہیں کر سکتے۔ صرف اپنے آپ کو اور ہم عصروں کو کچھ یاد دلاتے ہیں اور موجودہ دور کے نوجوانوں کو بھی کھوئے ہوئے ورثے کی طرف توجہ دلاتے ہیں تو دل کا بوجھ ذرا ہلکا ہو جاتا ہے۔ اب ہم کیا کہیں کہ اسلام آباد‘ جس کی آبادی اب مری‘ ٹیکسلا‘ روات اور فتح جنگ تک پھیل چکی ہے‘ دنیا کا واحد مرکزی شہر ہے جہاں کوئی سنیما گھر نہیں۔ جو تین کسی زمانے میں تھے‘ بند پڑے ہیں اور ایک کے ساتھ کار واش‘ کڑاہی گوشت اور بے ہنگم بازار سجا ہوا ہے۔ فنونِ لطیفہ‘ تخلیقی ادب اور جدید دور کے بصری آرٹس کے لیے شاید ہماری سماجی زمین کی زرخیزی کچھ اور خوابوں نے چھین لی ہے۔ جن گروہوں اور ان کے سرپرستوں نے جو خواب دیکھے اور ان کی تعبیر ایک دور میں کی‘ اب اس کے ہولناک سایوں سے نکلنے کے لیے دیہاڑی دار سیاسی لوگوں کے پاس نہ وژن ہے اور ہی سیاسی حوصلہ۔ ان کا سب سے بڑا دھڑا تو پیداوار ہی اس دور کی ہے اور اس کے سماجی اتحادی بھی وہی ہیں‘ تو پھر ہم کس سے توقع باندھیں۔ تفریح کے روایتی ابلاغ جہاں جہاں تباہ ہوئے‘ وہاں انتہاپسندی‘ جبر واستبداد‘ عدم برداشت اور دہشت گردی نے جنم لیا۔