میرے گھر کے قریب واقع جامع مسجد کے خطیب اور امام قاری ظفر اقبال ایک ملنسار شخص ہیں۔ وہ تبلیغ دین کے ساتھ انتہائی مخلص اور نمازیوں کے ساتھ بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں۔ گزشتہ کئی برس سے ترجمہ وتفسیرِ قرآن کی کلاس پڑھا رہے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے ترجمۂ قرآن کا دور مکمل کیا۔ اسی طرح ان کے کم سن بیٹے اور بیٹی نے گزشتہ دنوں قرآن مجید کے حفظ کو مکمل کیا۔ قاری ظفر صاحب نے قرآن مجید کے ترجمے کی تکمیل اور اپنے بچوں کے حفظِ قرآن کی مناسبت سے 6 دسمبر کو عظمتِ قرآن کانفرنس کا انعقاد کیا‘ جس میں بہت سے علماء کرام کو مدعو کیا گیا جنہوں نے اپنی معروضات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ اس موقع پر میں نے بھی عظمتِ قرآن کے حوالے سے اپنی چند گزارشات سامعین کے سامنے رکھیں‘ جنہیں کچھ کمی بیشی اور ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں :
قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ وہ کتاب ہے جس کے منجانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اگر ہم اس کے مُنزل من اللہ ہونے کے دلائل پر غور کریں تو بہت سے نکات سامنے آتے ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ محفوظ ہونا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے تورات‘ زبور اور انجیل جیسی کتابوں کو بھی نازل کیا اور کچھ دیگر صحائف بھی اتارے لیکن ان کی حفاظت علماء کے ذمے کی۔ امتدادِ زمانہ کے ساتھ ان کتابوں میں کمی بیشی اور ترامیم ہوتی رہیں؛ چنانچہ آج ان کتابوں کی اصل حالت کو بھانپنا ناممکن ہو چکا ہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب قرآن مجید کو نازل فرمایا تو ساتھ ہی اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود لی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحجر کی آیت: 9 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے ہی اس ذکر (قرآن) کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘۔ دو نمایاں طریقوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ ایک تو اس کو سابقہ کتابوں کی طرح تحریر کیا گیا اور دوسرا اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کے سینوں میں محفوظ کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل و رحمت سے چودہ سو سال سے مسلمانوں کی مساجد میں تراویح کی نماز کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ جس وقت امام تلاوت کرتے ہوئے کوئی غلطی کرے تو اس کو لقمہ دینے کیلئے سامع موجود ہوتا ہے۔ ہر ہر مسجد میں قرآن مجید کو یاد رکھنے والے حفاظ موجود ہوتے ہیں اور مسجد سے متصل مدارس میں حفظِ قرآن کی کلاسوں میں لوگ اللہ کے کلام کو یاد کرنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں اور ہر سال سالانہ تقریبِ امتحانات سے بہت سے نئے حفاظ منظر عام پر آتے ہیں۔ قرآن مجید کے نزول کی وجہ سے زبانِ عربی کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے تغیر وتبدل سے پاک کر دیا اور چودہ سو برس کے بعد بھی یہ زندہ زبان کی حیثیت سے قائم اور دائم ہے۔
2۔ داخلی اختلاف کا نہ ہونا: قرآن مجیدکے مُنزَل من اللہ ہونے کی یہ بھی دلیل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ کلام داخلی اختلافات سے پاک ہے۔ بڑے سے بڑے شعرا کے کلام میں بھی داخلی تضادات اور اختلافات پائے جاتے ہیں‘ وہ اس لیے کہ انسانی عقل‘ تجربات اور مشاہدات میں ترقی کی وجہ سے مخلوق کے کلا م میں داخلی اختلاف کا ہونا عام بات ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا علم قدیم ہے اور اس کی حکمت ازلی ہے۔ اس لیے اللہ کا کلام اس قسم کے عیوب سے ماورا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 82 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقینا اس میں بہت کچھ اختلاف پاتے‘‘۔
3۔ بے نظیرکلام: قرآن مجید ایک ایسا کلام ہے جس کی مثل کو پیش کرنا ناممکن ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن میں جا بجا مقامات پر اس بات کا اعادہ کیا کہ اس قرآن پر تنقید کرنے والے اگر سچے ہیں تو اس جیسے کلام کو پیش کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ طور کی آیت: 34 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اچھا! اگر یہ سچے ہیں تو بھلا اس جیسی ایک (ہی) بات یہ (بھی) تو لے آئیں‘‘۔ سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کو واضح کیا کہ روئے زمین کے انسان اور جنات جمع ہو کر بھی اس کلام کی نظیرکو پیش نہیں کر سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بنی اسرائیل کی آیت: 88 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کُل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ (آپس میں) ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات: 23 تا 24 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمہیں شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورۃ تو بنا لائو‘ تمہیں اختیار ہے کہ اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو۔ پس اگر تم نے نہ کیا اور تم ہرگز نہیں کر سکتے تو (اسے سچا مان کر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں (اور) جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے‘‘۔
4۔ اہلِ کتاب کے علماء کا قرآن مجید کو پہچاننا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس بات کو بھی واضح فرمایا ہے کہ اہلِ کتاب کے اہلِ علم لوگ اس قرآن مجید کو پہچان جاتے ہیں کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ہے۔ سورۃ الشعراء کی آیت: 197 میں ارشاد ہوا ''کیا انہیں یہ نشانی کافی نہیں کہ حقانیت قرآن کو تو بنی اسرائیل کے علماء بھی جانتے ہیں‘‘۔
جب ہم کتب احادیث اور سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اہلِ کتاب کے غیر جانبدار لوگ جب بھی کلام اللہ کو سنتے تھے‘ وہ اس پر ایمان لے آیا کرتے تھے۔ پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت ورقہ بن نوفل نے قرآن مجید کی کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی‘ جس کا ذکر صحیح بخاری کی ایک مفصل حدیث میں موجود ہے۔ اسی طرح شاہِ حبشہ نجاشی کے پاس جب مسلمانوں نے پناہ لی تو کفارِ مکہ مسلمانوں کا تعاقب کرتے ہوئے حبشہ پہنچ گئے اور وہاں کے نصرانی حاکم نجاشی کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ مسلمان سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بارے میں نامناسب نظریات رکھتے ہیں۔ جب حضرت جعفر طیارؓ نے شاہِ حبشہ کے سامنے کلام اللہ کی اُن آیات کی تلاوت کی جن میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا ذکر تھا تو نجاشی نے نہ صرف ان آیات کی حقانیت کی تصدیق کی بلکہ فی الفور اسلام قبول کر لیا۔ حضرت عبداللہؓ بن سلام یہود کے بہت بڑے عالم تھے لیکن اسلام کی پُراثر اور سچی دعوت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے۔ یہ سلسلہ عہد رسالت مآب سے لے کر آج تک جاری وساری ہے۔
مجھے متعدد مرتبہ برطانیہ کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس دوران بہت سے ایسے مبلغین سے بھی ملاقات ہوئی جو ماضی میں مسیحی تھے۔ عبدالرحیم گرین‘ یوسف چیمبرز اور حمزہ انڈریاس اس حوالے سے بڑی مثالیں ہیں۔ یوسف ایسٹس نے بھی اسلام کی آفاقی دعوت سے متاثر ہو کر دین حنیف کو قبول کیا۔ کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر بلال فلپس پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے بھی اس بات کا ذکر کیا کہ وہ اسلام کی آفاقی دعوت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی خواہر نسبتی (سالی) بھی اسلام کی آفاقی دعوت سے متاثر ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہو چکی ہیں۔ اسلام کے بارے میں انتہائی متعصبانہ رویہ رکھنے والے نیدر لینڈز کے گیرٹ وائلڈرز کے قریبی ساتھی وین کلیورن بھی دین اسلام کا تحقیقی مطالعہ کرنے کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں۔
ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس عطا پر انتہائی شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہمیں قرآن کریم جیسی عظیم کتاب کا وارث بنایا ہے۔ ہمیں اس کتاب کے ساتھ وابستگی اختیار کرتے ہوئے اس کے آفاقی پیغام پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں۔