حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک ممتاز عالم دین تھے‘ جنہوں نے حدیث اور متعلقہ علوم میں غیر معمولی مہارت حاصل کی۔ حافظ صاحب کو تحریر وتحقیق سے غیر معمولی شغف تھا؛ چنانچہ وہ ساری زندگی اسی کام میں مصروف رہے۔ انہوں نے اسنادِ حدیث کی پڑتال کے حوالے سے ممتاز مقام حاصل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں احادیث کی صحت اور ان کے ضعف کی شناخت کی غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی۔ حافظ زبیر علی زئی کا تعلق اٹک کے علاقے حضرو سے تھا۔ بہت سے ممتاز علمائے دین نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ کو تہ کیا اور ان کے علم سے فیضیاب ہوئے۔ حافظ شیر محمد‘ حافظ ندیم ظہیر اور دیگر بہت سے ممتاز علما حافظ صاحب کے شاگردوں میں شامل ہیں۔ حافظ شیر محمد اس وقت حافظ زبیر علی زئیؒ کے مسند نشین ہیں اور آپ کے مکتبہ اور مدرسے کی نگرانی کے ساتھ ساتھ تبلیغ دین کے اعتبار سے بھی علاقہ بھر میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا اور حضرو میں قرآن وسنہ موومنٹ کے زیر اہتمام ایک بڑا پروگرام منعقد کرنے کے ارادے کا اظہار کیا؛ چنانچہ اپریل کی 19 تاریخ اس حوالے سے طے کر لی گئی۔ 18 تاریخ کو میں اپنے ساتھیوں انجینئر محمد عمران اور یاسر عبید کے ہمراہ اسلام آباد روانہ ہوا‘ جہاں دیرینہ دوست عمر فاروق کے ہاں قیام کیا۔ اگلی شام تقریباً پانچ بجے ہم اسلام آباد سے حضرو کیلئے روانہ ہوئے۔
حضرو پہنچنے پر حافظ شیر محمد نے اپنے رفقا کے ہمراہ ہمارا پُرتپاک استقبال کیا۔ اس پروگرام میں لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ پروگرام کیلئے ایک وسیع پنڈال کا انتظام کیا گیا تھا جو لوگوں کی بھرپور شرکت کی وجہ سے تنگیٔ داماں کا شکوہ کر رہا تھا۔ مجھ سے قبل حافظ ندیم ظہیر نے قرآن مجید سے تمسک کے حوالے سے پُرمغز اور فکری گفتگو کی۔ انہوں نے قرآن مجید کے ساتھ رجوع اور تعلق کو استوار کرنے کے حوالے سے عوام الناس کو بھرپور انداز سے رغبت دلائی۔ ان کی تقریر کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے اس موقع پر سیرت النبیﷺ کے حوالے سے جن معروضات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کوکچھ ترامیم اور کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز کے خالق ومالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین پر مختلف قسم کی مخلوقات کو پیدا کیا لیکن حساب وکتاب کے حوالے سے محض دو مخلوقات پر ذمہ داریاں عائد کیں۔ انسان اور جنات۔ اگر یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے بجاآوری کریں تو دنیا وآخرت کی فلاح کے حقدار ٹھہریں گے لیکن اگر اپنے نفس کی پیروی کریں اور شیطان لعین کی باتوں کو تسلیم کر لیں تو دنیا وآخرت کی ناکامی ان کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات اس قدر بلند ہے کہ انسانی تصورات اور عقل اُس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے بارے میں صحیح ترین معلومات قرآن مجید اور نبی کریمﷺ کے فرامین سے حاصل ہوتی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کا وہ تعارف جو خود اللہ نے اپنے کلام میں کرایا اور جو نبی کریمﷺ نے احادیث میں بیان کیا‘ ان کو پڑھنے اور سننے کے بعد بھی ہر آدمی کے ذہن وقلب پر ایک جیسے اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ جتنا بڑا عالم ہو اتنی ہی زیادہ اس کے استحضار کی کیفیت بلند ہوتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کماحقہٗ استحضار انسانی استعداد سے باہر ہے۔ چنانچہ انسان خواہ کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لے‘ اللہ تعالیٰ کی حمد اور ستائش کے حق کو ادا کرنے سے قاصر ہی رہتا ہے۔ اس موضوع پر جب بھی انسان گفتگو کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے توفیق کا طلبگار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کو اپنی پسماندگی اور کمزوری کا احساس بھی ضرور ہوتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں گفتگو کرنے کے بعد جس ذات کے بارے میں گفتگو کرنا انتہائی مشکل اور بڑا چیلنج ہوتا ہے وہ نبی کریمﷺ کی ذات بالا صفات ہے کہ جن کی تعریف وتوصیف ہر دور کے انسانوں نے نہایت احسن انداز سے کی ہے۔ مؤرخین‘ مجتہدین‘ مجددین‘ محدثین‘ مفسرین‘ شعرا‘ نثر نگار‘ غرضیکہ اہلِ علم ہر دور میں آپﷺ کی شانِ اقدس کو بیان کرتے رہے ہیں۔ صحابہ کرامؓ، اہل بیت عظامؓ‘ امہات المومنینؓ‘ بنات النبی طاہراتؓ‘ یہ تمام شخصیات اور ہستیاں نبی کریمﷺ کی ذات کے بارے میں جو باتیں کرتی رہیں ان سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کو غیر معمولی اوصافِ عالیہ سے نواز رکھا تھا لیکن نبی کریمﷺ کی شانِ اقدس کے حوالے سے انسان اُس وقت مزید حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے جب وہ قرآن مجید کو پڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو نبی کریمﷺ کے اخلاقِ عالیہ اور آپﷺ کی شخصیت مبارکہ کی تعریف کرتے ہوئے دیکھتا ہے۔ اگر خالقِ کائنات خود نبی کریمﷺ کی ستائش اورتحسین فرماتا ہے تو اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں کہ آپﷺ کی شخصیت کس قدر غیر معمولی اوصاف کی مالک ہے۔ آپﷺ کے منصب کی کیفیت یہ ہے کہ سورۃ النساء کے مطابق‘ جو آپﷺ کی اطاعت کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔ سورۃ الاحزاب کے مطابق نبیﷺ کی ذات میں اللہ تعالیٰ نے بہترین نمونہ رکھا ہے اور سورۂ آلِ عمران کے مطابق یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو آپﷺ کی اتباع کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی محبتوں کا مرکز بن جاتا ہے۔
نبی کریمﷺ کی ذات کی عظمت کے اس اعتراف کے ساتھ ساتھ اہلِ ایمان پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آپﷺ کی اطاعت میں کسی قسم کی کمی اور کوتاہی نہ کریں۔ جہاں آپﷺ کی کوئی بات آ جائے‘ وہاں فوراً سر تسلیم خم کر دیں۔ نبی کریمﷺ کی بات نہ صرف یہ کہ امورِ شریعہ اور امورِدینیہ میں ایک حجت کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی جہاں آپﷺ کے واضح ارشاداتِ عالیہ‘ توجیحات اور احکاماتِ قطعیہ موجود ہوں‘ ان کے مقابلے میں کسی دوسرے شخص کی بات کو تسلیم کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ جیسے ائمہ‘ مجتہدین اور علما کی باتیں آپﷺ کی احادیث مبارکہ اور سنتِ مطہرہ کے مقابلے میں حجت نہیں بن سکتیں ویسے ہی دنیا کے فلاسفرز‘ سیاسی رہنمائوں اور تجزیہ کاروں کی باتیں بھی نبی کریمﷺ کے فرامین مبارک کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ یہاں تک کہ قانون ساز ادارے اور عدالتیں بھی اگر کسی موقع پر لاعلمی کی بنا پر کوئی ایسی بات کر گزریں جو آپﷺ کے فرامین مبارک کے ساتھ مطابقت نہ رکھتی ہو تو ان کی باتیں بھی اہلِ اسلام وایمان کیلئے کسی حیثیت کی حامل نہیں۔ حضرت محمد کریمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ نے آپ کو کسی ایک علاقے یا محدود وقت کیلئے قائد وہادی بنا کر مبعوث نہیں فرمایا بلکہ رہتی دنیا تک کیلئے آپﷺ کی شخصیت ایک حجت کی حیثیت رکھتی ہے اور آپﷺ کے اسوہ پر چلنا ہر عہد کے انسانوں کیلئے اتناہی ضروری ہے جتنا قرونِ اولیٰ کے لوگوں کیلئے ضروری تھا۔ نبی کریمﷺ کے احکامات کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ہی مائیکل ہارٹ نے اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ آپﷺ دنیائے روحانیت کی ساتھ ساتھ دنیائے مادیت کے بھی مقتدیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کو بطورِ احسان ذکر کیا ہے کہ آپﷺ کتاب وحکمت کی تعلیم بھی دیتے رہے اور انسانوں کا تزکیہ بھی فرماتے رہے؛ چنانچہ کوئی بھی شخص اگر علم وحکمت کے موتیوں کو سمیٹنا چاہتا ہے تو اس کو رسول کریمﷺ کی ساتھ اپنی نسبت کو گہرا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اگر کوئی اپنی روحانی اور جسمانی تطہیر کا جذبہ رکھتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ نبی کریمﷺ کی اتباع کے راستے پر چلے۔
لوگوں نے خطاب کو بڑی توجہ کے ساتھ سنا۔ اسکے بعد حفاظِ کرام میں اسناد تقسیم کی گئیں۔ شرکائے جلسہ کیلئے پُرتکلف ضیافت کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ ضیافت کے بعد حافظ شیر محمد اور ان کے رفقا نے بڑی محبت کے ساتھ ہمیں الوداع کیا اور یوں یہ کانفرنس بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوئی۔