"RKC" (space) message & send to 7575

حسینہ واجد کا انتقام

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے بیٹے کو سترہ سال بعد جلاوطنی ختم کر کے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اترتے دیکھا تو مجھے ٹھیک سترہ سال پہلے کی حسینہ واجد کی واپسی یاد آئی‘ جو اسی طرح لندن سے واپس آئی تھیں جیسے اب طارق رحمن واپس آیا ہے۔ میں اُس وقت ڈھاکہ میں تھا جب حسینہ واجد نے 2008ء کے الیکشن میں بڑے مارجن سے فتح حاصل کی تھی۔ میں اگرچہ حسینہ واجد کی ڈھاکہ واپسی سے پہلے ہی پاکستان واپس آگیا تھا لیکن ڈھاکہ کی فضاؤں میں لہو کی بو سونگھ چکا تھا۔ اس وقت خالدہ ضیا کا یہی بیٹا طارق رحمن‘ جس کے بارے اب کہا جا رہا ہے کہ شاید وہ اگلے سال الیکشن کے بعد وزیراعظم بن جائے‘ حسینہ واجد کے الیکشن جیتنے کے بعد بنگلہ دیش چھوڑ گیا تھا کیونکہ اس پر بھی مقدمے قائم ہونے کا خدشہ تھا اور بعد میں مقدمے قائم بھی ہوئے۔ خالدہ ضیا خود بنگلہ دیش چھوڑ کر نہیں گئی تھیں لیکن بیٹے کو بھیج دیا تھا۔ وہی بات کہ والدین خود جیل کی سختیاں برداشت کر لیتے ہیں لیکن اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے مشکلات میں نہیں دیکھ سکتے۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا‘ حسینہ واجد نے خالدہ ضیا اور جماعت اسلامی کے لیڈروں کو گرفتار کرایا اور انہیں دھڑا دھڑ پھانسیاں لگوانے لگیں۔ پھانسی کی سزا پانے والوں میں ہمارے اسحاق خاکوانی کے دوست صلاح الدین قادر چودھری بھی شامل تھے جو چٹاگانگ سے پانچ دفعہ مسلسل ممبر اسمبلی منتخب ہوئے اور ان کا شمار پاکستان کے دوستوں میں ہوتا تھا۔ حسینہ واجد کا بس چلتا تو وہ خالدہ ضیا کو بھی پھانسی لگاتیں لیکن اس خطے میں ابھی عورت کو پھانسی دینے کے فیصلے کو عوامی قبولیت نہیں ملی۔ یہی عوامی یا عالمی خوف تھا کہ خالدہ ضیا کو جیل میں ڈال کر سزا دی گئی۔ اب لیکن حالات پلٹ چکے ہیں۔
حسینہ واجد کے خلاف عوامی بغاوت کو اگرچہ سوا سال سے زیادہ گزر گیا ہے لیکن میں ابھی تک اس پورے عمل کو ہضم نہیں کر پا رہا۔ آپ پوچھیں گے کہ ایسی کون سی اَنہونی ہوگئی ہے۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب مقبول ترین حکمرانوں کے خلاف بغاوتیں ہوئیں اور انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا یا ان بغاوتوں کے نتیجے میں وہ مارے گئے۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں‘ انسانی تاریخ میں یہی کچھ ہوتا رہا ہے لیکن میں بھی کچھ غلط نہیں سوچ رہا۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں ہو ا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے‘ وہ انسانی تاریخ کے حوالے سے حیران کن نہیں ہے لیکن جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ یقینا حیران کن ہے۔ جب میں نے حسینہ واجد کے خلاف اچانک عوامی انقلاب ابھرتے دیکھا تو مجھے 2008ء کا ڈھاکہ یاد آیا‘ جب میں نے کراچی سے ڈھاکہ کیلئے فلائٹ پکڑی تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد بھی اس فلائٹ میں تھے۔ انہوں نے ڈھاکہ ایئر پورٹ پر اُتر کر اُس سرزمین پر سجدہ کیا تھا جو کبھی ہمارا حصہ تھی۔ میں تب پہلی اور آخری دفعہ ڈھاکہ گیا تھا لیکن میں نے بنگلہ دیش کے بارے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ عظیم بنگالی ادیب رابندراناتھ ٹیگور کی کہانیاں پڑھی تھیں خصوصاً ''کابلی والا‘‘ جو آج تک میرے حواس پر چھائی رہتی ہے۔ اگرچہ ٹیگور سے زیادہ تعارف اس وقت زیادہ ہوا جب میں نے لندن سے اندرا گاندھی کی زندگی پر لکھی گئی ایک شاندار آٹو بائیوگرافی خریدی اور اسے پڑھنا شروع کیا۔ ابھی کچھ ابواب باقی تھے کہ ایک کالم نگار دوست نے مانگ لی جسے انکار نہ کر سکا۔ خیر اُنہی دنوں ایک دوست لندن سے آرہا تھا‘ اسے کہا کہ یار واٹر سٹون بک سٹور سے اس کی ایک کاپی لیتے آنا۔ اندرا گاندھی پر بہت کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن ایسی کتاب شاید نہ لکھی گئی ہو۔ خیر اس کتاب میں جہاں دیگر کئی انکشافات ہیں وہاں یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ نہرو صاحب ٹیگور سے کتنے متاثر تھے۔ اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے اپنی اکلوتی بیٹی کو ٹیگور کے آشرم بھیجا تھا جو کلچرل اور تعلیمی مرکز تھا۔ میں نے اس کتاب کے ذریعے انسانوں کو بدلتے اور امارت ترک کرتے دیکھا۔ نہرو صاحب کے والد موتی لعل اپنے اکلوتے بیٹے نہرو کی انگریزوں کے خلاف تحریک سے بہت پریشان تھے کہ میرا بیٹا کن چکروں میں پڑ گیا ہے۔ لیکن پھر بدلتے حالات کے ساتھ موتی لعل خود کانگریس کے صدر بنے‘ جیل گئے‘ بیٹے کو بدلتے بدلتے خود بدل گئے۔ اس کتاب کو پڑھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ انسان کے اندر بدلنے کی بڑی صلاحیت ہوتی ہے۔ آج جب میں ہندوستان میں بی جے پی کے کارکنوں یا لیڈرشپ کو نہرو کے بارے سوشل میڈیا پر مہمات چلاتے دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ چلیں ہم پاکستانی نہرو صاحب کو مختلف آنکھ سے دیکھیں کہ ہمارے پاس کئی جواز ہو سکتے ہیں لیکن بھارتیوں کا ان پر تبرہ کرنا میرے لیے حیران کن ہے کیونکہ میں نے نہرو صاحب کو پڑھا ہے۔ ان کی انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور قید کی کہانیاں پڑھی ہیں۔ ایک امیر ترین وکیل کے اکلوتے بیٹے کو جیل کی دیواروں کے پیچھے دیکھا ہے۔ میں نے جن انڈین لیڈروں کے بارے پڑھا ہے ان میں سے مجھے گاندھی صاحب‘ نہرو صاحب‘ لال بہادر شاستری اور واجپائی نے متاثر کیا ہے۔ مان لیا کہ ہم ایک دوسرے کے شدید مخالف بن چکے ہیں مگر ایک زمانے میں دونوں ملکوں کے مابین خوشگوار تعلقات بھی تھے۔قرۃ العین حیدر نے اپنے شاہکار ناول ''آگ کا دریا‘‘ میں نہرو صاحب کے لاہور وزٹ پر جو کمنٹری لکھی وہ پڑھنے کے لائق ہے۔ وہی سکھ مسلمان جو چند برس پہلے ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہے تھے‘ وہ اب لاہور میں ایک دوسرے کے گلے لگ کر رو رہے تھے۔
خیر بات ہو رہی تھی ڈھاکہ کی کہ جہاں ہم اُترے تھے۔ وہاں جانے کی وجہ بنگلہ دیش کے الیکشن تھے جو دو سال کی ٹیکنوکریٹ حکومت کے بعد فوج کی نگرانی میں منعقد ہو رہے تھے۔ بنگلہ دیش نے بھی پاکستان جیسی قسمت پائی ۔ وہاں بھی شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد اور جنرل ضیا الرحمن کی بیوہ خالدہ ضیا کے درمیان لڑائی نے جمہوریت کو ویسے ہی کمزور کیا جیسے پاکستان میں میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کی لمبے عرصے تک جاری جنگ نے کیا۔ اگرچہ بینظیر بھٹو اورمیاں نواز شریف کو اس بات کی داد دینا ہو گی کہ جنہیں بالآخر یہ احساس ہو گیا کہ صلح کر لیتے ہیں۔ اگرچہ اس احساس کے پیچھے اصل وجہ جنرل مشرف تھے جو ان دونوں کو اقتدار میں واپس نہیں آنے دینا چاہتے تھے۔ ان دونوں کو جس بھی سیاسی مجبوری نے اکٹھا کیا ہو‘ لیکن حسینہ واجد اور خالدہ ضیا یہ راستہ نہ لے سکیں۔ دونوں اپنے اپنے خول میں بند رہیں اور یوں اپنے باپ اور خاوند کی دشمنیوں کی وراثت کا تحفظ کرتے کرتے دونوں بنگلہ دیشی عوام کو وہ جمہوری سکون نہ دے سکیں جو انہیں چاہیے تھا۔ یہ بات طے ہے کہ تیسری دنیا کے ملکوں کا سیاستدان ہمیشہ نفرت پر پلتا اور جوان ہوتا ہے۔ اس کے نزدیک اقتدار کا راستہ اس کے ذاتی کردار یا کارکردگی سے زیادہ مخالفین پر گند اچھالنے یا انتقام سے گزر کر جاتا ہے‘ لہٰذا آپ کو پاکستان سے بھارت یا بنگلہ دیش تک سب سیاستدانوں میں ایک بات مشترک ملے گی اور وہ ہے ایک دوسرے پر گند اچھالنا۔
سترہ سال پہلے جب حسینہ واجد لندن سے فلائٹ پکڑ کر مخالفوں کو جیلوں میں ڈالنے اور پھانسیاں لگانے آرہی تھیں تو طارق رحمن ڈھاکہ چھوڑ کر لندن جانے کی تیاریاں کررہے تھے۔ آج طارق رحمن لوٹ آئے ہیں اور حسینہ واجد کو بھارت میں جلاوطنی میں پھانسی کی سزا سنائی جا چکی ہے۔ وہ انتقام کی آگ میں جل کر دوسروں کو پھانسیاں لگاتے لگاتے خود پھانسی کی سزاوار ٹھہری ہیں۔ اب یہ نہیں پتہ کہ حسینہ واجد نے اپنے اور باپ کے دشمنوں سے انتقام لیا یا خود سے۔ وہی انگریزی کا مقولہ یاد آتا ہے: Those who live by the gun, they die by the gun.

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں