صرف اپنے ہی بگڑے ہوئے حالات دیکھ کر دل نہیں کڑھتا‘ ہماری طرح کے اور بھی بہت ہیں جن کے بارے میں خبروں پر تھوڑا سا بھی دھیان دیں تو خوف پیدا ہوتا ہے کہ کہیں سانسیں رک نہ جائیں۔ سوڈان کی خانہ جنگی کی طرف دیکھ لیں‘ جس میں دو جرنیل فوج کے دو مختلف دھڑوں کی قیادت کر کے ایک سال سے زیادہ عرصہ سے ایک دوسرے پر گولا بارود کی بارش کر رہے ہیں جبکہ بے بس لوگ شہروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں پناہ گاہیں تلاش کر رہے ہیں۔ ہم جوانی میں تازہ تازہ ڈگری ہاتھ میں لیے خواب دیکھا کرتے تھے کہ نائیجیریا یا سوڈان میں کسی جامعہ میں تدریس کا موقع مل جائے۔ ہمارے ہاں سے کئی گنا زیادہ تنخواہ ہوا کرتی تھی اور ادائیگی امریکی ڈالروں میں تھی۔ ہم تو اپنی درویشی میں گزارہ کرتے رہے‘ مگر کچھ دیگر افریقی دانش گاہوں میں کئی سال خدمات انجام دیتے رہے۔ وہاں ابھی وسائل پر اُن لوگوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا جو ترقی پذیر ریاستوں کا سرمایہ اپنے آقائوں کی کمپنیوں‘ جائیدادوں اور دیگر دھندوں میں منتقل کرتے ہیں۔ آج ان ملکوں میں کوئی ترلے بھی کرے اور ساتھ عجیب وغریب قسم کے سبز باغ دکھائے تو سمجھیں کہ آپ ہمارے علاقے کے کچے کے ڈاکوئوں کے نرغے میں جا رہے ہیں۔ نائیجیریا اب بھی دنیا کے ممتاز ترین تیل برآمدکنندگان میں سے ایک ہے‘ مگر کہیں دہشت گردی ہے تو کہیں لوگ بغاوت کر رہے ہیں اور سرکار ہمارے ہاں کی طرح‘ سیاست کے مزے لے رہی ہے۔ ہم اپنے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہاں سرکاری راوی سب چین ہی چین لکھتا‘ سوچتا اور شام کو مائیک کے سامنے اس تکرار اور اعتماد کے ساتھ بلاجھجھک بولتا ہے کہ ہمارے بس میں ہوتو شکی مزاج لوگوں کو ہمیشہ کے لیے گھروں میں بند کر دیں۔
ہماری بیداری کی سماجی اور سیاسی تحریکوں کی ابتدا ایک سو ستر سال پہلے اس نکتے پر ہوئی تھی کہ دنیا بدل گئی ہے اور ہم نے دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ اسد اللہ خاں غالب جیسے عبقری جنہوں نے ہماری ادبی روایت اور اردو ثقافت میں رنگ بھرا‘ اور آج بھی انہیں پڑھے بغیر اپنی تہذیب کا کوئی ابتدائی خاکہ بھی ذہن میں نہیں بنا سکتا‘ وقت کے دھارے کے ساتھ بہنا چاہتے تھے۔ یہ سب لوگ مغلیہ سلطنت اور اس سے جڑے نوابی اور جاگیرداری نظام کا حصہ تھے۔ کچھ نوحہ خوانی تو سب نے کی مگر وقت کے ساتھ زندہ رہنے کا سلیقہ بھی سیکھا اور سب کو تاکید کی کہ ماضی میں نہیں رہنا‘ آگے بڑھنے کا سوچنا ہے۔ مستقبل ماضی سے سبق تو حاصل کر سکتا ہے‘ اس کو دہرا نہیں سکتا۔ طاقت کا توازن دنیا میں تبدیل ہو چکا تھا‘ اور وہ جو طاقت کے اَسرار ورموز سے واقف تھے‘ یا نئے زمانے کوسمجھنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور آگے بڑھنے کی تدبیر کر سکتے تھے‘ وہ آگے نکل گئے اور جو ماضی کے قصوں‘ کہانیوں اور داستانوں کو ایک دوسرے کو سنا کر دل کا بوجھ ہلکا کر تے رہے‘ وہ طاقت کے پلڑے میں بھی ہلکے رہے۔ کاش میں یہ عام سی باتیں نہ لکھتا‘ مگر کیا کریں‘ آج کے حالات کچھ ملکوں کے‘ ہمارے ہرگز نہیں‘ ایسے ہیں کہ شاید ہی کسی نے تاریخ تو دور کی بات ہے‘ ہر روز کی اخباروں کی شہ سرخیاں بھی پڑھی ہوں۔ آپس کی بات ہے کہ ہماری تو اب ہمت ہی نہیں رہی کہ آج سے پچاس‘ ساٹھ سال پہلے کی طرح کی بڑی خبریں جلی حروف میں نمایاں کر سکیں۔ اب تو کچھ لکھنے یا چھاپنے اور کہنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔ ایسی فضا اگر کسی ملک میں طاری ہو جائے تو ملک اور معاشرہ تو کبھی آگے نہیں بڑھتے‘ حکمران طبقات البتہ کہیں کے کہیں نکل جاتے ہیں۔
اگر ہمارے بس میں ہو یا قوم زندہ ہوتی تو سیاسی گھرانوں‘ صنعت کاروں‘ نوکر شاہی اور دیگر کی دولت‘ اثاثوں اور غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری اور سمندر پار بینکوں میں چھپائے زر ودولت کا کوئی حساب کریں کہ آپ کیا سے کیا ہو گئے۔ اس لیے تو زبانیں بند رکھنے کا حکم صادر ہوتا ہے اور اس کے لیے تو قوانین بنائے جاتے ہیں کہ کوئی شرپسند کوئی ایسی ویسی بات نہ کر دے۔ جمود کا لفظ بھی نائیجیریا‘ سوڈان اور لیبیا جیسے ملکوں کی صورت حال بیان کرنے سے قاصر ہے۔ پہلے سے ہی دخواست کہ اس کا کوئی غلط مطلب نہ لیا جائے۔ ذہنوں پر پردے ہوں‘ سوچ پر پہرے اور ہر طرف بے لگام رضاکار جو خبر رکھنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے بیتاب پھر رہے ہوں تو پھر خوف اور مایوسی میں کوئی کیا کر سکتا ہے۔ خوف‘ مایوسی اور افراتفری کسی معاشرے میں پھیل جائے تو آگے بڑھنے کی ہمت جواب دے جاتی ہے۔ قصہ خوانی کی جاتی ہے اور جدید میڈیا کے تھڑے پر خوشامدیوں کی صف بندی کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کا پرانا عمل دہرایا جاتا ہے۔ کچھ زیادہ لکھنے کی سکت نہیں‘ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ حالات سے شاید ہی کوئی خوش ہو‘ وہ بھی جو مروجہ سکہ بند سیاست کو کچھ دیر اور چلتا رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یہ تو حیرت کی انتہا ہو گی کہ موجودہ بندوبستی نظام کیسے کلیدی کرداروں کی صلاحیت اور دیگر کاموں میں ان کی افتادِ طبع سے واقف نہیں۔ شاید یہ بھی نظریۂ ضرورت کے زمرے میں آئے۔ چلو‘ ہم تو اس نظریہ پر بھی اب یقین کرنے لگے ہیں‘ مگر کوئی صلاحیت‘ کوئی جوش وجذبہ‘ کوئی فکری زوایہ ہی ایسا ان میں دکھائی دیتا کہ کہتے کہ اب تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ اب جن کی بدل رہی ہے‘ ان کے بارے میں آپ جانیں اور آپ کا کام‘ ہم ایسی باتوں میں خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔
آج جب ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدانوں میں انقلاب پر انقلاب آ رہا ہے‘ اور ہر وہ جو طاقت کا راز پا چکے ہیں‘ وہ آنے والے دن کے ساتھ مزید اضافہ دیکھ رہے ہیں‘ ہم ماضی کے مہرے چلانے کی سیاست میں پھنسے ہوئے ہیں۔ گزشتہ تین صدیوں سے تیزی سے بدلتی دنیا کے نظام کی روح یہ ہے کہ آگے کا سوچیں‘ اپنے کل کو آج سے بہتر کریں‘ ہر میدان میں مسابقت سے فطری قیادت آگے آئے اور افکارِ تازہ پر پہرہ داری نہ ہو۔ سیاسی علم میں اولین صنعتی انقلاب سے لے کر آج کے مصنوعی ذہانت کے دور میں ایک قدر مشترک رہی ہے‘ یہ علم صرف پُرسکون‘ مطمئن‘ مربوط ذہنوں اور معاشروں میں پیدا ہوتا اور فروغ پاتا ہے۔ خوف‘ مایوسی اور اضطراب میں سب کو اپنی جان کی پڑی ہوتی ہے۔ پھر بات یہ بھی ہے کہ آخر معاشروں میں نظم وضبط‘ امن اور سلامتی حاصل کرنے کا طریقہ بھی تو ہو گا‘ ایسے میں تو صرف انارکی پھیلے گی‘ بے چینی‘ نفسانفسی کا عالم ہوگا۔ یہ سب کچھ سیاست اور آئین کے پہلے سبق میں ہے کہ طاقت کا حصول کیسے ہو گا‘ کب تک اس کی جائزیت رہے گی اور کیسے پُرامن طریقے سے اُسے منتقل کیا جائے گا۔ ہم صرف ایک طرزِ حکومت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں‘ کچھ اور بھی راستے ہیں جن پر ہم چل چل کراب تھک چکے ہیں۔ ہم اپنی قومی زندگی میں‘ جو ہماری نسل کی زندگی بھی ہے‘ سب کچھ دیکھ اور آزما چکے ہیں۔ آج کے عالمی منظر نامے کو دیکھیں تو گرتے ہوئوں کا ہاتھ تھامنے کے لیے کوئی نہیں۔ آپ بے شک دورے کریں‘ پرانی دوستیوں کے گن گائیں اور تعریفوں کے پل باندھیں‘ مادیت پرستی اور طاقت کی بنا پر ممکنہ نظام میں مسکینوں کے لیے کچھ نہیں۔ ظلم تو یہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ ہے‘ مگر عقل اور قیادت کہاں سے تلاش کریں۔