ہر شخص اپنی زندگی میں مختلف ادوار سے گزرتا ہے۔ کئی مرتبہ اُس کو ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن کو حل کرنے میں وہ بہ آسانی کامیاب ہو جاتا ہے لیکن بسا اوقات اس کا پالا ایسی مشکلات اور تکالیف سے پڑتا ہے کہ تمام تر وسائل اور توانائیوں کے استعمال کے باوجود اس کیلئے آسانی کا راستہ پیدا نہیں ہوتا۔ ایسے مواقع پر بہت سے افراد مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کی قوتِ عمل بھی سلب ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے کتاب وسنت میں بہترین انداز میں ہماری رہنمائی کی گئی ہے اور انسانوں کو اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ انہیں کسی بھی حالت میں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الزمر کی آیت: 53 میں ارشاد فرماتے ہیں ''(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جائو‘ بالیقین اللہ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے‘ واقعی وہ بڑی بخشش بڑی رحمت والا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ یوسف میں اس بات کی تلقین کی ہے کہ انسان کو اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ سورۂ یوسف کی آیت: 87 میں ارشادِ ربانی ہے ''اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔ یقینا رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں‘‘۔ قرآن مجید کی ان آیات میں اہلِ ایمان کیلئے یہ پیغام ہے کہ حالات کتنے بھی گمبھیر کیوں نہ ہوں‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے مشکلات کو دور کرنا کچھ مشکل نہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بہت سے ایسے واقعات بیان کیے ہیں کہ جہاں ان کی مشکلات اپنی انتہا کو پہنچ گئیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کو اُن مشکلات سے آناً فاناً نجات دے دی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ یوسف میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے واقعے کا ذکر کیا کہ ان کو طویل عرصہ تک حضرت یوسف علیہ السلام کی جدائی برداشت کرنا پڑی ‘یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب وہ اپنے دوسرے بیٹے بنیامین سے بھی جدا ہو گئے۔ بنیامین کی جدائی کے بعد بھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں کو اسی بات کی تلقین کی کہ انہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی امید کو اس انداز میں پورا کیا کہ حالات کا رُخ یکسر اُن کی طرف پھیر دیا اور ان کو اس تکلیف دہ غم سے نجات عطا فرما دی۔ ان کو نہ صرف بنیامین بلکہ برسوں قبل بچھڑے بیٹے یوسف علیہ السلام سے بھی بڑے باوقار انداز میں ملا دیا اور دنیاوی جاہ و جلال سے بھی نوازا۔ اس واقعے میں اہلِ ایمان کیلئے رہنمائی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے انسانوں کے حالات کو تبدیل کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانبیاء میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعے کا ذکر کیاکہ وہ جب مچھلی کے پیٹ میں تھے تو انہوں نے اللہ کو پکارا اور اللہ نے ان کی مشکل کو دور فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانبیاء کی آیات: 87 تا 88 میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''مچھلی والے (یونس علیہ السلام) کو یاد کرو! جبکہ وہ غصے سے چل دیا اور خیال کیا کہ ہم اسے نہ پکڑ سکیں گے۔ بالآخر وہ اندھیروں کے اندر سے پکار اٹھا کہ الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے‘ بیشک میں ظالموں میں ہو گیا۔ تو ہم نے اس کی پکار سن لی اور اسے غم سے نجات دے دی اور ہم ایمان والوں کو اسی طرح بچا لیا کرتے ہیں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعے کا بھی ذکر کیا کہ آپ علیہ السلام فرعون کے ظلم اور انتقام سے بچنے کیلئے اپنی بستی کو خیرباد کہہ کے ایک اجنبی بستی میں چلے گئے۔ اس اجنبی بستی میں جہاں آپ کی کسی کے ساتھ کوئی واقفیت نہ تھی‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ علیہ السلام کی رہائش اور معیشت کا بہترین انداز میں بندوبست فرما دیا اور اہلِ ایمان کو اس بات کا سبق دیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کیلئے اپنے بندوں کے حالات کو تبدیل کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ القصص کی آیات: 22 تا 28 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جب (موسیٰ علیہ السلام) مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے: مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا۔ جب وہ مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں (اپنے مویشیوں کو) پانی پلا رہی ہے اور دو عورتیں الگ کھڑی اپنے (جانوروں کو) روکتی ہوئی دکھائی دیں۔ پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے؟ وہ بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتیں اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بزرگ ہیں۔ پس اس(موسیٰ) نے خود ان جانوروں کو پانی پلا دیا‘ پھر سائے کی طرف ہٹ آئے اور کہنے لگے: اے پروردگار! تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔ اتنے میں ان دونوں عورتوں میں سے ایک ان کی طرف شرم وحیا سے چلتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے (جانوروں) کو جو پانی پلایا ہے‘ اس کی اجرت دیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس پہنچے اور ان سے اپنا سارا حال بیان کیا تو وہ کہنے لگے: اب نہ ڈر! تُو نے ظالم قوم سے نجات پائی ہے۔ ان دونوں (لڑکیوں) میں سے ایک نے کہا کہ ابا جی! آپ انہیں مزدوری پر رکھ لیجیے کیونکہ جنہیں آپ اجرت پر رکھیں ان میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو۔ اس بزرگ نے کہا: میں اپنی ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو آپ کے نکاح میں دینا چاہتا ہوں‘ اس (مہر پر) کہ آپ آٹھ سال تک میرا کام کاج کریں۔ ہاں اگر آپ دس سال پورے کریں تو یہ آپ کی طرف سے بطور احسان کے ہیں‘ میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ آپ کو کسی مشقت میں ڈالوں‘ اللہ کو منظور ہے تو آگے چل کر آپ مجھے بھلا آدمی پائیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: تو یہ بات میرے اور آپ کے درمیان پختہ ہو گئی‘ میں ان دونوں مدتوں میں سے جسے پورا کروں مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو‘ ہم یہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس پر اللہ (گواہ اور) کارساز ہے‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری کا بھی ذکر کیا کہ اللہ نے ان کو طویل عرصے تک بیمار رکھا اور ان کی دعا کی وجہ سے بیماری کو دور فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعہ کو سورۃ الانبیاء کی آیات: 83 تا 84 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تُو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا‘ اسے دور کر دیا اور اس کو اہل وعیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لیے سببِ نصیحت ہو‘‘۔
جہاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام اللہ میں انبیاء کرام علیہم السلام کے بہت سے ایسے واقعات بیان کیے جن میں اہل ایمان کیلئے رہنمائی موجود ہے وہیں نبی کریمﷺ نے بہت سے ایسے واقعات بیان کیے جن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالات خواہ جیسے بھی کیوں نہ ہوں‘ انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔ یقینا وہی ذات تمام مصائب اور مشکلات کو دور کرنے والی ہے۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو ہر آن‘ ہر لحظہ اور ہر لمحہ اللہ کی رحمت سے پُرامید رہتے ہوئے اُس کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اسی کی ذات پر بھروسا کرنا چاہیے۔ جو شخص اللہ کی ذات پر بھروسا کرتا ہے‘ اللہ اس کیلئے کافی ہو جاتا ہے اور جو اُس کی بارگاہ میں آ کر دعائیں کرتا ہے‘ اللہ اُس کی فریادوں کو پورا فرماتا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اپنی رحمت سے پُرامید رہنے کی توفیق دے‘ آمین!