اب آ جاتے ہیں بھارت بنگلہ دیش اختلافات پر جو ہمارا اصل موضوع ہے۔ دو کالم تو تمہید باندھنے میں ہی گزر گئے۔ دونوں ملکوں کے معاملات کی 54سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے باہمی تعلقات ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ چونکہ بنگلہ دیش بنوانے کے پیچھے بھارت ہی کی سازش کارفرما تھی تو بھارتی حکومتیں ہر دور میں بنگلہ دیش کو یہ احسان جتاتی اور اپنے زیرِ بار رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ کچھ بنگلہ حکومتیں زیر بار آ جاتی رہی ہیں جیسے حسینہ واجد کی حکومت‘ اور کچھ بھارت کے سامنے اکڑ بھی جاتی رہی ہیں جیسے بنگلہ دیش کی موجودہ عبوری حکومت۔ اب ہوتا یہ رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں جب جب عوامی لیگ اور اس کی حامی پارٹیوں کی حکومت آتی بنگلہ دیش اور بھارت ایک دوسرے کے قریب رہتے لیکن جب کوئی اور پارٹی برسر اقتدار آ جاتی تو دونوں ملکوں کے تعلقات خراب ہو جاتے‘ جیسا کہ گزشتہ برس حسینہ واجد کے ملک سے فرار ہونے کے بعد سے بنگلہ دیش اور بھارت کے تعلقات خراب چلے آ رہے ہیں۔
حسینہ واجد کو چونکہ طلبہ تحریک کی وجہ سے فرار ہو کر بھارت جانا پڑا تھا اور بنگلہ دیش میں بھارت کے لیے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے‘ اس لیے بھارت کی طرف سے شیخ حسینہ واجد کا تختہ الٹنے والی طلبہ تحریک کے متعدد رہنماؤں کو سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کرنے کی دھمکیاں دی گئی ہیں اور یہ سلسلہ شروع بھی ہو چکا ہے۔ شریف عثمان بن ہادی کو 12دسمبر کو کچھ لوگوں نے گولیاں ماریں جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا اور 18دسمبر کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گیا۔
بھارت دوسرے ممالک میں ٹارگٹ کلنگ میں مہارت رکھتا ہے۔ اس کے کئی ثبوت اور اعترافات موجود ہیں۔ امسال یکم جنوری کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ سامنے آئی جس میں بھارتی حکومت کی سرپرستی میں پنپنے والی دہشت گردی کو بے نقاب کیا گیا تھا۔ اخبار نے لکھا تھا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے اُجرتی قاتلوں کے ذریعے پاکستان میں چھ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی تھی۔ امریکی اخبار کے مطابق اپریل 2024 ء میں دو نقاب پوشوں نے لاہور میں تانبہ نامی شخص کو‘ جس کا اصل نام عامر سرفراز تھا‘ گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ اخبار نے یہ انکشاف بھی کیا کہ بھارت نے امریکہ‘ کینیڈا اور مغربی ممالک میں بھی ماورائے عدالت قتل کیے۔ کینیڈا میں سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کا قتل بھی پرانی بات نہیں ہے۔ بھارت نے اسے دہشت گرد قرار دے رکھا تھا۔ کینیڈین پولیس کے مطابق کینیڈا میں انڈین ایجنٹس خالصتان کے حامی افراد کے خلاف قتل‘ بھتہ خوری اور پُرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ کشمیر میڈیا سروس کی 28ستمبر 2025ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی عدالت میں جمع کرائے گئے نئے شواہد سے انکشاف ہوا ہے کہ بھارت کے ایک انٹیلی جنس اہلکار کے ساتھ مل کر چلایا جانے والا اُجرتی قتل نیٹ ورک صرف امریکہ تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں پاکستان اور نیپال میں بھی ٹارگٹ کلنگ کی منصوبہ بندی شامل تھی۔
بھارتی حکومت اور خفیہ ایجنسیاں دوسرے ممالک میں یہ سب کچھ کرتی پھر رہی ہیں اور بھارت کے داخلی حالات یہ ہیں کہ اپنے حقوق کے تحفظ اور زمینوں پر قبضوں کے خلاف آسام کے مختلف قبائلی علاقوں میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں‘ جو بعض مقامات پر پُرتشدد صورت اختیار کر چکے ہیں۔ مودی حکومت نے آسام میں ہنگاموں کے پیشِ نظر انٹرنیٹ پر پابندی لگا دی ہے اور علاقے میں کرفیو بھی نافذ کیا گیا ہے۔ اب تو سوال یہ اٹھایا جانے لگا ہے کہ آیا آسام سے شروع ہونے والے پُرتشدد ہنگامے علاقے کی دوسری سسٹر سٹیٹس تک بھی پھیل جائیں گے کیونکہ بنگلہ دیش کی نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے رہنما حسنات عبداللہ نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈھاکہ بھارت مخالف قوتوں‘ بشمول علیحدگی پسند گروہوں‘ کو پناہ دے سکتا ہے جس کے نتیجے میں بھارت کے شمال مشرقی خطے المعروف 'سیون سسٹرز‘ (اروناچل پردیش‘ آسام‘ منی پور‘ میگھالیہ‘ میزورم‘ ناگالینڈ اور تریپورہ) کو الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے۔ اس بیان کے بعد بھارتی فوج کے سابق میجر نے حسنات عبداللہ کو اگلی باری تمہاری کی دھمکی دی‘ جبکہ ایک سابق بھارتی کرنل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ان کی جان کے لیے خطرے کی دھمکی دی تھی۔
ڈی ڈبلیو نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان سفارتی تعلقات ایک نازک موڑ پر پہنچ چکے ہیں کیونکہ ڈھاکہ نے 22دسمبر کو نئی دہلی اور اگرتلہ میں اپنے مشنز پر ویزا اور قونصلر خدمات احتجاج کے بعد معطل کر دی ہیں۔ اس طرح دونوں ملکوں کے مابین ایک طرح سے رابطہ منقطع ہو گیا ہے۔ بی بی سی نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے انڈیا اور بنگلہ دیش کے تعلقات میں تاریخی گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق بنگلہ دیش کے معاملے پر انڈیا اس وقت ایک کشمکش سے گزر رہا ہے اور شیخ حسینہ کے پندرہ برس کے اقتدار کے بعد اب ڈھاکہ میں انڈیا کو اپنا کوئی دوست نظر نہیں آ رہا ہے۔
یہ سننے میں آیا ہے کہ بھارت نے اپنا اسلحہ و ہتھیار بنگلہ دیش کی سرحد کے قریب ڈپلائے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ کیا بنگلہ دیش بھارت کے لیے اتنا بڑا خطرہ بن چکا ہے؟ اور کیا بھارت بنگلہ دیش پر حملے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟ یہ سوال اس لیے اٹھتا ہے کہ اگر بھارت نے بنگلہ دیش پر حملہ کیا تو اس حملے کا جواب بنگلہ دیش کی جانب سے بھارت کی چکن نیک دبانے کی شکل میں سامنے آئے گا اور اس عمل میں چین اور پاکستان بنگلہ دیش کی مدد کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اس سارے منظر نامے میں چین کے لیے اروناچل پردیش اور پاکستان کے لیے مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کی راہ نکل آئے۔ ویسے بھی بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہونے جا رہا ہے کیونکہ سکھوں کی تنظیم سکھ فار جسٹس نے شمال مشرقی بھارت میں ایک محفوظ مسیحی وطن ''ٹرمپ لینڈ‘‘ کا نقشہ جاری کیا ہے اور سکھ فار جسٹس‘ جو عالمی خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کر رہی ہے‘ نے با ضابطہ طور پر ''ٹرمپ لینڈ ‘‘ کی تجویز پیش کی ہے۔ تنظیم کے مطابق یہ مجوزہ خطہ امریکی صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے نام سے منسوب کیا جائے گا۔ سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے امریکی صدر سے اس معاملے میں براہِ راست مداخلت کی اپیل بھی کی ہے۔
ہٹلر کی وجہ سے جرمنی ٹکڑے ٹکڑے ہوا‘ گورباچوف کی پالیسیوں نے سوویت یونین کے پرخچے اڑا دیے اور آج اس کا نام و نشان نہیں ملتا۔ اب یہی حشر نریندر مودی کی انتہا پسند سرکار بھارت کا کر رہی ہے۔ یہ بات اب تسلسل کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ حالات اسی شدت اور تیزی سے آگے بڑھتے رہے تو نریندر مودی بھارت کے گوربا چوف بن سکتے ہیں۔ بھارت پڑوسی ممالک پر غلبہ پانے کے چکروں میں خود بکھر جائے گا جس کی ساری ذمہ داری نریندر مودی پر ہو گی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس کا آغاز بھارت کی جانب سے بنگلہ دیش پر حملے کی صورت میں ہو گا؟