قاری محمد یعقوب شیخ ایک متحرک مذہبی وسماجی رہنما ہیں۔ سیاست سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کو مطالعہ اور علم سے خصوصی شغف ہے۔ سعودی عرب کی ریاض یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کر چکے ہیں۔ کئی برسوں سے ان سے شناسائی ہے اور مختلف سماجی و دینی اجتماعات میں ان کی ہمراہی میں شرکت کرنے کا موقع بھی میسر آتا رہتا ہے۔ 27 دسمبر کو ان کے بیٹے کی دعوتِ ولیمہ تھی‘ جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے نمایاں لوگ بڑی تعداد میں اس تقریب میں شریک تھے۔ مولانا فضل الرحمن خلیل‘ ڈاکٹر حماد لکھوی‘ حافظ عبدالغفار روپڑی‘ جاوید قصوری‘ پروفیسرسیف اللہ قصوری‘ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ اور فرید پراچہ سمیت بہت سے احباب تقریب میں موجود تھے۔ اس خوشی کے موقع پر تمام شرکا کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔ پروفیسر اسرائیل فاروقی اور ڈاکٹر حماد لکھوی کے ساتھ مجھے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی گئی۔ میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ انہیں کچھ ترامیم کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں بے پایاں ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت: 34 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الرحمن میں بھی جن وانس کو مخاطب کر کے بتکرار ارشاد فرمایا ''پس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے؟‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اَن گنت اور بے پایاں نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت اچھے اور نیک شریکِ حیات کا مل جانا ہے۔ ایک نیک رفیق زندگی یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الروم کی آیت: 21 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان سے آرام پائو‘ اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی‘‘۔ اسی طرح سورۃ النباء کی آیت: 8 میں ارشاد ہوا ''اور ہم نے تمہیں جوڑا جوڑا پیدا کیا‘‘۔ سورۂ یٓس کی آیت: 36 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ''وہ ذات پاک ہے جس نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے‘ خواہ وہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہوں‘ خواہ خود ان کے نفوس ہوں خواہ وہ (چیزیں) ہوں جنہیں یہ جانتے بھی نہیں‘‘۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو کسی نعمت سے نوازتے ہیں تو اس کا حق بنتا ہے کہ اس نعمت کا شکر ادا کرے۔ شکر کے تین درجات ہیں۔ پہلا درجہ دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے احسانات اور اس کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ دوسرا درجہ زبان سے الحمدللہ اور کلماتِ شکرادا کرنا ہے اور تیسرا درجہ جوارح اور اعضا کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری پر لگانا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر کئی مرتبہ عملی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کا اظہار کیا جاتا ہے۔ غلط قسم کی رسومات میں پیسے کو برباد کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے بہت سے افعال کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں خوشی کے ان مواقع پر بالخصوص ناشکری کے بجائے شکر گزاری کے راستے کو اختیار کرنا چاہیے۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے راضی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت: 7 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور تمہارے رب نے تمہیں آگاہ کر دیا کہ اگر تم شکر گزاری کرو گے تو بیشک میں تمہیں زیادہ دوں گا‘‘۔ اسی طرح شکر گزاری ہی کے حوالے سے سورۃ النساء کی آیت: 147 میں ارشاد فرمایا ''اللہ تمہیں سزا دے کر کیا کرے گا‘ اگر تم شکر گزاری کرتے رہو اور باایمان رہو‘‘۔
27 دسمبر کی رات اس پُرمسرت تقریب میں شرکت کے بعد بہت سے خوبصورت احساسات کو لیے اپنے گھر کو پلٹا۔ اگلے روز نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد ضلع قصور کے گائوں میر محمد روانگی ہوئی‘ جہاں معروف عالم دین حافظ یحییٰ میر محمدیؒ کے صاحبزادے کی وفات پر تعزیت کرنا تھی۔ مولانا اسماعیل میر محمدی حافظ یحییٰ میر محمدی کے فرزند اور انتہائی صالح عالم دین تھے۔ پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اس کی عبادت میں منہمک رہے اور آخری ایام میں جب ہسپتال میں داخل تھے تو اس وقت بھی زیادہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت ہی میں گزارا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے عاجزی وانکساری کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ اس کا شکر ادا کرنا ان کی عادت تھی۔ جو شخص بھی ان سے ملاقات کرتا ان کے تقویٰ اور للہیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ پاتا۔ جس دن ان کا انتقال ہوا اس دن مجھے ایک اور سفر پر جانا پڑ گیا تھا جس کی وجہ سے میں ان کے جنازے میں شرکت نہ کر پایا۔
28 دسمبر کی دوپہر جب میں گائوں میر محمد میں حافظ یحییٰ میر محمدی کے داماد حافظ طارق سے اُن کے برادر نسبتی کے انتقال پر تعزیت کیلئے پہنچا تو وہاں تمام دوستوں پر اپنے صالح عزیز کی جدائی کی وجہ سے صدمے کی کیفیت طاری تھی‘ جسے دیکھ کر میرے ذہن میں بھی اپنی زندگی میں پیش آنے والے بہت سے صدمات کی یاد تازہ ہو گئی۔ والد گرامی اور والدہ مرحومہ اور اس کے ساتھ بہت سے قریبی اعزہ واقارب کے انتقال کی یادیں میرے ذہن میں تازہ ہونا شروع ہو گئیں۔ دنیا کی بے ثباتی اور ناپائیداری کے احساسات میرے دل میں ابھرنے لگے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں چیزوں کے چھن جانے اور ان کے نقصان پر جس طرزِ عمل کو اختیارکرنے کا حکم دیا ہے‘ اس سے متعلق آیات بھی اس موقع پر میرے ذہن میں گردش کرنے لگیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیات: 155 تا 157 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے‘ دشمن کے ڈر سے‘ بھوک پیاس سے‘ مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور اُن صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ کی ملکیت ہیں اور اسی کی طرف ہم لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زندگی میں انسانوں کو مختلف طریقوں سے آزمایا جائے گا۔ کبھی خوف کے ذریعے اور کبھی جانی ومالی نقصانات کے ذریعے لیکن ایسے موقع پر اہلِ ایمان کو واویلا کرنے کے بجائے صبر واستقامت سے کام لینا ہوگا۔ جو صبر کے دامن کو نہیں چھوڑیں گے‘ اُن پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہو گا اور ان کو سیدھے راستے پر چلا دیا جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الانبیاء کی آیت: 35 میں انسانی زندگی کی انہی دو حالتوں کو بڑے مؤثر انداز میں بیان فرمایا ''ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائو گے‘‘۔
ان دو حالتوں کے دوران انسان کے ایمان کا اصل امتحان ہوتا ہے۔ جب نعمتیں حاصل ہوں تو انسان کو شکر گزاری کو اختیار کرنا چاہیے اور جب ابتلائوں اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے تو صبر کو اختیار کرنا چاہیے۔ جس نے نعمتوں کے حاصل ہونے پر شکر گزاری کا راستہ اختیار کیا اور دکھوں اور تکالیف کے دوران صبر کا راستہ اختیار کیا‘ درحقیقت وہ کتاب وسنت کا حقیقی پیروکار بن گیا۔ جس نے مصیبتوں کے دوران بے صبری کی اور نعمتوں کے مل جانے کے بعد کفرانِ نعمت کے راستے کو اختیارکیا‘ یقینا وہ راہِ حق سے انحراف کر گیا۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی کے نشیب وفراز کے دوران صبر وشکر کو اختیار کرنے کی توفیق دے تاکہ اپنے رب کے فضل ورحمت سے ہم دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران ہو جائیں۔