الوداعی ملاقات

اتوار چودہ دسمبر کو والدہ ماجدہ کی دوسری برسی کے موقع پر گاؤں میں مرحوم والدین کیلئے اجتماعی دعائے مغفرت کا اہتمام کیا گیا۔ اس روح پرور تقریب میں عزیز واقارب ‘ دوست احباب‘ سیاسی وسماجی شخصیات‘ سول سروسز سے تعلق رکھنے والے رفقائے کار اور اہلِ علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد ایک معروف نعت خواں نے بارگاہِ رسالت میں ہدیہ نعت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی جبکہ نصیر احمد سندھو اور بلال حیدر نے میاں محمد بخش‘ وارث شاہ اور حضرت سلطان باہو کے صوفیانہ کلام سے حاضرینِ محفل کے دل جیت لیے۔ محفل کے آخر میں معروف عالم دین مولانا ثاقب رضا مصطفائی نے ایک گھنٹے پر محیط اپنے خطاب میں والدین کے حقوق اور اولاد کے فرائض پر قرآن کریم اور احادیث شریف کی روشنی میں تفصیلی و مدلل گفتگو کی۔ علامہ ثاقب رضا مصطفائی کے لب ولہجے کی شیرینی‘ اندازِ بیان کی سلاست اور خیالات کی روانی نے شرکا کو بہت متاثر کیا۔ ان کی گفتگو کے دوران پورے اجتماع میں گہرا سناٹا چھایا رہا اور سب پورے انہماک سے انہیں سن رہے تھے۔ اس دوران فرطِ جذبات سے کئی حضرات کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ گردشِ ماہ وسال اس قدر زیادہ تیز رفتاری سے جاری و ساری ہے کہ ماں جی سے جدائی کا دو سال کا عرصہ چند لمحوں میں بیت گیا مگر والدین کو بھلا کون بھول سکتا ہے۔ خوشی‘ کامیابی اور راحت کے لمحات میں وہ یاد آتے ہیں تو پریشان حالی میں ان کی کمی زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ ماں جی کے بغیر گزرے ہوئے وقت کا ایک ایک لمحہ قیامت کی گھڑی جیسا محسوس ہوا اور شاید ہی کوئی ایسا موقع ہو جس پر ان کی کمی محسوس نہ کی گئی ہو۔
ماں جی کے دم سے زندگی کے تمام موسم سازگار رہے اور خزاں رُت میں بھی رنگِ بہار ہماری نگاہوں میں بسا رہا۔ ان کی موجودگی میں بڑی سے بڑی پریشانی منٹوں میں کافور ہو جاتی اور ان کے دعائیہ الفاظ ہمارا سب سے مؤثر ہتھیار تھے۔ کارِ سرکار کی انجام دہی میں اہم امور کی حساسیت ہو یا ذاتی زندگی میں پیش آنے والے بڑے واقعات سے جڑے معاملات‘ وہ ہماری مضبوط ترین ڈھال تھیں اور کڑی آزمائشوں میں صبر واستقلال کا استعارہ۔ ان کے آس پاس ہونے سے ہم کڑے وقت میں بھی غیر متزلزل رہتے اور مشکل ترین حالات میں بلاخوف آگے بڑھ جاتے۔ حاسدین کے حسد کا خوف ہوتا اور نہ ہی انجانے مخالفین کے شر کی فکر۔ ماں جی کو ہر لمحہ صرف ہماری خیر وعافیت کی فکر ہوتی اور ان کی دعائیں اور نیک تمنائیں ہمیں ہمہ وقت اپنے ناقابلِ تسخیر حصار میں لیے رکھتیں۔
ہمارے آبائی علاقے کی خوشی وغمی میں شرکت میری ذمہ داری تھی لہٰذا وہ ہفتہ بھر مجھے آنے والے دنوں میں منعقدہ شادی بیاہ اور فاتحہ خوانی کی تقاریب سے آگاہ کرتی رہتیں۔ بسا اوقات وہ میرے پورے پروگرام کو خود ترتیب دیتیں اور مختلف مقامات پر میری شرکت کی ترجیحات کا تعین کرتیں۔ میں بھوانہ کی طرف روانہ ہوتا تو وہ کبھی مجھ سے اور کبھی میرے ڈرائیور سے استفسار کرتی رہتیں۔ اس کے ساتھ وہ ان لوگوں سے بھی براہِ راست رابطے میں رہتیں جہاں مجھے پہنچنا ہوتا تھا تاکہ میری خیر وعافیت سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہیں۔ ڈیرے پر موجود لوگوں کے معاملات نمٹانے میں تاخیر ہو جاتی تو وہ سرِ شام مجھے فیصل آباد واپس لوٹنے کی تلقین کرتیں اور شام ڈھل جاتی تو وہ مجھے سفر سے روک دیتیں۔ رابطے کا یہی تسلسل میری گاؤں سے واپسی پر ہوتا اور جب تک میں خیر خیریت سے گھر نہ پہنچ جاتا وہ بے چینی سے مسلسل رابطے میں رہتیں۔ میں موٹر وے سے اتر کر فیصل آباد اپنی سرکاری رہائش گاہ کی طرف مڑ جاتا تو وہ آخری کال میری اہلیہ کو کرتیں اور انہیں تاکید کرتیں کہ جب میں گھر پہنچ جاؤں تو وہ فون کر کے انہیں آگاہ کر دیں۔ میں برطانیہ پی ایچ ڈی کیلئے گیا تو واٹس ایپ کے ذریعے روزانہ کی بنیاد پر رابطے میں رہتیں۔ پاکستان آمد اور روانگی کے دوران وہ میرے سفر کے تمام مراحل سے آگاہ رہتیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر امیگریشن کے بعد اور ٹیک آف سے پہلے ہماری طویل گفتگو ہوتی اور پھر اگلے دورۂ پاکستان کی ممکنہ تاریخ اور طوالت پر بات تب ختم ہوتی جب میں جہاز کی طرف بڑھتا۔
اب وہ منوں مٹی تلے آسودۂ خاک ہیں تو نہ ان کی منتظر نگاہیں ہیں اور نہ دعاؤں میں ہمہ وقت اٹھے ان کے ہاتھوں کا سہارا میسر ہے۔ پاکستان میں قیام کے دوران میں دن رات حالتِ سفر میں رہا اور متعدد مقامات پر کئی گھنٹوں تک شدید دھند میں گھرا رہا مگر نہ کسی نے اس طرح لمحہ بہ لمحہ فون کرکے خبر گیری کی اور نہ ہی شاید کسی نے میرے لیے بارگاہ الٰہی میں اُس طرح ہاتھ اٹھا کر دعائیں کیں۔ اب کی بار نہ پاکستان آتے ہوئے ان کی طرف سے آئے فون کی گھنٹی بجی اور نہ ہی انہیں میری روانگی کا وقت معلوم ہو سکا۔ وہ نہیں رہیں تو اب چھوٹی سی پریشانی بھی کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ محسوس ہوتی ہے اور ذرا سی تکلیف کسی بڑے حادثے کے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اب حاسدین کے حسد سے بھی ڈر لگتا ہے اور اَن دیکھے دشمنوں کے شر سے خود کو محفوظ بنانے کی فکر بھی ہمہ وقت لاحق رہتی ہے۔ اب طبیعت ذرا سی خراب ہو تو موت کا خوف طاری ہو جاتا ہے اور زندگی ہارنے لگتی ہے۔ ان کے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان دو مختلف دنیاؤں کے فاصلے مٹ گئے ہیں۔ اب زندگی کے رعنائیوں میں نہ وہ لذت باقی رہی ہے اور نہ کسی خوشی ہی میں وہ کشش ہے کہ جس سے فلکِ دل پر چھائی غمناک اداسی کے گہرے سیاہ بادل چھٹ جائیں۔ بہار رُت میں گلاب تو اب بھی کھلتے ہیں مگر ان کی مہک میں وہ بات نہیں رہی کہ جس سے زندگی زندہ دلی کا استعارہ بن جائے۔ اب یوں لگتا ہے کہ جیسے خوشیاں روٹھ سی گئی ہیں اور چہار سو اداسیوں کے بسیرے ہیں۔
اپنی موت سے محض چند روز قبل ماں جی بہاولپور میں ظہیر انور بھائی کے ہاں سے گاؤں کیلئے روانہ ہوئیں تو راستے میں فیصل آباد اس نرسری جا پہنچیں جہاں سے میں اکثر پودے خریدا کرتا تھا۔ انہوں نے گاؤں والے ڈیرے کیلئے لگ بھگ ڈیڑھ سو کے قریب پھولدار پودے خریدے اور گاؤں پہنچ کر دو دن تک اپنی نگرانی میں انہیں لگوایا کیونکہ میری برطانیہ سے پاکستان آمد سے قبل وہ ڈیرے پر پھول کھلتے دیکھنا چاہتی تھیں۔ مگر انہیں کیا خبر کہ وہ عین اُس روز عدم سدھار جائیں گی جس روز برطانیہ سے میری پاکستان واپسی کا سفر شروع ہونا تھا۔ چند روز قبل‘ گاؤں میں اپنے قیام کے آخری روز میں اپنے جان سے پیارے والدین سے الوداعی ملاقات کرنے آبائی قبرستان میں ان کی آخری آرام گاہ پہ حاضر ہوا تو پل بھر میں ان کی شبیہ کے سارے عکس میری چشمِ نم میں اتر آئے۔ چاروں طرف انواع واقسام کے پھولدار پودوں اور پھلدار درختوں نے پورے ماحول کو معطر کر رکھا تھا۔ امرود اور انجیر کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے۔ دوسری طرف رنگ برنگی تتلیاں پھولوں پر رقصاں تھیں۔ تیزی سے نمو پاتے سایہ دار درختوں پر بنے گھونسلوں میں سے پرندوں نے اڑان بھری تو ان کی چہچہاہٹ نے کانوں میں گھنٹیاں بجا دیں۔ موت کی اس وادی میں زندگی کے یہ استعارے ہمارے آبائی قبرستان کی اُس وحشت وویرانی کو کافی حد تک ختم کر چکے ہیں جس سے ماں جی کو ڈر لگتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مجھے وہاں ڈھیر سارے درخت اور پودے لگوانے کی تلقین کیا کرتی تھیں‘ جو دو سال قبل ان کی موت کے فوراً بعد لگوا دیے گئے تھے۔ میں بارگاہِ الٰہی میں ان کی دعائے مغفرت کیلئے اٹھے اپنے ہاتھ سمیٹ کر بوجھل قدموں سے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوا جہاں سے ایک مرتبہ پھر برطانیہ کا سفر شروع ہونے والا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں