مجھے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں بہت سے اہلِ علم سے ملاقات کا موقع ملا ہے۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ شہید کے دنیا بھر کے جید علماء سے گہرے مراسم تھے اور یہ علماء جب بھی پاکستان آتے تو والد گرامی سے ملاقات کرنے کیلئے بھی تشریف لاتے۔ بچپن ہی میں ڈاکٹر عبداللہ ترکی‘ ڈاکٹر عبداللہ صالح العبید اور امام کعبہ شیخ عبداللہ ابن سبیل سے ملاقات کا موقع ملا۔ عراق کے مشہور عالم دین ڈاکٹر بشار عواد معروف سے بھی عرا ق میں ملاقات کا موقع ملا۔ والد گرامی کے انتقال کے بعد بھی کئی نامور علماء سے ملاقات کا موقع ملتا رہا۔ کعبۃ اللہ کے امام اور عظیم عالم دین شیخ صالح بن حمید قریب دو برس قبل پاکستان تشریف لائے تو ان سے اسلام آباد میں ایک تفصیلی نشست ہوئی۔ اس نشست کے دوران بہت سے مفید علمی نکات پر گفتگوکرنے کا موقع ملا‘ بالخصوص نفسیاتی مسائل کے اسباب اور ان کے حل کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ شیخ صالح بن حمید کا علمی ذوق یقینا انتہائی بلند ہے اور ان کی گفتگو میں دلائل کے ساتھ ساتھ للہیت اور روحانیت بھی پائی جاتی ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں عالم اسلام کے نامور سکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تو جہاں وہ مختلف دینی مراکز میں گئے وہیں وہ ہمارے مرکز قرآن وسنہ میں بھی تشریف لائے اور طلبہ اور عوام الناس کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور بہت سی خوبصورت باتیں سامعین کے سامنے رکھیں۔ انہوں نے دعوتِ دین کے اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کیا اور دین کی دعوت کے حوالے سے جدوجہد کی رغبت دلائی۔ چند ماہ قبل ڈاکٹر بلال فلپس پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے بھی مختلف مقامات پر علمی نشستوں سے خطاب کیا۔ اسی طرح کی ایک یادگار نشست مرکز قرآن وسنہ میں بھی ہوئی جہاں ڈاکٹر بلال فلپس نے اپنے قبولِ اسلام کی روداد نہایت خوبصورت انداز میں بیان کی۔ انہوں نے بتلایا کہ کس انداز سے وہ دین اسلام کی طرف مائل ہوئے اور کس طرح بعد ازاں انہوں نے دینی علم کے حصول کیلئے اپنے آپ کو اس حد تک وقف کیے رکھا کہ تاحال ان کی علمی اور تدریسی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ ڈاکٹر بلال فلپس کی زیر نگرانی چلنے والی آن لائن اسلامک یونیورسٹی سے تاحال ہزاروں طلبہ استفادہ کر چکے ہیں۔ دنیا بھر سے علم کی پیاس رکھنے والے طلبہ اس یونیورسٹی سے رجوع کرتے ہیں۔ چند سال قبل مجھے برطانیہ کے بہت سے نو مسلم سکالرز سے بھی تبادلۂ خیال کرنے کا موقع ملا۔ عبدالرحیم گرین‘ یوسف چیمبرز اور حمزہ انڈریاس کے ساتھ ہونے والی یہ نشستیں انتہائی مفید رہیں اور ان کے اثرات تاحال میرے دل اور دماغ پر نقش ہیں۔
چند روز قبل جماعت اسلامی کے امور خارجہ کے ناظم آصف لقمان قاضی کا ایک دعوت نامہ موصول ہوا کہ قطر کے معروف عالم دین ڈاکٹر علی محی الدین القرۃ الداغی پاکستان تشریف لا رہے ہیں اور جماعت اسلامی کے مرکزی اجتماع سے خطاب کرنے کے ساتھ ساتھ لاہور کے بعض اہلِ علم سے ایک نشست کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔ آصف لقمان قاضی کے دعوت نامے نے ماضی کے اُس دور کی یاد تازہ کر دی جب میں قاضی حسین احمد مرحوم کے ساتھ تواتر سے ملاقاتیں کیا کرتا تھا۔ قاضی حسین احمد ایک انتہائی شفیق انسان تھے اور ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ میں نے دعوت نامہ موصول ہونے کے بعد اس نشست میں شرکت کا فیصلہ کیا اور 22 نومبر کو ظہر کی نماز کے بعد لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں منعقدہ اس نشست میں شرکت کی‘ جو واقعتاً ایک یادگار نشست ثابت ہوئی۔ ڈاکٹر علی محی الدین قرۃ الداغی 200 سے زائد کتابوں اور علمی مقالات پر کام کر چکے ہیں۔ فقہ‘ معیشت اور اسلامی احکامات کے پس منظر میں چھپی ہوئی حکمتیں اور مصالح ان کی دلچسپی کا اہم موضوع ہیں۔
جب میں اس مجلس میں شرکت کرنے کیلئے پہنچا تو راستے میں بادشاہی مسجد کے خطیب اور رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا عبدالخبیر آزاد سے ملاقات ہو گئی۔ مولانا عبدالخبیر آزاد سے پرانے راہ ورسم ہیں۔ ان سے جب بھی ملاقات ہوتی ہے‘ اس کے طبیعت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس دوران ماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کرنے کا موقع ملا۔ اسی طرح مجلس میں برادر عزیز مولانا عبدالغفار روپڑی‘ ڈاکٹر حسن مدنی اور دیگر علمی شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر ڈاکٹر علی محی الدین نے علماء کے سامنے جن باتوں کو رکھا ان میں سے بعض کو قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں۔ ڈاکٹر علی محی الدین نے علماء سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا دین اسلام زندگی گزارنے کا سب سے بہترین اور پسندیدہ راستہ ہے۔ اسلام میں دین ودنیا کے مابین توازن کی جو راہ دکھلائی گئی ہے‘ وہ ہر اعتبار سے مثالی ہے۔ جہاں ہمیں اپنی زندگی کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈھالنا چاہیے وہیں معاشرے کی تعمیر وترقی کیلئے بھی علمی‘ فکری اور عملی کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں نبی کریمﷺ کی سیرت کے بہت سے اہم پہلو بیان کیے کہ آپﷺ نے جہاں توحید کی اہمیت اور شرک کی سنگینی کو واضح کیا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر حلال وحرام کے فرق کو لوگوں کے سامنے واضح کیا اور لوگوں کو بہترین زندگی گزارنے کا راستہ بتلایا وہیں آپﷺ نے دنیاوی معاملات میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہترین انداز سے رہنمائی کی۔ آپﷺ نے اپنے دور کے دنیاوی علوم کے ماہرین اور اطبا کی رائے کو کئی معاملات میں نہ صرف قبول کیا بلکہ ان کی مفید اور قابل قبول آرا کو اختیار کرنے کی اجازت دی۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ دینی اور دنیاوی‘ ہر دو اعتبار سے ایک مثالی زندگی ہے۔ آپﷺ جہاں حقوق الٰہی کی ادائیگی کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں لمبے قیام اور سجود فرماتے تھے وہیں دکھی انسانیت کی خدمت کیلئے بھی وقف رہا کرتے تھے۔ خلفائے راشدینؓ نے بھی اسی اسلوب کو اختیار کیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کے لیے وقف رہے۔ خلفائے راشدین نے رعایا کی خدمت کے لیے جس طرح کے اقدامات کیے یقینا وہ آج بھی دنیا کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے جو تعلیمات انسانیت کو دیں‘ ان میں دین اور دنیا کی بھلائی کے حصول کیلئے کی جانے والی کوششوں کی ترغیب بھی شامل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دین و دنیا میں توازن رکھتے اور رہبانیت کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی معاشی‘ معاشرتی اور دیگر سماجی ذمہ داریوں کو بھی بطریق احسن نبھایا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت: 201 میں ایک بہترین دعا کا ذکر کیا ہے جو بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے حجر اسود اور رکن یمانی کے مابین مانگی جاتی ہے: (ترجمہ) ''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘‘۔ ہمیں اس دعا کوحج وعمرہ کے علاوہ بھی لبوں پر جاری وساری رکھنا چاہیے اور اپنے عقائد‘ عبادات اور اعمالِ صالحہ کی اصلاح کے ساتھ ساتھ حلال وحرام کا امتیاز کرتے ہوئے معاشی‘ معاشرتی اور دیگر ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک دور تھا کہ جب مسلمان تفسیر‘ حدیث اور فقہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ سائنسی اور عصری علوم میں بھی ممتاز تھے لیکن افسوس کہ بتدریج مسلمان علم وعمل کی راہوں کو فراموش کرکے زوال کے راستے پر چل نکلے۔
ڈاکٹر علی محی الدین قرۃ الداغی کے ساتھ ہونے والی اس یادگار علمی نشست کے بعد شرکائے مجلس کا ان کے ساتھ تعارف ہوا تو انہوں نے بہت ہی گرمجوشی کے ساتھ علماء سے ملاقات کی۔ بعد ازاں تقریب کے شرکا کیلئے ایک پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس دوران بھی ڈاکٹر علی محی الدین کے ساتھ مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ یوں یہ نشست اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوئی۔