مجلس اتحادِ امت پاکستان ایک غیر سیاسی فورم ہے‘ جس کا مقصد تمام مکاتبِ فکر کے جید علمائے دین کی مختلف امور پر مشترکہ رائے کو پیش کرنا ہے۔ ملک کے معروضی حالات میں علماء کرام کے اتفاق کو ہمیشہ عوام نے استحسان کی نگاہ سے دیکھا ہے اور علماء کرام کی متفقہ رائے کا ایک وزن ہوتا ہے۔ کراچی میں مجلس اتحادِ امت پاکستان کے زیر اہتمام ہونے والے مشاورتی علمی اجتماع میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن‘ مفتی منیب الرحمن‘ مفتی تقی عثمانی‘ مولانا منظور مینگل‘ قاری حنیف جالندھری‘ ڈاکٹر شجاع الدین شیخ‘ عبدالحق ثانی اور نمایاں رہنمائوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس اجتماع میں علماء کرام نے بہت سے اہم امور پر گفتگو کی۔ مجھے بھی اپنی آرا پیش کرنے کا موقع میسر آیا۔ اس اہم کانفرنس میں علماء کرام نے جن باتوں پر اتفاق کیا‘ ان کو ایک مشترکہ اعلامیہ کی شکل میں پیش کیا گیا۔ وہ نکات جو اس اعلامیے میں جاری کیے گئے‘ ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
1۔ آئین پاکستان کی دفعہ 277 کی رو سے حکومت پر لازم ہے کہ ملکی قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق بنائے اور کوئی بھی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہ بنائے۔ اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی بہت سی سفارشات موجود ہیں لیکن سالہا سال گزرنے کے باوجود تاحال انہیں پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا گیا۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق قرآن وسنت کی عملداری کے لیے واضح لائحہ عمل اپنائے۔ 2۔ ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ اور غیر اسلامی قوانین کے خاتمے کا مؤثر ترین ادارہ وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کا شریعت اپیلٹ بینچ ہے۔ آئین کی رو سے وفاقی شرعی عدالت میں تین علماء جج ہونے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے یہ نشستیں خالی ہیں جس کی وجہ سے ملک کے مذہبی طبقات میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ 3۔ آئین کی 26ویں ترمیم کا ایک مستحسن حصہ یہ تھا کہ ملک سے سود کے خاتمے کے لیے ایک مدت متعین کر دی گئی‘ جو 31 دسمبر 2027ء ہے اور یکم جنوری 2028ء سے سودی نظام کو مکمل ختم کر کے اسلامی مالیاتی اور بینکاری نظام کو نافذ کرنا تھا لیکن اس دوران اس عمل کو سبوتاژ کرنے اور رکاوٹ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک ایسی یادداشت تیار کی گئی ہے جس میں ان بینکوں کو مستثنیٰ کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے جن میں غیر ملکی افراد کی حصہ داری ہے۔ یہ بات بھی سننے میں آ رہی ہے کہ بڑے بینکوں کی اکثریت کو استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔ 4۔ حال ہی میں پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی ہے۔ اس ترمیم میں بعض اہم عہدیداران کو استثنیٰ دینے کی بات کی گئی ہے جو علماء کی متفقہ آرا کے مطابق درست عمل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کتاب وسنت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ حضرت عمر فاروق اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما نے اپنے اپنے عہدِ خلافت میں اپنے آپ کو عدالت میں فریق ثانی کے ساتھ مساوی حیثیت میں پیش کرکے بلاامتیاز اور شفاف عدل کا نمونہ پیش کیا تھا۔
5۔ جون 2025ء میں فیڈرل ایریا کے لیے ایکٹ نمبر 11 نافذ کیا گیا۔ اس میں 18 برس سے کم عمر لڑکے لڑکی کے نکاح کرنے کرانے اور نکاح پڑھانے کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔ علماء کی متفقہ رائے کے مطابق یہ بات کسی بھی طور پر شریعت اسلامیہ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ بہت سے مغربی ممالک میں اس سے کم عمر کو نکاح کیلئے درست قرار دیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی معیار ''بلوغت‘‘ کو بنانا چاہیے اور اس سلسلے میں ایسی عمر کی قید نہیں لگانی چاہیے جس سے یہ تاثر ملے کہ معاشرے میں نکاح کے مقدس عمل کو خواہ مخواہ ملتوی اور مؤخر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 6۔ اسلام تمام طبقاتِ زندگی اور انسانوں کے لیے پیغام رحمت ہے۔ مرد وزن کے علاوہ مخنث افراد کو بھی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کے مطابق کوئی بھی مرد اور عورت اپنے آپ کو اپنی تخلیقی صنف کے بجائے اپنی پسند کی صنف کے طور پر متعارف کرا سکتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں بے راہ روی کے پھیلائو کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ 7۔ علماء کا اتفاق ہے کہ ملک میں حالات کی اصلاح اور کتاب وسنت کی عملداری کے لیے صرف پُرامن آئینی جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر عمل کر کے اس مقصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے مسلح جدوجہد موجودہ حالات میں نہ تو اسلام کا تقاضا ہے اور نہ ہی شریعت کی مصلحت کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ اس قسم کی سوچ وفکر کو تمام مکاتبِ فکر کے جید علماء یکسر مسترد کرتے ہیں۔ بعض عناصر یہ تاثر دیتے ہیں کہ شاید ملک کے بعض مذہبی ادارے اور جماعتیں مسلح کارروائیوں کے بارے میں نرم ذہن رکھتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ علماء مسلح کارروائیوں کی مذمت کرتے اور اسلام کے نفاذ کے لیے آئین‘ قانون اور رائے عامہ کو ہموار کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ 8۔ اجتماع میں اسلامی جمہوریہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود کشیدگی پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا گیا اور یہ بات کہی گئی کہ پاکستان کی حکومت اور علماء کو افغانستان سے پُرزور مطالبہ کرنا چاہیے کہ اپنی سرزمین کو مفسدگروہوں اور طبقات کی آماجگاہ نہ بننے دے‘ جو وہاں موجود دستیاب سہولتوں سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ تاہم اس بات پر توجہ دینا بھی وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین پائے جانے والے ڈیڈلاک کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے اور اس سلسلے میں حکومت علماء کی جو بھی ذمہ داری لگاتی ہے‘ علماء اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے تیار ہیں۔ 9۔ علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ دینی مدارس وجامعات کے ساتھ کیے گئے میثاق کی بنیاد پر نافذ ہونے والے قانون پر لفظاً ومعناً عمل کیا جائے اور اس میں کسی بھی قسم کی رکاوٹیں نہ پیدا کی جائیں۔ حکومتی اداروں کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق ڈھائی کروڑ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ ریاست اور حکومت اُن کی تعلیم کا انتظام کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں دینی مدارس وجامعات کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے کہ یہ اپنے وسائل میں رہتے ہوئے دینی وعصری تعلیم کے ساتھ ساتھ کفالت کا انتظام بھی کرتے ہیں۔ طلبہ کی بڑی تعداد ان مدارس میں زیر تعلیم ہے۔ ساتھ ہی اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ دینی مدارس اورجامعات اپنے نظام اور تعلیمی نصاب میں پہلے کی طرح آزاد رہیں گے۔ 10۔ مدارس میں عصری علوم کا مطالبہ درحقیقت افراط و تفریط پر مبنی ہے۔ اس لیے کہ مدارس میں جائز عصری تعلیم دی جاتی ہے لیکن جس طرح مختلف فنون میں تخصص وقت کی ضرورت ہے اسی طرح علوم شریعہ کے ماہرین اور اس میں تخصص رکھنے والے افراد کی تیاری مدارس اور جامعات کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے مدارس وجامعات کے کردار پر کسی بھی قسم کا قدغن عائد نہیں کیا جانا چاہیے۔ 11۔ علماء نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ بیت المقدس فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی دل وجان سے حمایت کرتے ہیں بلکہ اس بات کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں کہ اپنی استطاعت کے مطابق اس مقصد کے حصول کیلئے کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے۔ اگرچہ جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے لیکن اسرائیل کی طرف سے بے گناہوں کو نشانہ بنانے اور ان کو امداد پہنچانے میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسے حالات میں مسلم ملکوں سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی افواج وہاں بھیج کر حماس کو غیر مسلح کریں۔ متعدد مسلم حکومتیں انکار کر چکی ہیں اور اب پاکستان پر دبائو بڑھایا جا رہا ہے۔ علما اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے کسی بھی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کرے گی اور فلسطینیوں کے ساتھ معاونت اور اظہارِ یکجہتی کا سلسلہ جاری رکھے گی۔
کانفرنس میں علما کیلئے پُروقار ضیافت کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ مجلس اتحاد امت کا یہ اجتماع بہت سی خوبصورت یادوں کے ہمراہ پایۂ تکمیل کو پہنچا۔