"RBC" (space) message & send to 7575

سانحۂ عظیم

سال کے آخری ہفتے کی لمبی راتوں کے موسم میں دل میں سب سوال کروٹ لے کر شام ڈھلتے ہی پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ پوچھتے ہیں‘ کیا جواب ہو سکتا ہے۔ ہماری ذہنی افتاد اور پیشہ ورانہ جہت کی وجہ سے سوالوں اور جوابوں کے درمیان یہ مکالمہ ہمارے اندر کے میدان میں ہمیشہ طوفان کی طرح برپا رہتا ہے۔ سوال بھی اپنے‘ جواب بھی اپنے مگر اس اندر کے میدان میں ہمت نہیں کہ دل کے دروازے سے کچھ پردہ اٹھا کر انہیں لفظوں کی شکل میں دیکھ کر کسی کاغذ پر منتقل کر سکے۔ طلوعِ آفتاب سے پہلے گھر سے باہر قدم رکھتے جونہی درختوں پر نظر پڑتی ہے‘ کچھ نیم خوابیدہ پرندوں کی آوازیں کانوں سے ٹکراتی ہیں اور پہلی بارش کے بعد ہوا کی تازگی اور ابھرتے ہوئے اجالے کے ماحول میں پہلا خیال ماضی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ دل کہتا ہے کہ ہم بہت اچھا ملک تھے۔ جذبہ تھا‘ امید تھی‘ وسائل تھے‘ منصوبہ بندی تھی‘ خود اعتمادی تھی‘ اتفاق اور رواداری بھی تھی۔ ہم آگے بڑھ رہے تھے اور کئی ملکوں میں بہت آگے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز دنیا کی بہترین ہوائی کمپنیوں میں سے ایک تھی‘ جسے اس ہفتے ہم نے کئی برسوں کی کاوش کے بعد جس طرح بک سکتی تھی‘ بیچ دیا ہے۔ ہمارے دور دراز کے علاقوں میں دنیا بھر سے سیاح آتے تھے‘ دیہات تک میں پھرتے تھے۔ ہر طرف امن تھا۔ پورے ملک میں صرف ایک دو مشہور ڈاکوؤں کے بارے میں سنا تھا‘ جنہیں جلد ہی پکڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ خوشحالی تھی‘ شہر مناسب اور آبادی متناسب تھی۔ ہم سب خوش تھے۔ ترقی معاشی اور سماجی طور پر ہوئی تھی‘ اور انگریزی ریاست کے نظم و ضبط کے خد و خال سرکاری سطح پر نمایاں تھے۔ ٹرینیں وقت پر چلتی تھیں اور ریلوے سفر کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ نہروں میں کبھی پانی کی کمی نہ تھی اور سب کو اپنی باری پر پانی چھوٹی نہروں کے آخری حصوں تک دستیاب تھا۔ تب نہری نظام کے طول و عرض میں مربوط آبپاشی کے مظاہر ہم نے پہلے سبز انقلاب کی صورت دیکھے تھے۔ آج کل جو کینو شوخ نارنجی رنگ میں بازاروں میں دیکھ رہے ہیں‘ ہم نے سکول میں سنا تھا کہ ہمارے ملک کی زرعی سائنس کا کمال ہے۔ یاد پڑتا ہے کہ اس وقت ایک امریکی ڈالر غالباً تین روپوں کا ملتا تھا۔
برسوں کا جواب منطقی انداز میں نہ ڈھونڈیں تو آسان اور فوری جواب ہمارے ہاں یہ رہا ہے کہ کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ سیاسی اساس کمزور تھی‘ جس پر وہ دس سالہ ترقی کی عمارت استوار ہوئی‘ جس کا جشن منانے کے ساتھ ہی سوال اٹھنا شروع ہو گئے۔ بڑے صاحب‘ جو 1965ء کی جنگ میں فتح کے بعد فیلڈ مارشل کے عہدے پر ترقی کر گئے تھے‘ مگر وہی جنگ تو تھی جس کے اثرات سے ہم آج تک نہیں نکل سکے۔ عجیب بات ہے کہ جنگ کے دوران کمال کی قومی یکجہتی تھی۔ پورا ملک‘ عوام‘ سیاستدان‘ شاعر‘ ادیب سب لوگ ایک ہی قومی دفاع کے جذبے سے معمور دکھائی دیتے تھے۔ بڑی بات تھی کہ جنگ کے نتائج حتمی طور پر کسی ایک کے خلاف نہ گئے‘ مگر کئی گنا بڑے مخالف ملک کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جانا اور میچ برابر کرنا‘ فتح سے کم نہ تھا۔ فتح تو اس جذبے کی تھی جس کے ہم شاہد ہیں۔ ہم زیادہ تر توجہ سقوطِ ڈھاکہ اور 1971ء کی جنگ پر رکھتے ہیں مگر اس کی سیاسی ابتدا 65ء کی جنگ کے بعد ہو چکی تھی۔ اسی سال کے صدارتی انتخابات میں دھاندلی نے بھی مشرقی پاکستان میں جو سیاسی شعور پیدا کیا وہ جمہوریت کی بحالی کے جذبے سے لبریز تھا۔ مغربی پاکستان میں سب وڈیرے‘ چودھری‘ ملک‘ خان‘ مخدوم‘ سردا ر اور گدی نشین ایوب خان کے انتخابی نشان تازہ سرخ گلاب کو اپنی ٹوپیوں‘ پگڑیوں‘ کوٹوں‘ واسکٹوں پر سجائے اپنے اپنے علاقوں میں بی ڈی ممبروں کو گھیرے ہوئے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کو صرف جماعت اسلامی نے اٹھایا ہوا تھا‘ اور کچھ دیگر چھوٹی جماعتوں نے۔ انتخابی مہم اور ووٹ ڈالنے کا دن اچھی طرح یاد ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ پورا ملک ایوب خان کے ساتھ ہے اور محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ چند سر پھرے لوگوں کے علاوہ کوئی نہیں۔ یہ تاثر اخباروں‘ رسالوں اور ریڈیو کے ذریعے پیدا کیا گیا تھا جبکہ حقائق اس کے برعکس تھے۔ ہمارے تب کے دانشوروں کی پوری کھیپ تیار تھی‘ جو مولانا مودودی کے نظریات میں تضاد ڈھونڈتے تھے کہ دیکھنا‘ انہوں نے خود تو لکھا ہوا ہے کہ عورت حکمران نہیں ہو سکتی۔ کتنی چھوٹی اور بھونڈی باتیں ہم نے تب سنیں۔ معاملہ حکمرانی کا نہیں‘ نمائندگی کا تھا۔ عرض ہے کہ سیاسی عمارت کی بنیاد کھوکھلی ہو تو زلزلوں کے چھوٹے سے جھٹکے بھی اس میں دراڑیں ڈال دیتے ہیں‘ اور پھر موسمی اور غیرموسمی حالات اسے ملبے کا ڈھیر بنا دیتے ہیں۔ پاکستان جمہوری اور آئینی سیاست سے وجود میں آیا۔ یہاں نہ کوئی گوریلا جنگِ آزادی لڑی گئی‘ نہ کوئی تشدد آمیز مظاہرے ہوئے۔ دلائل تھے جو مذاکراتی میزوں اور ایوانوں میں پیش کیے گئے‘ اور پُرامن سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں۔ جو کچھ تقسیم کے وقت ہوا‘ جو اقلیتوں پر بیتی‘ اس کے محرکات کچھ اور تھے‘ اور ذمہ داری اس وقت جن کے پاس اقتدارِ اعلیٰ تھا‘ ان پر پڑتی ہے کہ انہیں گرم موسم کی شدت سے بچنے کی فکر زیادہ اور بلوائیوں کے ہاتھوں معصوم لوگوں کی فکر کم تھی۔
اگر ریاست کی بنیاد آئین اور قانون کی سیاست ہے تو بعد کی تاویلیں‘ کہ جمہوریت تو ہمارے مزاج میں نہیں‘ کسی کی خوشامد‘ مفاد پرستی یا پھر ذہنی انتشار سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ جمہوریت تو مغرب کے مزاج میں بھی نہیں تھی اور وہاں بھی وہ بادشاہت تک کا سر درد ختم کرنے کیلئے اسپرین کی دو گولیوں کی طرح پانی کے گلاس میں ڈال کر معاشرے نے نہیں نگلی تھی۔ جدوجہد تھی‘ جو کسی نہ کسی صورت جاری رہی۔ جیلوں‘ تشدد اور دار و رسن کا بھی سامنا رہا۔
سانحے تو کئی گزرے ہیں کہ اگر آپ کسی ایک سے سبق نہیں سیکھتے تو کنویں کی مینڈک کی طرح پڑے پڑے صدمے جھیلتے رہتے ہیں کہ باہر نکلنے کا راستہ آپ کو معلوم ہی نہیں‘ اور اگر ہے تو آپ کسی کے رحم و کرم پر ہیں‘ اور اس کے رحم کے انتظار میں ہیں۔ سب سے بڑا سانحہ ملک کے اصولی‘ فکری اور نظریاتی تصور سے متعلق تھا‘ جو میرے نزدیک آئین‘ جمہوریت اور نمائندہ حکومت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ باقی باتیں‘ جو اس حوالے سے کی جاتی ہیں کہ ہم نے ایسی یا ویسی یا فلاحی یا فلاں ریاست بننے کا خواب دیکھا تھا‘ وہ آئین اور جمہوریت کے بغیر کیسے شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے؟ اور ہم نے دیکھا‘ دوسرے راستوں نے پھر کیا نئے سانحے پیدا نہیں کیے۔ کس کس کا ذکر کریں؟ اپنے تضادات دیکھیں‘ بازار میں اور دنیا کے بڑے شہروں میں ہمارے اربابِ اقتدار پائیدار اور اعلیٰ دیدہ زیب چیزیں خریدتے ہیں۔ اکثر ولایتی‘ مگر جب ملک میں پائیدار اور حقیقی سیاست میں ان کا کردار دیکھیں تو جعلی پن‘ بلکہ مسخرہ پن کی حد تک آئین و قانون کی جو تشریح کرتے ہیں وہ عصرِ حاضر کا شاید کوئی افلاطون بھی نہ سمجھ پائے۔ جی چاہتا ہے کہ ہم وہی ملک بن جائیں جو کبھی تھے‘ جذبے جوان ہوں‘ آگے بڑھنے کا حوصلہ ہو‘ دوبارہ خواب دیکھیں‘ ہر طرف امن اور خوشحالی اخباری بیانوں میں نہیں بلکہ چلتے پھرتے نظر آئے۔ زندگی کی خزاں کے موسم میں بہاروں کی تمنا میں زندہ شاید رہیں‘ مگر حقیقت کو تو نہیں بدل سکتے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں