مجھے اس کا احساس کالج کے ابتدائی زمانے میں ہی ہو گیا تھا‘ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس پہلے کسک میں تبدیل ہوا اور پھر دلِ ناداں میں کانٹے کی طرح کھٹکا۔ خاص طور سے گریجوایشن کے بعد اکنامکس میں ماسٹرز ڈگری کی کلاسز شروع ہوئیں تو پتا چلا کہ ہم جسے ترقی کا راستہ سمجھ بیٹھے ہیں وہ تباہی کی کھائی میں گرانے کا فارمولا ہے‘ جسے آسان لفظوں میں اجتماعی معاشی خودکشی کہنا درست تھا۔
ہمارے سرکاری بابوؤں‘ قومی وسائل اور عوامی آمدن پر قابض مافیاکی تباہ کاریوں کے زندہ مناظر تب دیکھنے کو ملے جب آٹھ اکتوبر 2005ء کے دن انتہائی تباہ کن زلزلہ آیا‘ جس کی شدت 7.6 ناپی گئی۔ میں اس روز صبح سویرے راولپنڈی ہائی کورٹ بینچ گیا۔ عدالت کے بیٹھتے ہی درخواست دی کہ مجھے سپریم کورٹ کے دو بینچز میں مقدمات لڑنے ہیں‘ اس لیے میرے کیس کی تاریخ ہفتے بعد رکھ لی جائے۔ وہاں سے نکل کر ضلع کچہری سے مال روڈ کی طرف جانے والے چوک میں ٹریفک سگنل پر کھڑے ہوئے۔ یوں لگا جس طرح بریک پر پاؤں رکھ کر ڈرائیور گاڑی سکریچ کرنے کے انداز میں اچھال رہا ہے۔ میں نے اسے اونچی آواز میں منع کروایا۔ وہ کہنے لگا: سر ٹریفک سگنل کو دیکھیں۔ میرا دھیان پہلے ادھر نہیں تھا۔ سگنل کی بھاری بتیاں جو لہرا رہی تھیں‘ تھوڑی دیر میں ٹیڑھی ہوکر نیچے آگئیں۔ وہاں سے ایئر پورٹ کا راستہ لیا تو خبر ملی پنڈی اسلام آباد میں زلزلے نے قیامت برپا کر دی۔ متاثرینِ زلزلہ کی امداد کیلئے میں اور زمرد خان ایڈووکیٹ‘ جنہوں نے بعد میں زلزلہ زدہ بچوں کیلئے تعلیمی سہولتوں کا جال بچھایا‘ خیبرپختونخوا پہنچے۔ امدادی سامان ہمارے ساتھ تھا۔ پھر میں نے زلزلے کے تیسرے‘ چوتھے اور پانچویں دن قافلے کے ہمراہ شمالی علاقوں اور کشمیر میں امدادی دورے کیے۔ سب سے زیادہ تباہی پہاڑی علاقوں میں سرکاری سکولوں اور کالجوں کی عمارتیں زمین بوس ہونے سے ہوئی تھی۔
دو عشرے گزر جانے کے بعد‘ مجھے آج بھی کل کی طرح یاد ہے‘ جب ہم نے جھالہ بازار سے دریائے جہلم عبور کرکے دھیر کوٹ اور راولاکوٹ جانے کا سفر شروع کیا۔ کشمیر کے اوّلین پہاڑ کی پہلی تین چڑھائیاں چڑھنے کے بعد مناسہ نامی گاؤں آتا ہے‘ جس کے دائیں کنارے پر گورنمنٹ گرلز سکول کی پوری عمارت زمین پر پڑی تھی‘ جس میں سے بچیوں کے بستے‘ پاؤں اور شوز ٹنوں سریے سیمنٹ کے نیچے نظر آرہے تھے۔ مسلسل عہدِ ستم میں ستم بر ستم یہ ہوا کہ یہ سرکاری سکول تعمیر کرنے والے کسی ایک ٹھیکیدار کا گھر بھی زلزلے نے نہیں گرایا۔ ایسے میں حضرتِ اقبال شکوہ کناں یاد آئے:
امتیں اور بھی ہیں‘ ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں‘ مست میٔ پندار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
ان دنوں ایک بار پھر اپنے ایک پاؤ گوشت کے لیے سرکاری ہاتھیوں کو گرانے کا دور دورہ ہے۔ قومی اثاثوں کی لوٹ سیل دیکھ کر گلی گلی میں پھیلے ہوئے نشہ باز یاد آتے ہیں‘ جو سب سے پہلے گھر میں بہن بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچ کر نشے کی لت پوری کرتے ہیں‘ پھر ماں باپ کے پیسے اور زیورات پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ جب باقی کچھ نہ بچے تو پھر گھر کی رجسٹری چوری کر کے اسے بیچ کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کمال کمائی کی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری پر مبارک بادیں دینے والوں کیلئے عرض ہے کہ ذرا ایک دفعہ درج ذیل حقائق پر نظر ڈال لیں۔
پی آئی اے سیل کی پہلی حقیقت: PIAC‘ یعنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کمپنی کے 75 فیصد حصص مقامی سرمایہ کاروں کے کنسورشیم کو بیچے گئے۔ بولی میں کل قیمت پاکستانی روپے میں 135 ارب لگائی گئی۔ اس بولی میں پی آئی اے کے کون کون سے اثاثے شامل ہیں‘ اور ان کی قیمت (Actual market value) کیا ہے‘ کوئی نہیں جانتا۔ 135 ارب روپے میں سے اس سیل کے عوض سرکار کے خزانے میں 10 ارب روپے کی کیش وصولی ہوئی۔ اس 10 ارب روپے میں سے تقریباً چار ارب روپے سیل پروجیکٹ کے کنسلٹنٹ اور ٹرانزیکشن فیس کی مد میں چلے گئے‘ جس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ پی آئی اے کی سیل میں سے سرکاری خزانے کو صرف چھ ارب روپے Immediate Cash Inflowکے طور پر ملے۔ جہاں پی آئی اے کی بولی لگی اس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر مارگلہ ایونیو پر دو ہزار گز گھر کی قیمت تین سے چار ارب روپے کے درمیان ہے۔
اب آئیے بولی شدہ باقی 125 ارب روپے کی طرف۔ اس میں سے ٹیڈی پیسہ بھی حکومت کو نہیں ملے گا۔ اگلے دو سے تین سال میں ہمارے فلیگ کیریئر کے خریدار 125 ارب روپے پی آئی اے کی ''بحالی‘‘ پر لگائیں گے‘ جس پہ کامیاب بولی دہندہ کی طرف سے کہا گیا کہ اب میں بینکوں سے یہ رقم (بطور قرضہ) جلد حاصل کرنے کی کوشش کروں گا۔
پی آئی اے سیل کی دوسری حقیقت: پی آئی اے پر پچھلے قرضوں کا بوجھ دوسری بڑی حقیقت ہے جسے چھپا کر بڑی سرمایہ کاری کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ آج سے چند ماہ پہلے پی آئی اے پر 628 ارب روپے قرض کے بقایا جات (Legacy Debts) موجود تھے۔ بولی دینے والوں کو راضی کرنے کیلئے یہ 628 ارب روپے ایک سرکاری ہولڈنگ کمپنی کو ٹرانسفر کر کے شیلف کر دیے گئے جس کا ایک ہی نتیجہ نکلے گا۔ اگلے چند ماہ میں بجلی کے بلوں یا گیس کے بل کے ذریعے یہ 628 ارب روپے کا قرض عوام سے وصول کیا جائے گا۔ اس طرح چھ ارب کے اس منافع کیلئے ملک کے ٹیکس دہندگان پر 628 ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔ بولی کے اس گھن چکر کی ایک اور پرت میں 563 ارب روپے کی ایسی رقم ہے جسے Negative Equityا ور بڑے معاشی ہول کے نام سے بیان کیاگیا ہے۔ پی آئی اے کمپنی کو فروخت کرنے کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ میرے پڑوسی نے اپنا گھر 135 ارب روپے کا بیچا‘ جن میں سے 10ارب روپے پڑوسی کو ملے۔ اس فروخت کے کنسلٹنٹ نے 10ارب میں سے چار ارب اپنے لیے رکھ لیے جبکہ باقی کے 125 ارب روپے گھر کا نیا مالک گھر کی ڈیکوریشن پر لگائے گا۔
ابھی تک جو حقائق میں نے قارئینِ وکالت نامہ کے سامنے رکھے وہ بولی کی تفصیلات میں موجود ہیں۔ مزید حیران کُن تفصیلات ابھی باقی ہیں۔ مثال کے طور پر پی آئی اے کے خریدار کنسورشیم کی طرف سے قیمت کے طور پر ظاہر کی گئی رقم کا 92.5 فیصد پی آئی اے چلانے کیلئے اسی خریدار کو مل جائے گا۔ کیا یہ لین دین فروخت کہلا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! معیشت کی زبان میں اسے Circular Cash Shuffleکہیں گے‘ جس کے ذریعے عوام کا پیسہ خاموشی سے نجی کنٹرول کے حق میں انڈر رائٹ ہو جائے گا۔ (جاری)