"AIZ" (space) message & send to 7575

مسئلہ فلسطین‘ دینی جماعتوں کا اتفاق

10 اپریل کو پاک چائنہ فرینڈشپ سنٹر اسلام آباد میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کے زیر صدارت قومی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا‘ جس کے لیے مولانا فضل الرحمن‘ مفتی تقی عثمانی‘ مفتی منیب الرحمن‘ قاری حنیف جالندھری‘ حافظ ہشام الٰہی ظہیر‘ لیاقت بلوچ‘ سابق سینیٹر مشتاق احمد اور قاری یعقوب شیخ کے علاوہ دیگر بہت سے رہنمائوں کو مدعو کیا گیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ کانفرنس سے ایک روز قبل عشاکی نماز کے بعد مولانا فضل الرحمن کی رہائشگاہ پر اکابر علماء کا اجلاس طلب کیا گیا جس میں مفتی منیب الرحمن‘ مفتی تقی عثمانی‘ مولانا ابو تراب‘ مولانا عتیق الرحمن کشمیری‘ میاں منظور احمد اور چودھری عبد الرزاق کے ساتھ ساتھ مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔
اس موقع پر مظلوم فلسطینیوں کے معاملات پر بڑے ٹھنڈے دل سے غور کرنے کیلئے ایک طویل نشست کا انعقاد ہوا۔ اس نشست میں حماس کے سربراہ خالد مشعل نے بھی شرکائے مجلس سے گفتگو کی اور ان کے سامنے اس بات کو رکھا کہ القدس کا علاقہ مسلمانوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس علاقے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہزاروں انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا‘ جو انسانوں کی رہنمائی کے فریضے کو سرانجام دیتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو معراج کی رات بیت المقدس پہنچایا اور یہیں پر آپﷺ کو انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت کے شرف سے بہرہ ور فرمایا۔ آج اسی علاقے میں مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اس نسل کشی کو روکنے کے لیے امتِ مسلمہ کو اجتماعی فیصلوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک طاقتور مسلم ملک ہے‘ اللہ تعالیٰ نے اس کو عسکری طاقت اور جوہری ہتھیاروں سے نوازا ہے اس لیے پاکستان کو اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ظلم کو روکنے کے لیے نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے۔ خالد مشعل نے اس موقع پر 60 ہزار شہادتوں‘ غزہ کے لاکھوں گھروں کے انہدام اور ہسپتالوں اور دینی مراکز میں ہونے والی بمباری کا بھی ذکر کیا جس پر تمام شرکائے مجلس نے شدید افسوس اور غم کا اظہار کیا۔ خالد مشعل صاحب کے خطاب کے بعد اہلِ فلسطین سے اظہارِ یکجہتی اور ان کے دکھوں کے مداوے کے لیے کافی دیر تک تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ اس نشست میں ان تمام امکانات پر غور کیا گیا جو فلسطینیوں کے لیے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کی تجارتی مصنوعات کا بائیکاٹ اور تاجروں سے اس بات کی توقع کی گئی کہ وہ اسرائیلی مصنوعات کی خرید وفروخت کے لیے اپنے پلیٹ فارم استعمال نہ کریں۔ اس موقع پر علماء نے اتفاق کیا کہ مصنوعات کے ساتھ ساتھ ان تاجروں کا بھی بائیکاٹ کیا جائے جو مسلمانوں کے مطالبے کے باوجود اسرائیلی مصنوعات کی خریدو فروخت سے باز نہیں آتے۔ اس کے ساتھ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کے اجلاس کے انعقاد کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا۔ اسرائیل کی جارحیت اور تشدد کو دیکھتے ہوئے فلسطینیوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے جہاد کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا۔ اس موقع پراس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ مسلم ریاستوں کے خلاف اسلحہ اٹھانا کسی بھی طور درست نہیں اور نہ ہی جہاد کرنے کا اعلان علماء کی ذمہ داری ہے۔ یہ حکومت اور مسلم سربراہوں کی ذمہ داری ہے جبکہ علماء کا کام اس ذمہ داری کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے۔ ان تمام نکات پر سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد جملہ شرکائے محفل نے کانفرنس میں مشترکہ نکات کو اٹھانے پر اتفاق کیا۔
اگلی صبح ساڑھے دس بجے کانفرنس کا آغاز ہوا۔ کانفرنس کے آغاز ہی سے ہال کھچا کھچ بھر چکا تھا اور ہال کے باہر بھی عوام کی کثیر تعداد موجود تھی۔اس موقع پر ولولہ انگیز خطابات کیے گئے۔ مفتی تقی عثمانی‘ مولانا فضل الرحمن‘ مفتی منیب الرحمن اور سینیٹر (ر) مشتاق احمد نے پُراثر گفتگو کی۔ مجھے بھی اس موقع پر اپنی آرا پیش کرنے کا موقع ملا۔ میں نے شرکائے مجلس کی توجہ اس مسئلے کے تاریخی پہلو کی جانب مبذول کرائی کہ یہود آغازِ اسلام ہی سے مسلمانوں کی دشمنی پر آمادہ وتیار رہے۔ گو یہود مدینہ میں نبی آخرالزمانﷺ کی ذات پر ایمان لانے اور تائید کرنے ہی کیلئے آباد ہوئے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ آلِ اسحاق کے بجائے آلِ اسماعیل سے مبعوث ہوئے ہیں تو وہ تعصب کی وجہ سے رسول اللہﷺ کی مخالفت اور دشمنی پر اتر آئے اور انہوں نے آپﷺ کی شخصیت اور دعوت کی سرعام مخالفت شروع کر دی۔ انہوں نے نبی کریمﷺ کے کھانے میں زہر ملانے کی سازش کی اور آپﷺ پر جادو کا حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں‘ اسلامی اقدار وشعائراور نبی کریمﷺ کی حرمت پر بھی حملہ آور ہوتے رہے۔ چنانچہ کعب ابن اشرف اپنی گستاخیوں اور سرکشی کی وجہ سے محمد بن مسلمہؓ کے ہاتھوں کیفر کردار تک پہنچا جبکہ ابو رافع یہودی کو حضرت عبداللہ بن عتیکؓ نے کیفرکردار تک پہنچایا۔ خیبر کا چوبدار مرحب ایک بڑا ہی متکبر اور متشدد یہودی تھا۔ خیبر کے قلعے کو فتح کرنے میں دقت کا سامنا تھا۔ نبی کریمﷺ نے خیبر کی فتح کیلئے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو ذمہ داری سونپی۔ حضرت علیؓ نے قلعۂ خیبر کو فتح کیا اور مرحب کی گردن کو تن سے جدا کر دیا۔ نبی کریمﷺ نے اپنے وصال سے قبل یہ وصیت فرمائی تھی کہ یہود ونصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دیا جائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں نبی کریمﷺ کی وصیت پر عمل درآمد کرتے ہوئے یہود کو جزیرۃ العرب سے باہر نکال دیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہودی ہر دور میں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔
ایک سیاسی پلاننگ کے تحت یہود کے بین الاقوامی نیٹ ورک نے 19ویں صدی کے اواخر سے بیسویں صدی کی چھٹی دہائی تک نقل مکانی کر کے ارضِ مقدس میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا اور اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کیلئے اسلحہ سازی اور عسکریت پر بھرپور توجہ دی۔ مسلم ممالک نے اسرائیل کی عسکریت کا زعم توڑنے کے لیے اپنی دانست میں متعدد کوششیں کیں لیکن بوجوہ انہیں کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ عرب اسرائیل جنگوں میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد صہیونی یہود کے ظلم وستم میں مزید اضافہ ہو گیا۔ گزشتہ دہائی کے دوران بین الاقوامی سامراجیت نے صہیونیوں کی غیر معمولی حوصلہ افزائی کی جس کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت سے دکھوں اور ابتلائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ عالمی ضمیر اس وقت سویا ہوا ہے۔ مسلم امت اور اس کے سیاسی اور عسکری رہنمائوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسرائیل پر بھرپوردبائو ڈالیں تاکہ ظلم وستم کا خاتمہ ہو سکے۔ اس موقع پر سامعین نے علماء کرام کے خطابات کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا اور ان کی بھرپور طریقے سے تائید کی۔
اسی شام اہل سنت والجماعت کے زیر اہتمام ڈی چوک میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا اورنگزیب فاروقی اور دیگر رہنمائوں نے خطاب کیا۔ مجھے بھی اس موقع پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ میں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کو اجاگرکیا کہ مسلم حکمرانوں اور عسکری ذمہ داران کو اسرائیل کی جارحیت کا راستہ روکنا چاہیے اور مسلمانوں کی تکالیف کے ازالے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔ ڈی چوک اسلام آباد میں ہونے والے اجتماع میں نوجوان بڑی تعداد میں شریک تھے۔ انہوں نے اس موقع پر قائدین کے ساتھ مکمل اظہارِ یکجہتی کیا اور یوں علماء کرام کی جانب سے 10 اپریل کومضبوط مطالبات منظر عام پر آئے اور حکومت اور عالمی نشریاتی اداروں کو عوامی پیغام پہنچا کہ مسلمان اس وقت شدید کرب کا شکار ہیں جس سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی اشک شوئی کے لیے مضبوط حکمت عملی تیار کی جائے اور ان کو دکھ اور ابتلا کے اس موقع پر لاوارث اور تنہا نہ چھوڑا جائے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں