چند روز قبل اپنے گھر کے قریب مسجد میں نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد باہر نکلا تو میری ملاقات ایک نوجوان سے ہو گئی۔ نوجوان نے اپنا نام عبدالوکیل صدیقی بتایا۔ اس کے ہاتھ میں ایک اشتہار تھا جس میں کالج روڈ پر ایک کالونی میں ایک مسجد کی تعمیر کا ذکر تھا جس میں ڈاکٹر حماد لکھوی‘ ڈاکٹر حسن مدنی‘ ڈاکٹرشفیق الرحمن زاہد‘ ڈاکٹر عتیق الرحمن شہزاد‘ حافظ کوثر زمان اور دیگر اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا۔ نوجوان کی خواہش تھی کہ مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھی شریک ہوں۔ میں نے مساجد کی اہمیت کے پیش نظر فوراً سے پیشتر اس پروگرام میں شرکت کی ہامی بھر لی۔
23 نومبر کو جب ہم عصر کی نماز کے بعد مسجد کی تعمیر کے مقام پر پہنچے تو وہاں حاضرین کیلئے خوبصورت نشستوں کا اہتمام کیا گیا تھا اور تقریب میں بڑی تعداد میں علاقے کے معززین شریک تھے۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب نے مساجد کی اہمیت کے عنوان پر بڑی خوبصورت گفتگو کی۔ دیگر مقررین اور علماء بھی اپنے خیالات لوگوں کے سامنے رکھتے رہے۔ اس موقع پر مجھے بھی اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ میں نے جن باتوں کو سامعین کے سامنے رکھا‘ انہیں کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں :
جب سے انسان اس زمین پر آباد ہے‘ اس وقت سے انسانوں میں یہ بحث جاری ہے کہ انسان کی تخلیق کا اصل مقصد کیا ہے؟ اس سوال کا صحیح جواب اگر کوئی دے سکتا ہے تو وہ خود انسانوں کو پیدا کرنے والی ذات ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ انسانوں کو بنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الذاریات کی آیت: 56 میں ارشاد فرماتے ہیں ''میں نے جنات اور انسانوں کو محض اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں یکسوئی اور تنظیم کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیشہ سے بندگی و عبادت کے لیے اللہ کے گھروں کو تعمیر کیا جاتا رہا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس تعمیر کے واقعے کو قرآن مجید میں بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 127 میں ارشاد فرماتے ہیں ''ابراہیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اور دیواریں اٹھاتے جاتے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ اے ہمارے پروردگار! تُو ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما‘ تُو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔ بیت اللہ شریف کو اُس وقت وادیٔ بے آب وگیا ہ میں بنایا گیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی وادیٔ بے آب و گیا ہ میں اللہ کے گھر کے قریب ہی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سکونت کا مستقل طور پر بندوبست فرما دیا تاکہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے گھر کی آباد کاری کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور نماز کو بھی قائم کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اس گھر کے پاس آباد کیا تو ان کی معیشت اور لوگوں کے ان کی طرف مائل ہونے کی دعا بھی مانگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس واقعے کو سورۂ ابراہیم کی آیت: 37 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''(ابراہیم علیہ السلام نے کہا) اے ہمارے پروردگار! میں نے اپنی کچھ اولاد اس بے کھیتی کی وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسائی ہے۔ اے ہمارے پروردگار! یہ اس لیے کہ وہ نماز قائم رکھیں‘ پس تُو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے‘ اور انہیں پھلوں کی روزیاں عنایت فرما تاکہ یہ شکر گزاری کریں‘‘۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کے گھروں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو بیت اللہ کی تطہیر کی تلقین کی اور اس بات کو سورۃ البقرہ کی آیت: 125 میں کچھ یوں بیان فرمایا ''ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع (و) سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا‘‘۔
اسی طرح جب ہم سیرتِ نبوی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے بھی اپنی زندگی میں مساجد کی تعمیر کو بہت زیادہ اہمیت دی۔ جب آپﷺ مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے آپﷺنے قباء کی مسجدکی بنیاد رکھی اور جس وقت آپﷺ نے مدینہ طیبہ میں سکونت اختیار کر لی تو آپﷺ نے مسجد نبوی شریف کو تعمیر کیا۔ مسجد نبوی شریف کی تعمیر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھرپور دلچسپی لی اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنا کردار ادا کیا۔ مسجد قباء اور مسجد نبوی کو تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا تھا؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ مسجد کی تعمیر کی غرض وغایت کو قرآن مجید کی سورۃ التوبہ کی آیت: 108 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن ہی سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے وہ اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں (عبادت کیلئے)‘ اس میں ایسے لوگ ہیں کہ وہ خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ نے جہاں مساجد میں باجماعت نماز کا اہتمام کیا ہے‘ وہیں آپﷺ ہرسال رمضان کے ماہِ مقدس میں مسجد میں اعتکاف بھی فرماتے رہے۔ نبی کریمﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مساجد نہ صرف یہ کہ عبادات اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے مراکز تھے بلکہ ان میں قرآن اور حکمت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ لوگوں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت‘ تزکیہ اور طہارت کا اہتمام بھی کیا جاتا تھا۔ فتنوں کی بیخ کنی کے لیے لشکروں کو مسجد ہی سے روانہ کیا جاتا تھا۔ مختلف علاقوں کے وفود مسجد میں آکر ہی نبی کریمﷺ سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ نے مسجد نبوی شریف سے متصل اپنی رہائش رکھی اور مسجد کو اپنی توجہات اور روزمرہ زندگی کا معمول بنائے رکھا۔ آپﷺ بلاناغہ نمازِ پنجگانہ کی خود امامت فرماتے اور اس دوران صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ملاقات بھی کرتے اور ان کے مسائل کو سننے کے بعد ان کی رہنمائی بھی فرمایا کرتے۔
نبی کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسانوں کی سماجی ضروریات کے لیے جہاں کاروباری اور طبی سہولتوں کا ہونا نہایت ضروری ہے وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ تعلق کو استوار کرنے‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضے کو انجام دینے اور کتاب وسنت کی تدریس اور تعلیم کے لیے مساجد کا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔ مساجد میں پانچ وقت اذان دی جاتی ہے۔ اس دوران جہاں مؤذن لوگوں کو نماز کی طرف آنے کی دعوت دیتا ہے وہیں انسانوں کو فلاح یعنی کامیابی کی طرف آنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مساجد اللہ کی عبادت کے ساتھ انسانوں کی فلاح کے مراکز بھی ہیں۔ چنانچہ مساجد کا قیام‘ ان کی آباد کاری اور ان کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے ہر مسلمان کو اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی علاقے میں جب مسجد تعمیر کی جاتی ہے تو مسلمانوں کو اس بات سے طمانیت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ مساجد کی خیر خواہی درحقیقت اسلام سے محبت کی علامت ہے جبکہ ان کو نقصان پہنچانے کی سوچ رکھنا نفاق اور نافرمانی کی علامت ہے۔
ان گزارشات کو سامعین نے نہایت توجہ کے ساتھ سنا۔ مقررین کی تقاریر کے بعد تمام علماء نے مل کر مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ ڈاکٹر حماد لکھوی صاحب نے اس موقع پر پُرسوز دعا کی اور یوں یہ تقریب بہت سی خوبصورت یادوں کے ہمراہ مکمل ہوئی۔