"RBC" (space) message & send to 7575

تعزیت نامہ

آخر اُسے وہ سکون مل ہی گیا جس کی تلاش میں وہ ہزاروں میلوں کی مسافت‘ بردہ فروشوں کے شکنجے اور اپنے ماں باپ‘ بہن بھائیوں کو بنگلہ دیش کے کسی گائوں میں تیس چالیس سال پہلے چھوڑ کر عورتوں کی منڈی میں بولی پر بک کر ہمارے علاقے میں آئی تھی۔ ایسے مظلوموں کو سکون قبر کی گہرائی میں ہی نصیب ہوتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ اُسے اپنی رحمت میں رکھے۔ کل ہی معلوم ہوا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔ اب یہ یاد نہیں کہ اُس کا ذکر فون پر کیوں کیا‘ مگر وہ ان سینکڑوں تصویروں میں سے ایک تھی جو کبھی ذہن کے دھندلکے میں ابھر کر سامنے آتیں تو زیست کے کئی فلسفے‘ انسان کی فطرت کے نظریے اور معاشرے کے تاریک پہلو ہیولیٰ بن کر آنکھوں کے سامنے ناچنے لگتے۔ وہ اَن گنت انسانی المیوں میں سے ایک ہے جن کی کتھائیں میری یادداشت کا حصہ ہیں۔ کبھی جی نہیں چاہتا کہ ان کے بارے میں کچھ لکھوں یا کسی سے ان کے متعلق بات کی جائے۔ دھیان ادھر جانے سے کئی دن اندر ہی اندر دکھ کی آگ سلگتی رہتی ہے۔ امریکہ کی ایک طالب علم کو ایک دو واقعات اُسی کی ریسرچ کے حوالے سے بتائے توہ اس قدر حساس نکلی کہ ایک سال تک اپنا کام بند رکھا۔ کیا کریں کہ صبر بھی تو نہیں ہوتا کہ اردگرد ظلم ہی ظلم ہو‘ اور ہم خاموش رہیں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے جہاں خود کلامی کرکے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا ہوں‘ وہاں آپ کو وطن عزیز میں عورتوں پر مظالم کی ایک جھلک بھی دکھانا چاہتا ہوں جن کے بارے میں ہمارے اکابرین‘ صالحین اور مصلحین نے مکمل خموشی اختیار کر رکھی ہے۔ دل آزردہ اس لیے بھی ہے کہ خیال تھا کہ اگلی دفعہ آبائی علاقے میں گیا تو اسے بلا کر اُس کی کہانی ایک بار پھر سنوں گا۔
اُس سے ملاقات اتفاق ہی تھی‘ کچھ نہیں پتا تھا کہ وہ کون ہے۔ گھر کے دلان میں بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ فرش پر لاٹھی ٹیکنے کی مدہم لیکن گونج دار آواز پیدا ہونے لگی۔ کسی نے دروازہ کھولا اور کہا کہ یہ خاتون مجھے ملنا چاہتی ہے۔ آنکھ اٹھا کر دیکھا تو شکل وصورت سے مقامی نہیں لگتی تھی۔ میلے کچیلے کپڑے‘ بالوں میں چاندی کی سفیدی اور وقت سے پہلے بڑھاپے کی پرچھائیں گہری ہو رہی تھیں۔ لیکن خاتون کی آواز میں اعتماد کچھ حیران کر گیا۔ پوچھا کہ آپ کون ہیں‘ کیا کرتی ہیں؟ کہا کہ بھیک مانگتی ہوں‘ اس لیے حاضر ہوئی ہوں‘ اور میرا نام یہ ہے۔ جس سہولت اور روانی سے میری زبان میں وہ باتیں کرتی جا رہی تھی‘ یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کی ہے۔
میرے ذہن میں سوالات امڈتے آ رہے تھے اور وہ بخوشی اُن کے جواب دیتی رہی۔ ایسے ہی وہ اُن پُرمسرت وقتوں میں یہ لمحے گزارنا چاہتی تھی جو اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ جوانی تک عمر کے حصے میں گزارے تھے۔ وہ محنت مزدوری کرتے تھے‘ خوش تھے‘ آپس میں محبت تھی اور سب بچوں میں ماں باپ اُسے زیادہ پیار کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح پاکستان چلی جائے۔ خیال تھا کہ وہاں آسودہ اور خوش حال ہو جائے گی‘ اچھی زندگی گزارے گی اور ہو سکا تو وہ اپنے پائوں پر کھڑی ہو کر ہمیں بھی بلا لے۔
جس طرح آج کل نوسر بازوں کے ہاتھوں لُٹ کر ہمارے دیہات کے نوجوان اور ان کے خوش حالی کے خواب گہرے سمندر کے پانیوں میں غرق ہو رہے ہیں‘ اُس کا خاندان بھی ایسے بدمعاشوں کے جھانسے میں آ گیا۔ انہوں نے سنہری خواب دکھائے کہ وہ کس طرح بھارت کے زمینی راستے اُسے کراچی پہنچائیں گے جہاں بنگلہ دیشیوں کی اچھی خاصی آبادی بن چکی تھی۔ اپنی بیٹی اس طرح غیروں کے حوالے کرنا نہ جانے کیسی مجبوریوں کی وجہ سے تھا‘ یا پھر ایک بہتر زندگی کا خواب‘ دیگر ملکوں کا رومانوی تصور‘ یا پھر کچھ اور۔ یہاں میرا قلم تابِ نگارش نہیں رکھتا‘ کہ بیٹیوں کو بوجھ کون سمجھتا ہے۔
میرے سوالات کا سلسلہ رک گیا۔ پوچھنے کی ہمت نہ تھی کہ کن حالات میں اُس نے سندھ کا بارڈر پار کیا اور کہاں کہاں کس منڈی میں فروخت ہوتی رہی‘ یہاں تک کہ ہمارے علاقے کے ایک آدمی نے اُسے خرید لیا۔ بولی یا بھائو تائو طے ہوا‘ بس وہیں نکاح اور حوالگی اور ملکیت کی تبدیلی۔ یہ کوئی تین عشرے پہلے کی بات ہے۔ آج بھی ایسی خفیہ منڈیاں موجود ہیں‘ اور خبریں ملتی رہتی ہیں کہ کون آج خرید کر لایا ہے۔ حیران ہوتا ہوں کہ اَن پڑھ دیہاتیوں‘ کسانوں کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ کس جگہ کون عورتوں کو کس نرخ پر فروخت کر رہا ہے۔ بس اس سے ہمارے تحقیقاتی ادارے اور پولیس ہی بے خبر ہے‘ ہو گی کوئی وجہ۔
یہ پہلی کہانی اور واقعہ نہیں تھا‘ جو مرحومہ اپنے بارے میں بتا رہی تھیں۔ بہت پہلے جب والدہ مرحومہ سے ملنے آبائی گائوں جاتا تو وہ ایک اور ایسی عورت کا دکھ اور افسردگی کے ساتھ ذکر کرتیں کہ اُن کی آنکھیں اشکبار ہو جاتیں۔ اس کی زبان یوں تو بنگالی ہے لیکن کوئی نہیں سمجھتا کہ وہ کیا کہتی ہے‘ اور وہ جتنا زیادہ روتی ہے‘ اس کا شوہر اُسے اتنا ہی مارتا ہے۔ اس کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم تو خرید کر لائے ہیں‘ ہم جو مرضی کریں۔ دکھ کی بات ہے کہ آج بھی عورتوں کی خرید و فروخت کا دھندا جاری ہے۔ ایسے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں‘ اور کچھ مشاہدے میں بھی ہیں کہ ماں با پ بیٹی کو فروخت کر دیتے ہیں۔ غلامی اور کیا ہوتی ہے؟ دنیا میں تو یہ گھنائونی رسم ختم ہو گئی‘ مگر عورتوں کی غلامی کا کاروبار ملک کے ہر حصے میں پھیلا ہوا ہے۔ اس مکروہ دھندے میں بااثر اور طاقتور لوگ ملوث ہیں۔ آج تک نہیں سنا کہ غلامی کے کاروبار میں کوئی گرفتار ہوا ہو یا کسی کو کوئی سزا ملی ہو۔ ہم غلاموں کے غلام کیا کر سکتے ہیں۔
اس مرحومہ سے کہا کہ تم بنگلہ دیش جانا چاہتی ہو تو میں بندوبست کر سکتا ہوں۔ جب چاہو انتظام ہو جائے گا۔ کہا: نہ جانے میرے اپنے لوگ کہاں ہوں گے‘ زندہ بھی ہوں گے یا نہیں‘ کیسے انہیں تلاش کروں گی؟ میری بیٹی یہاں ہے‘ اسے چھوڑ کر کیسے چلی جائوں؟ وہ میرے بغیر تو رہ ہی نہیں سکتی۔ کچھ توقف کے بعد گہرا سانس لے کر کہنے لگی کہ میرے خاوند کو کون کھلائے گا‘ وہ تو معذور ہو چکا ہے اور میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتی ہوں۔ کل یہ خبر ملی کہ وہ اپنی آخری منزل پر پہنچ چکی ہے تو کئی سوال ذہن میں جنم لیتے رہے۔ زمانے کی بے رحمی‘ معاشرے کی بے حسی اور ہمارے حکمران طبقات کی روایتی بے سمتی کی وجہ سے ذہن پر افسردگی طاری ہے۔ جب مرحومہ اپنے دکھوں کی داستان سنا رہی تھی تو ساتھ یہ بھی کہتی کہ اپنی اپنی قسمت‘ اور ایک دفعہ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ سوچتا ہوں کہ مظلوم کی آواز ان کے اندر دب کر کیوں رہ جاتی ہے‘ طاقتور لوگ کیوں بہرے اور اندھے ہو چکے ہیں اور ہم جیسے انسان اپنی انسانیت کیوں کھو چکے ہیں؟
یہ کہانی کسی بھی معاشرے کے زوال کی کہانی ہے۔ گراوٹ کہوں یا غیر مہذب تو غلط نہ ہو گا مگر ایسا کہنے کا حوصلہ بھی نہیں رہا کہ کوئی ڈنڈا ہاتھ میں لے کر پیچھے نہ پڑ جائے کہ اس مسلم معاشرے کے بارے میں یہ کہتے اور لکھتے ہو۔ دل تو چاہتا ہے کہ سب مظلوموں کا تعزیت نامہ لکھوں اور اگر ایسا ہو تو پھر کسی اور موضوع کی شاید باری نہ آئے۔ یہ سفر تو سب کا کٹ جائے گا‘ ظالموں نے بھی وہیں جانا ہے‘ زمین کے اندر‘ لیکن اپنی طاقت کے گھمنڈ اور اکثر زرودولت کی نشے میں ایسے دھت ہو جاتے ہیں کہ ظلم کے ارتکاب کا احساس ہی نہیں رہتا۔ مرحومہ کی داستان اس سیاسی اور سماجی نظام کا المیہ ہے‘ اور جب تک یہ قائم ہے‘ عورتوں کی غلامی کی منڈیوں کا کاروبار جاری رہے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں