"AIZ" (space) message & send to 7575

سقوط ِڈھاکہ اور بنگلہ دیش

ہر سال دسمبر کا مہینہ قومی تاریخ کے حوالے سے دلخراش یادیں لے کر آتا ہے۔ بلاشبہ سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کیلئے نہایت المناک سانحہ تھا۔ سقوطِ بغداد‘ سقوطِ بیت المقدس اور سقوطِ غرناطہ کے بعد یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے مسلمانوں کو برسہا برس تک صدمے سے دوچار رکھا۔ جب بھی کیلنڈر پر 16 دسمبر کی تاریخ آتی ہے‘ میرے دل ودماغ پر ایک بوجھ کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور میں اکثر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ مسلمانانِ برصغیر نے ایک آزاد ملک کے حصول کیلئے کس قدر کوششیں کی تھیں لیکن بدقسمتی سے آزاد پاکستان اپنے قیام کے 24 سال بعد ہی اپنے مشرقی بازو سے محروم ہو گیا۔
پاکستان مسلم لیگ کا قیام 1906ء میں ڈھاکہ ہی میں عمل میں آیا تھا اور بنگال کے مسلمانوں نے انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کیلئے مغربی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ مل کر بھرپور کوششیں کی تھیں۔ قراردادِ پاکستان کو پیش کرنے والی شخصیت مولوی اے کے فضل الحق کا تعلق بھی بنگال سے تھا۔ قبل ازیں حریت اور آزادی کے حوالے سے بنگال کے حکمران سراج الدولہ‘ فرائضی تحریک کے سربراہ حاجی شریعت اللہ‘ دودو میاں اور تیتو میر جیسے کردار بھی برصغیر کی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ 1947ء میں کلمہ کی بنیاد پر بننے والے ملک پاکستان کو اللہ کی ایک بڑی نعمت کی حیثیت سے دیکھا جا رہا تھا۔ آزادی پر مغربی پاکستان کے لوگ جس طرح انتہائی خوش تھے اسی طرح مشرقی پاکستان کے لوگ بھی نہایت مسرور تھے۔ البتہ دونوں خطوں میں طویل فاصلہ اور کچھ دیگر مسائل بھی تھے۔ بنگالی زبان کا رسم الخط اُردو اور اس علاقے میں بولی جانے والی دیگر زبانوں سے جدا تھا۔ مکار دشمن اس بات کو سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی اگر کوشش کی جائے تو ملک کے دونوں بازوئوں میں منافرت پیدا کی جا سکتی ہے؛ چنانچہ پہلے اردو بنگالی تنازع کو ہوا دینے کی بھرپور انداز میں کوششیں کی گئی اور بنگال کے لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا گیا کہ انکی زبان اور رسم الخط کی وجہ سے انہیں مغربی پاکستان کے لوگ اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتے۔ اس منافرت کو فروغ دینے کیلئے بنگال کے تعلیمی اداروں کے ہندو اساتذہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دوسری جانب بنگال میں دینی ذوق رکھنے والے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جنہیں دو قومی نظریے سے والہانہ محبت تھی۔ انہوں نے اہلِ بنگال کو اس بات کا احساس دلایا کہ لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر ہمیں یکسو اور یکجا رہنا چاہیے اور منافرت پھیلانے والے منفی عناصرکی چالوں میں کسی طور نہیں آنا چاہیے‘ مگر یہ آوازیں روز بزور کمزور ہوتی چلی گئیں۔
پاکستان کے دونوں حصوں میں سیاسی عمل سے وابستگی رکھنے والی جماعتیں اور رہنما موجود تھے مگر مشرقی پاکستان میں کام کرنے والی تحریکیں مغربی پاکستان کے لوگوں کو زیادہ متاثر نہ کر پائیں۔ اسی طرح مغربی پاکستان کی سیاسی سرگرمیوں کا بنگال کے لوگوں پر زیادہ اثر نہ ہوا‘ جس کی وجہ سے دونوں علاقوں میں دوئی کی کیفیت پیدا ہوئی۔ 1970ء کے انتخابات میں مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی عوامی لیگ واضح مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مغربی پاکستان کی دیگر جماعتیں اس کے مقابلے میں پیچھے رہیں۔ عوامی لیگ کو نشستوں کے لحاظ سے پورے ملک میں واضح برتری حاصل ہوئی تھی مگر اس اکثریت کے بعد عوامی لیگ کو اقتدار دینے کے بجائے 'اِدھر ہم اُدھر تم‘ کے نعرے کو ہوا دی گئی جس سے وطن کی وحدت متاثر ہوئی۔ بھارت جو ایک عرصے سے موقع کی تاک میں تھا‘ اس نے اس تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عسکری مداخلت کی۔ افواجِ پاکستان نے اس مداخلت کو روکنے کی کوشش کی لیکن عوامی حمایت نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کی عسکری مداخلت کا سدباب نہ کیا جا سکا اور یوں 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہو گیا اور بنگلہ دیش کے نام سے ایک آزاد ریاست قائم ہو گئی۔
عوامی لیگ نے بنگلہ دیش کا اقتدار سنبھالنے کے بعد نظریہ پاکستان کی حمایت کرنے والے لوگوں کو شدید ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا‘ بالخصوص جماعت اسلامی کے لوگ اس انتقام کا بڑے پیمانے پر نشانہ بنے۔ بعد ازاں حسینہ واجد نے بھی ظلم وستم کی انتہا کر دی لیکن اس کے باوجود آج بھی دو قومی نظریے کی حمایت کرنے والے لوگ بڑی تعداد میں بنگلہ دیش میں موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں سیاسی استبداد کو برقرار رکھنے کیلئے حسینہ واجد نے مکتی باہنی کے لوگوں کیلئے ملازمتوں میں مخصوص کوٹہ رکھا ہوا تھا‘ جس کی وجہ سے بنگالی نوجوانوں کیلئے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں کے راستے روز بروز تنگ ہوتے جا رہے تھے۔ نئی نسل نے اس کوٹہ سسٹم کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حسینہ واجد نے اپنا حق مانگنے والے بنگالی نوجوانوں کو 1971ء میں پاکستان کی حمایت کرنے والے نوجوانوں کے مشابہ قرار دیتے ہوئے ''رضاکار‘‘ ہونے کا طعنہ دیا جس پر بنگال ''تُو بھی رضا کار میں بھی رضاکار‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا۔ بنگال کے نوجوانوں نے عصبیت اور نفرت کی بنیاد پر ملازمتوں میں مقرر کوٹے کو پوری طرح مسترد کر دیا۔ نوجوانوں کی تحریک کو دبانے کیلئے ریاستی تشدد کا استعمال کیا گیا لیکن ہزاروں نوجوان اپنی جانوں کی قربانیاں دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اس احتجاجی تحریک کی وجہ سے حسینہ واجد کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اور وہ بھارت فرار ہو گئی۔
مجھے ذاتی طور پر ہمیشہ سقوطِ ڈھاکہ کا شدید غم رہا ہے اور میری یہ خواہش رہی کہ اللہ اگر کبھی موقع دے تو بنگلہ دیش کے عوام کے جذبات سے واقفیت حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مجھے رواں سال دو مرتبہ بنگلہ دیش جانے کا موقع دیا۔ بنگلہ دیش میں مَیں نے بنگالی عوام کی سوچ وفکرکا ذاتی طور پر مطالعہ ومشاہدہ کیا۔ مجھے یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ بنگلہ دیش کے عوام آج بھی دین اسلام اور دو قومی نظریے کے ساتھ بڑی محبت رکھتے ہیں۔ ہمارے میزبان عبداللہ بن عبدالرزاق بڑے سلجھے ہوئے اور بصیرت رکھنے والے نوجوان ہیں‘ انہوں نے آگاہ کیا کہ اگر قیام پاکستان کی تحریک کو بنگلہ دیش کی تاریخ سے علیحدہ کر دیا جائے تو 1906ء سے 1947ء تک بنگالی تاریخ تاریکی میں چلی جاتی ہے۔ 41 برس تک جس طرح بنگال کے لوگوں نے مغربی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ مل کر مسلسل جدوجہدِ آزادی کی تھی‘ اس کی یادوں اور تاریخ کو بنگلہ دیش کی تاریخ سے کبھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی بنگال کے لوگ پاکستان اور اسلام کے ساتھ والہانہ محبت رکھتے ہیں۔ رواں سال فروری اور پھر اکتوبر میں بنگلہ دیش کے دوروں میں مجھے کئی بڑے اجتماعات میں بنگالی عوام سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ میں نے جتنی سرفروشی اور جیسے جذبات بنگالی عوام میں دیکھے‘ وہ یقینا ہر اعتبار سے متاثر کن تھے۔ ان کو دیکھ کر اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ بنگالی عوام کا سقوطِ ڈھاکہ میں کوئی کردار نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ ملحق رہنا چاہتے تھے لیکن حالات کے جبر نے انہیں پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ کئی بنگالی نوجوانوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ آپ کا اور ہمارا وطن ایک ہی ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے دوران لگنے والے زخموں کا مداوا کرنے کیلئے ہمیں کچھ تدابیر کو لازماً اختیار کرنا چاہیے۔ سب سے اہم تدبیر عدل وانصاف کا قیام اور دوسری اہم تدبیر عوام کی سیاسی رائے کا احترام ہے۔ اگر عدل وانصاف کے قیام کو یقینی بنایا جائے اور عوام کے سیاسی فیصلوں کا احترام کیا جائے تو ملک اندرونی طور پر مضبوط اور مستحکم ہوتا ہے اور اس کے برعکس کسی راستے پر چلنے کی صورت میں ملک میں داخلی کمزوری اور خلفشار پیدا ہوتا ہے۔ جب میں بنگلہ دیش گیا تو جہاں سقوطِ ڈھاکہ کی یاد میں میرا دل زخمی تھا وہیں بنگلہ دیش کے لوگوں کی والہانہ محبت کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ اسلام اور دو قومی نظریے کی محبت کو برصغیر کے مسلمانوں کے دلوں سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے وطن کو مضبوط اور مستحکم بنائے اور قومی سطح پر ہمیں ہر قسم کی ابتلائوں اور آزمائشوں سے محفوظ رکھے‘ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں