ہمارے معاشرے میں مہمان کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ مہمان نوازی ہماری وہ قدیم روایت ہے جو دشمنوں کیلئے بھی اپنے دروازے بند نہیں کرتی۔ اگر مہمان مرتبے میں اعلیٰ مقام رکھتا ہو تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ جب غیرملکی سربراہانِ مملکت یا اعلیٰ شخصیات پاکستان آتی ہیں تو ہم ان کی راحت رسانی اور پروٹوکول کیلئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور جب تک وہ بحفاظت رخصت نہیں ہو جاتے‘ سکیورٹی اور انتظامی ادارے مستعد رہتے ہیں۔ اسی طرح جب ایک صوبے کا وزیراعلیٰ یا کوئی اہم صوبائی وزیر دوسرے صوبے کے دورے پر جائے تو سیاسی نظریات کی مخالفت اپنی جگہ لیکن منصب کے لحاظ سے اسکی خاطر داری اور وقار کا تحفظ کرنا میزبان صوبے کی اخلاقی اور انتظامی ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر افسوسناک امر ہے کہ جب بات سیاسی حریفوں کی آتی ہے تو ہم اکثر ان تمام اعلیٰ انسانی اور پارلیمانی اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ غلط کام چاہے جس شکل میں ہو‘ جہاں بھی ہو اور جس کی طرف سے بھی کیا جائے‘ اسے غلط ہی کہا جائے گا۔ اخلاقیات کا دہرا معیار کسی بھی مہذب معاشرے کیلئے زہرِ قاتل ہوتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کیساتھ پنجاب اسمبلی کے دروازے پر پیش آنیوالا واقعہ اسی کڑی کا ایک حصہ ہے جو سیاسی تلخیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ واقعہ صرف دھکم پیل یا ہاتھا پائی نہیں تھی بلکہ ایک منتخب نمائندے کے منصب اور ایک وفاقی اکائی کے دوسرے صوبے میں وقار کا مسئلہ تھا۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے‘ کیونکہ یہ ہمیں ماضی کے ان زخموں کی یاد دلاتا ہے جو ہم نے سیاسی انتقام کے نام پر ایک دوسرے کو دیے۔ سہیل آفریدی کیساتھ پیش آنیوالا واقعہ بالکل اسی طرح قابلِ مذمت ہے جس طرح اکتوبر 2020ء میں مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کیساتھ کراچی میں پیش آنیوالا واقعہ شرمناک اور قابلِ مذمت تھا۔
اکتوبر 2020ء میں اپوزیشن جماعتوں نے اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا تھاجس کی قیادت مولانا فضل الرحمن کر رہے تھے۔ پی ڈی ایم نے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے ساتھ ملک گیر جلسوں اور احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔ اسی سلسلے میں 18اکتوبر 2020ء کو مریم نواز کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ کراچی پہنچیں۔ چونکہ جلسے کا مقام باغِ جناح تھا‘ اس لیے قائدین اور کارکنوں نے جلسہ گاہ جانے سے قبل مزارِ قائد پر حاضری دینے اور فاتحہ خوانی کا فیصلہ کیا۔ اسی دوران جوش و جذبے سے مغلوب مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے مریم نواز کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔ کیپٹن (ر) صفدر نے‘ جو بظاہر اس صورتحال کو سنبھالنا چاہتے تھے‘ کارکنوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر خود ''ووٹ کو عزت دو‘‘ اور ''مادرِ ملت زندہ باد‘‘ کے نعرے بلند کیے۔ اس پر کارکنوں کا ردِعمل فطری طور پر جذباتی ہو گیا۔ بلاشبہ مزارِ قائد کے تقدس کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ وہاں سیاسی نعرے بازی مزار کے طے شدہ پروٹوکول کے صریحاً خلاف تھی جس پر کراچی کے پی ٹی آئی کارکنوں اور رہنماؤں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ دس گھنٹے تک تھانے کے باہر احتجاج ہوا اور کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن اس کے بعد جو طریقہ کار اپنایا گیا‘ وہ قانون کی حکمرانی کے بجائے لاقانونیت کا نمونہ بن گیا۔ 19اکتوبر کو علی الصبح پولیس نے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کیا۔ مریم نواز نے اس وقت جو بیان دیا وہ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب پولیس زبردستی ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو وہ سو رہی تھیں۔ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری قانونی ہو سکتی تھی لیکن جس انداز سے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا‘ اس کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی۔ چونکہ یہ واقعہ سندھ میں پیش آیا تھا جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور وہ پی ڈی ایم کی اتحادی بھی تھی‘ اس لیے سندھ حکومت کا ردِعمل انتہائی سخت تھا۔ صوبائی وزیر سعید غنی نے واضح کیا کہ یہ گرفتاری سندھ حکومت کے حکم پر نہیں ہوئی۔ اس سے یہ تاثر ابھرا کہ صوبائی خود مختاری میں مداخلت کی گئی ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے ردِعمل اتنا شدید تھا کہ سندھ پولیس کے 15اعلیٰ افسران نے احتجاجاً چھٹیوں کی درخواستیں دے دیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس واقعے پر جو برہمی ظاہر کی وہ ایک میزبان کی تڑپ تھی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب اسلام آباد میں بیٹھی ایک طاقتور شخصیت کی ایما پر ہوا تھا۔
اس پس منظر کے بعد جمعہ کے روز پنجاب اسمبلی کے داخلی راستے پر پیش آنے والے ناخوشگوار واقعے کو دیکھیں تو وہ بھی اسی سیاسی عدم برداشت کی داستان سناتا ہے۔ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اپنے رفقا اور گارڈز کے ساتھ جب پنجاب اسمبلی پہنچے تو وہاں بدمزگی ہوئی۔ اس ضمن میں پنجاب اسمبلی کی انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ وہ صرف اپنے سکیورٹی پروٹوکول پر عمل کر رہے تھے اور لسٹ کے مطابق لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دے رہے تھے۔ پنجاب اسمبلی انتظامیہ کا یہ کہنا کہ قانون سب کیلئے برابر ہے اور مسلح افراد کا اسمبلی میں زبردستی داخلہ جرم ہے‘ اپنی جگہ ایک قانونی نکتہ ہو سکتا ہے لیکن ایک صوبائی وزیراعلیٰ کے ساتھ برتا جانے والا رویہ بھی سوالات کھڑے کرتا ہے۔ مہمان نوازی اور پارلیمانی روایات کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر کوئی تکنیکی مسئلہ تھا بھی تو اسے افہام و تفہیم اور شائستگی سے حل کیا جاتا۔ خیبرپختونخوا حکومت نے اسے وفاق کی اکائیوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔ اس واقعے نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے درمیان ایک نئی سیاسی جنگ چھیڑ دی ہے۔ اس معاملے پر غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ سہیل آفریدی کا تعلق چاہے کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو‘ وہ ایک صوبے کے عوامی نمائندے ہیں۔ ان کیساتھ بدسلوکی کا مطلب اس صوبے کے عوام کی توہین ہے۔ یہ بات قرینِ قیاس نہیں لگتی کہ پولیس یا سکیورٹی سٹاف خود سے اتنی ہمت کر سکے کہ کسی دوسرے صوبے کے وزیراعلیٰ کی تضحیک کرے۔ یقینا اسکے پیچھے بھی ویسے ہی ''خاص اشارے‘‘ ہوں گے جیسے ماضی میں ہمیں کراچی کے واقعے میں نظرآئے۔ میزبان پر اگرچہ زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے تاہم مہمان کا بھی اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ حدود کی پاسداری کرے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے ہمراہ آنیوالے مینا خان اور شفیع جان نے غیر شائستہ رویہ اختیار کیا‘ یہ بھی یقینا قابلِ مذمت ہے۔ اسی طرح صحافیوں کے سوالات سے صحافت کے بجائے خاص تعصب جھلک رہا تھا۔
سیاستدانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اقتدار کبھی ایک جگہ نہیں رہتا۔ آج جو لوگ اقتدار میں ہوتے ہوئے اپنے مخالفین کیساتھ امتیازی سلوک کر رہے ہیں‘ کل انہیں بھی انہی گلیوں سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسے واقعات جہاں اور جس شکل میں بھی ہوں‘ وہ قابلِ مذمت ہیں اور ان سے صرف ملک میں نفرت اور تقسیم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اہلِ سیاست کو ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کیلئے احترام کی گنجائش پیدا کریں۔ جب آپ خود ایک دوسرے کے منصب اور وقار کا لحاظ نہیں کریں گے تو عوام یا انتظامی اداروں سے اسکی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ اہلِ سیاست کو اقتدار کے دنوں میں ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیے کہ جب وہ اقتدار سے ہٹیں تو انہیں بھی انہی تلخ تجربات سے گزرنا پڑے۔ انتقام کی یہ آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی جب تک کہ ہم قانون کی حکمرانی اور اخلاقی حدود کا تعین نہ کر لیں۔ سیاسی انتقام اور انتظامی سختی کے درمیان ایک واضح لکیر ہونی چاہیے۔ سہیل آفریدی کیساتھ پیش آنیوالے واقعے کی مذمت صرف اسلئے ضروری نہیں کہ وہ ایک سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اسلئے بھی ضروری ہے کہ یہ خطرناک روایت ہے جو مستقبل میں کسی کیلئے بھی زہرِ قاتل ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ادارے اشخاص سے نہیں بلکہ روایات اور باہمی احترام سے مضبوط ہوتے ہیں۔ اگر ہم مہمان کی عزت نہیں کریں گے تو ہماری میزبانی پر بھی حرف آئے گا۔