"RBC" (space) message & send to 7575

جنگوں کے مارے افغان

سیانے کہتے ہیں کہ لوگوں کو قریب سے نہ دیکھیں‘ ایسی کوئی کوشش نہ کی ہو‘ تاریخ اور قوموں سے ناواقفیت رہے تو اُن کے بارے میں آسان مگر تیز دھار نظریے قائم کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ نفرتوں کے بیج بھی اس طرح بوئے جاتے ہیں کہ غیر کا غیر انسانی تصور راسخ ہو جاتا ہے‘ اور اپنی ذہنی الجھنوں اور نامساعد حالات کی گتھیاں سلجھانے میں ناکامی کا ذمہ دار کسی اور کو ٹھہرانے کی روایت پڑ جاتی ہے۔ ایک اور بات بھی آپ کے گوش گزار کرنے کی جسارت چاہتا ہوں کہ ہم سب انسان اپنے اپنے حالات کی پیدوار ہیں۔ ہمارے رویے‘ استعداد اور صلاحیتیں فطری طور پر یکساں ہیں‘ مگر مناسب معاشرتی حالات انہیں اجاگر یا برباد کر دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہم سب یکساں طور پر اچھے اور برے ہیں کہ فطرت اور ہمارے خالق سے بہتر کوئی منصف نہیں۔
آج کل افغان مہاجرین کے بارے میں شدت آمیز رجحانات کو دیکھ کر دل کڑھتا ہے‘ مگر بے بس ہیں کہ چند سطور لکھنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں۔ افغانوں سے جب سے دنیا نے آنکھیں پھیری ہیں‘ ہم بھی ڈنڈا لے کر ان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ بلوچستان کی آبادی کا تقریباً نصف اور خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت افغانوں کی ہے۔ وہ دہشت گردی کے خلاف ہیں‘ کہ سب نے اس کی بربریت کو دیکھا ہے‘ اور کچھ اس کے متاثرین میں سے ہیں۔ دہشت گرد بلوچستان کے ہوں یا کسی اور علاقے کے‘ کوئی بھی رعایت کا مستحق نہیں‘ اور نہ ہی ان کے سہولت کار۔ یہ صرف ہمارے ہی نہیں‘ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ایک اور بات‘ تلخ سہی‘ مگر کہنی پڑ رہی ہے کہ ہمارے کچھ حلقوں میں خفیہ طور پر بلوچ اور طالبان دہشت گرد تنظیموں کے لیے عذر خواہانہ سوچ‘ اور کچھ کے دلوں میں نرم گوشہ چھپائے بھی نہیں چھپ سکتا ہے۔ جو بات سمجھنے کا سلیقہ جانتے ہیں‘ خطِ مضمون‘ جسے کسی زمانے میں لفافہ دیکھ کر ہی بھانپ لیا جاتا تھا‘ اب لفظوں کی ہیرا پھیری میں آپ کو چشمِ روشن سے نظر آجائے گا۔
تشدد‘ نفرت‘ انتہا پسندی اور ان کی آخری شکل دہشت گردی شاید ہمارے حصے میں زیادہ آئے ہیں‘ لیکن کوئی بھی ملک ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکا ہے۔ ہم بھی ثنا خوانِ مغرب رہے ہیں‘ اور ایک حد تک اب بھی ہیں‘ لیکن جو غزہ میں نسل کشی ڈیرھ سال سے جاری ہے‘ مغرب کے کتنے ممالک‘ دانشور اور میڈیا کے کھلاڑی ہیں جو آواز اٹھا رہے ہیں۔ بات تو افغانوں کی کرنا چاہتا ہوں کہ فلسطینی اور افغان دو قومیں ہیں جو کئی نسلوں سے‘ اور افغان گزشتہ سینتالیس سالوں سے جنگوں کی زد میں رہے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مہاجرین بھی ان دونوں ممالک سے ہیں۔ ایک پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور اس کی مضبوطی اور توسیع پسندی کے لیے وہ جنگ پر جنگ مسلط کرنے پر تلا ہوا ہے۔ افغانوں کی بات کچھ اور ہے کہ پہاڑ اور بندوقیں ان کے کام آ ہی گئیں اور بھاری قربانیوں کے بعد انہوں نے اگر جنگیں جیتی نہیں تو بھی اپنے وقتوں کی تین عظیم طاقتوں کو اپنے وطن پر قدم جمانے نہ دیے۔ سب کانوں کو ہاتھ لگا کر وہاں سے بھاگ نکلے۔ یہ محل وقوع‘ جغرافیائی حالات اور طاقت کے بڑے چھوٹے کھیلوں کا امتزاج تھا کہ تاریخ میں وہ علاقے‘ جو اب افغانستان کہلاتے ہیں‘ داخلی اور خارجی جنگوں کا میدان رہے۔ کون سا وسطی ایشیا کا ہندوستان پر حملہ آور تھا جس نے پہلے افغانوں کو تاراج نہ کیا ہو‘ اور یہ دھن ان کے حکمرانوں میں بھی سما گئی کہ وادیٔ سندھ اور اس کے آگے میدانوں اور تجارتی مراکز میں جو خوشحالی ہے‘ اس سے اپنی جھولی بزور شمشیر بھرو۔ یہ صرف افغانوں کی بات نہیں تھی‘ قدیم سے لے کر جدید ریاست کے قیام سے پہلے تک دنیا کا نظام ہی لشکر کی تعداد‘ گھوڑوں کے ٹاپوں اور سپہ سالاروں کی جرأت سے چلتا تھا۔ اب کس کو بتائیں کہ یورپ میں سترہویں صدی کے نصف سے پہلے ایک سو سال تک جنگیں چلتی رہیں اور یہ سب توسیع پسندی‘ لشکر کشی اور سلطنت سازی کے لیے تھیں۔
تاریخ کے ان واقعات کا سرسری ذکر اس لیے ضروری ہے کہ ان سے انحراف یا علمی اضافوں کا مزاج آج کے دور میں نفرت آمیز رویے پیدا کر رہے ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ افغانوں کو اسلحہ‘ تحریک‘ تربیت اور پناہ گاہیں مہیا کرنے کی ابتدا ضیاء الحق کے دور میں ہوئی تھی۔ حضور! ہماری عوامی حکومت نے پشتون اور بلوچ قومیت پرستوں کو پناہ دینے کی پاداش میں کابل کے اسلامی مخالفین کو ردعمل کے طور پر مسلح کیا تھا۔ یہ بات بھی سطحی اور فروعی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جدید دور کی جنگوں کی سرحدیں متعین نہ ہو سکی ہیں‘ اور نہ ایسا کرنا کسی کے بس میں ہے۔ دنیا کے کسی بھی خطے میں آج کے دور کی دفاعی جنگوں یا خانہ جنگی کو دیکھیں یا ماضی میں جھانکیں‘ لوگ اپنی جانیں اور بچوں کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے ہر سمت میں جہاں جگہ ملے‘ بھاگتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک جتنی بھی دیواریں چوڑی اور اونچی کرلیں‘ جنگوں کے اثرات سے نہیں بچ سکتے۔ افغان مہاجرین کی پاکستان میں لاکھوں کی تعداد میں موجودگی ہمیں آج بوجوہ اچھی نہیں لگ رہی مگر جنہوں نے روس کی مداخلتی جنگ کو ذرا غور سے دیکھا ہے‘ تاریخ کی سینکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالے ان کی گواہی سے بھرے پڑے ہیں۔ تب افغانستان کے ساتھ سرحد کا موہوم سا تصور تھا اور لاکھوں لوگوں کا اِدھر اُدھر جانا معمول کی بات تھی۔ اِدھر حالات خراب ہوتے تو لوگ اُدھر چلے جاتے۔ اُدھر جنگ ہوتی تو وہ ہماری طرف آ جاتے۔ پوری دنیا تب افغان مزاحمت کاروں اور مہاجرین کے ساتھ کھڑی تھی۔ پاکستان کی اپنی اندرونی طاقت کا کھیل اور سرحدوں پر حالات ایسے تھے کہ مجبوری اور حکمرانوں کے مفادات میں فرق رکھنا ناممکن تھا۔ بہت کم اور کمزور آوازیں یہاں ضرور اٹھیں کہ ہماری پالیسی درست نہیں‘ لیکن غالب رائے اور رجحان افغان مزاحمت اور مہاجرین کے حق میں تھا۔
یہ درویش پہلے کئی دفعہ لکھ چکا ہے کہ جدید جنگیں نہ کوئی جیت سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جیتا ہے۔ سب ہارتے ہیں اور معاشرہ مزید کمزور ہوتا ہے اور ریاست پر ضرب کاری لگتی ہے۔ معاشرے کے دھڑے نہ صرف بٹ جاتے ہیں بلکہ حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ بیرونی طاقتوں کا سہارا سب دھڑوں کی مجبوری بن جاتا ہے۔ بڑی طاقتوں کے کھیل نے اب افغانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کی ذمہ داری کچھ افغان حکمران دھڑوں پر بھی ہے کہ بجائے اسکے کہ وہ ٹھنڈے دل اور کھلے دماغ سے کسی جرگے میں بیٹھ کر اپنے مسائل حل کرتے‘ انہوں نے بیرونی آقائوں‘ ان کی طرف سے ملنے والے مالی وسائل اور گولہ بارود پر بھروسہ کیا۔
عام لوگ خانہ جنگیوں سے تنگ آ کر اپنے وطن کو چھوڑتے ہیں۔ آج بھی افغانستان کے حالات وہی ہیں‘ جو پہلے تھے کہ ایک گروہ قبضہ جمائے بیٹھا ہے اور وہاں عوام کی تقدیر کا فیصلہ کرنے پر مصر ہے۔ اسے کوئی پروا نہیں کہ تاریخ میں دنیا کی واحد حکومت ہے جسے کسی بھی ملک نے تسلیم نہیں کیا۔ لاکھوں افغان پناہ گزین ہیں جنہوں نے ہماری دھرتی‘سرحد کے اِس پار جنم لیا‘ کبھی افغانستان دیکھا ہی نہیں۔ اب بے چین اور مضطرب ہیں کہ اس ماہ کی آخری تاریخ کے بعد ہم ان سے کیا سلوک کریں گے۔ گزارش ہی کر سکتے ہیں کہ تاریخ‘ جغرافیہ‘ تہذیب اور ثقافت کا جبر یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ افہام وتفہیم اور بڑے دل سے کام لینا ہے۔ اپنی نصف صدی کی خیر سگالی اور غریب کو ایک جھٹکے سے اچھال کر پھینکنے سے پہلے غور فرمائیں کہ کیا حاصل ہوگا۔ یہ راہ امن اور سلامتی کی نہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں