جنگل سے اُٹھنے کو جی نہیں چاہتا۔ ہر سال جب درختوں کی پتلی ٹہنیوں کے اختتامی حصوں میں سردیوں میں خوابیدہ کلیاں ہلکے ہلکے رنگوں میں باہر جھانکنے لگتی ہیں تو ہر سُو ایک جشن کا سماں طاری ہو جاتا ہے۔ زمین پر بکھرے خزاں آلود زرد پتوں کے نیچے سے درختوں اور پرندوں کے بکھیرے ہوئے بیجوں میں سے رنگ برنگے پھولوں کا نکلنا اور ایک نئے موسم کی نوید ہمارے دل میں بھی بہار آنے کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔ ہمارے ملک کے ہر حصے میں دیسی درختوں پر نئی کلیوں کی مسحور کن مہک سے آپ میں سے کون ہوگا جو محروم رہا ہو۔ وہ تو گلیوں‘ محلوں‘ سڑکوں اور بازاروں تک ہماری سانسوں کو معطر کرنے کے لیے ہمارے تعاقب میں رہتی ہے۔ فطرت کی کیا فیاضی ہے کہ امیر ہو یا غریب‘ جوان ہو یا بوڑھا‘ سب کو برابر فیض یاب کرتی ہے‘ بشرطیکہ دل‘ آنکھیں اور روح کا رخ ادھر کو ہو۔ ہزار ہا سالوں سے وادیٔ سندھ کے باسی کشمیر اور گلگت‘ بلتستان سے لے کر تھرپارکے ریگستانوں اور اس سے کہیں دور مغرب کی طرف پہاڑوں تک آج کل کے موسم میں بہار کے رنگوں کو مختلف انداز میں میلوں‘ علاقائی و ثقافتی تہواروں کی صورت مناتے ہیں۔ بچپن میں جو ثقافتی میلے یادوں میں دائمی طور پر زندہ ہیں‘ وہ پیروں‘ فقیروں کے درباروں پر بہار میں منعقد ہوا کرتے تھے۔ آج بھی ہمارے علاقوں کے لوگ پورا سال انتظار میں رہتے ہیں‘ اور سردیوں کے آخری مہینوں سے ان میلوں کے لیے منصوبہ بندی شروع ہو جاتی ہے۔ ہمارے ملک کا کوئی ایسا حصہ نہیں جہاں یہ میلے بہار میں نہ ہوتے ہوں۔ ہر علاقے کا اپنا انداز‘ اپنے دن اور مہینے ہیں۔ ہم ان لوک میلوں کی جانکاری لیں اور ان کے ثقافتی‘ نفسیاتی اور معاشرتی پہلوئوں پر غور کریں تو انسانی تہذیب اور تمدن میں تفریح اور تا زگی کے عنصر کی افادیت سے ہمیں شاید کچھ واقفیت ہو سکے۔
صرف اس دھرتی کا ثقافتی مزاج تاریخی طور پر مختلف تھا‘ جس کے صرف کچھ مدہم سے رنگ باقی رہ گئے ہیں۔ وجوہات کے بارے میں ہم انتہا پسندی کے دور میں کیا لکھیں‘ پنجابی کے درویش اور صوفی شاعر‘ نجم حسین سید کی ایک کافی‘ جو اکثر ہر موسم میں اپنے پرانے دوستوں کے اکٹھ میں گایا کرتے تھے ''آئو رنگ منائیے نویں پتراں دے‘‘ بہار کا سماں باندھی دیتی تھی۔ زمانے کے انقلابات نے نجانے ہمیں کہاں سے کہاں لا کر پھینکا۔ اکثر کی اب صرف کچھ یادیں‘ دھندلا خاکہ اور کتابوں میں چھپی تصویریں باقی رہ گئی ہیں۔ ہمارے ثقافتی میلوں کا رنگ بھی وہ نہیں رہا‘ انہیں بھی انتہا پسندی کی دیمک نے چاٹ کر کھوکھلا کر دیا ہے‘ جس طرح لکڑی کا ڈھانچہ تو کھڑا ہو‘ اندر سے مٹی کے خشک کھارے میں تبدیل ہو چکا ہو۔ جو ہم نے کسی زمانے میں دیکھا‘ اُس کا ذکر بھی ان مضامین میں کریں تو ڈر ہے کہ کوئی تہمت نہ لگ جائے۔ آج کے رواج کے مطابق بہتر ہے کہ خموشی اختیار کی جائے۔ مگر یہ کہنے کے بعد کہ ہمارا معاشرہ وہ نہیں رہا جو تھا‘ جشن بہاراں کی طرف ہمارے پائوں خود بخود اٹھ جاتے تھے‘ دل کی دھڑکنیں تیز ہوتیں اور جب تک تھک کر گرنے نہ لگتے‘ ہم کھوئے کھوئے آوارہ پھرتے۔
اکثر عوامی ثقافتی میلے ہم نے بہار میں دیکھے ہیں‘ اور کچھ خزاں میں بھی کہ ہمارے خطوں میں معتدل موسموں میں ہی یہ ممکن ہے۔ ویسے ہماری درویشانہ طبیعت تو یہ کہتی ہے کہ روزانہ کوئی نہ کوئی ایسا میلہ سجے‘ سردی‘ گرمی اور موسموں کے تغیر وتبدل کا اس میں کوئی خاص عمل دخل نہ ہو۔ اس لیے تو ہم اب بھی میلوں میں جانے سے جی نہیں چُراتے۔ موقع مل جائے تو کوتاہی نہیں کرتے‘ فوراً حاضر ہو جاتے ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں 'جشنِ بہاراں‘ نے کبھی متاثر تو نہیں کیا مگر عوام کو تفریح کا موقع جہاں اور جب بھی ملے‘ ہمارا نام ایسی کاوشوں کے قدردانوں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ سنا ہے کہ اندرونِ لاہور آج کل جشنِ بہاراں کے سلسلے میں کئی پروگرام منعقد ہو رہے ہیں۔ اپنا دل تو وہاں اُڑ کر جانے کو کرتا ہے‘ مگر وقت کی زنجیر نے ہمارے پاؤں اب اسلام آباد کے کونے میں باندھ رکھے ہیں۔ واقعی‘ دنیا میں لاہور منفرد ہے‘ اور لاہوری درست کہتے ہیں کہ جس نے اس شہر کو نہیں دیکھا‘ وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ تین عشرے اس کی گلیوں‘ بازاروں اور باغوں میں گزارے ہیں۔ یہاں تو ایک نہیں‘ دو نہیں‘ مسلسل ہر نوع کے میلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ مگر بہار کا رنگ سب میں الگ اور منفرد ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب بہار کی آمد اس شہر میں بسنت سے ہوا کرتی تھی۔ مشرف کے دور میں تو چند سال بسنت اپنے عروج پر پہنچی۔ دنیا بھر سے سیاح آنے لگے۔ بڑی تعداد میں ملک میں مقیم سفارتکار‘ ان کے اہلِ خانہ اور تارکینِ وطن لاہور کی طرف آنے لگے۔ کاش ہماری انتظامیہ‘ نوکر شاہی اور پنجاب کی حکومتیں گلے پہ پھرنے والی ڈور کی تیاری‘ فروخت اور استعمال پر قابو پانے میں ناکام نہ ہوتیں۔ نالائقی نے لاہور بلکہ پورے پنجاب کے شہروں کو بسنت کے میلوں کی رونق سے محروم کر دیا۔ آج بھی میری یادداشت میں ہے‘ لاہور کے آسمان کی ہزاروں پتنگوں سے بھری تصویر آنکھوں میں گھوم جائے تو دل پورا دن اسی منظر میں گم رہتا ہے۔
اب ہم بہار میں شہروں کے بجائے جنگلوں کا رُخ کرتے ہیں۔ کاش آج کل نکھرے پھولوں‘ درختوں کے تازہ پتوں اور نئے شگوفوں سے نکلتی خوشبو کو لفظوں کی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا۔ بہار اور اس کے رنگ تو درختوں کے اندر رہ کر ہی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ہم پتا نہیں کیسے بکھیڑوں میں پڑ کر اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ ہم سے تو پرندے‘ تتلیاں‘ مکھیاں اور کیڑے مکوڑے بازی لے گئے کہ بہار کے آتے ہی نجانے اتنی تعداد میں کہاں سے نکل کر آ جاتے ہیں‘ اور کچھ تو پھولوں سے چمٹ کر وہیں کے ہو رہتے ہیں۔ یہ بات کسی ایک جنگل کی نہیں‘ اور نہ ہی صرف باغوں کی ہے۔ جہاں بھی آپ چند درخت آج کے موسم میں دیکھیں گے‘ اور اگر سینے میں دل اور جسم میں روح زندہ ہے‘ کچھ دیر ٹھہر کر قریب وقت گزار سکیں‘ تو یہ مناظر آپ دیکھ سکتے ہیں۔ ایسی بہار تو سال میں ایک دفعہ دروازوں پر دستک دیتی ہے۔ کوئی بدذوق ہی ہوگا جو اس کے لیے دروازہ بند رکھے گا۔ روایتی طور پر ہمارے دیہات‘ چھوٹے قصبے اور تاریخی شہر آج کل کی طرح عمارتوں کے جنگل میں کبھی نہ تھے۔ ارد گرد‘ درمیان میں اور ہر طرف قدرتی جنگلات‘ باغات اور کھیت ہوا کرتے تھے۔ ہمارے حکمران بھی‘ قدیمی مقامی راجاؤں سے لے کر مغلوں اور برطانوی راج تک‘ جنگلات اور باغوں کی حفاظت میں دلچسپی لیتے تھے۔ زوال تو پھر ہر شعبے میں آیا ہے کہ اس دور کے باغوں پر کہیں سرکاری دفتر ہے‘ تو کہیں قبضہ مافیا نے دکان کھول رکھی ہے۔ کاش ہم اپنے فطری ورثے‘ جس میں صحرا‘ دریا‘ ندی نالے‘ پہاڑ اور قدرتی جنگلات شامل ہیں‘ کو حریص لوگوں سے محفوظ کر سکیں اور رنگِ بہار اور اس کے حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ جہاں جہاں یہ محفوظ ہے‘ دنیا کے لاکھوں نہیں‘ کروڑوں سیاح ادھر کا رُخ کرتے ہیں۔ چلو‘ اپنے ہی چند درختوں میں کچھ سُکھ کا سانس لیتے ہیں۔