مہر عمران کھڈیاں‘ ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے ایک متحرک نوجوان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دین سے محبت کے ساتھ ساتھ شائستگی اور ملنساری جیسے اوصاف بھی عطا کر رکھے ہیں۔ وہ ہر کسی سے انتہائی خوش دلی اور خوش طبعی سے پیش آتے ہیں۔ گرد وپیش میں کسی کو کوئی ضرورت یا مسئلہ درپیش ہو تو اس کی ضرورت پوری کرنے اور اس کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے فوراً سے پیشتر کمر بستہ ہو جاتے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برس سے مجھ سے رابطے میں ہیں اور انہوں نے ان برسوں کے دوران قرآن وسنہ موومنٹ کے پیغام کو متعارف کرانے کیلئے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ اپنی خوشی اور غمی کے مواقع پر بھی ہمیشہ مجھ سے رابطے میں رہے۔ 14 اپریل کا دن ایک بڑی اندوہناک خبر لے کے آیا کہ مہر عمران کے والد اور والدہ ایک ٹریفک حادثے میں شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ بعد ازاں اطلاع ملی کہ ان کی والدہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئی ہیں اور والد شدید زخمی حالت میں ہسپتال داخل ہیں۔ اس قسم کے حادثات اور صدمات یقینا جہاں پسماندگان کیلئے دکھ اور غم کا باعث ہوتے ہیں‘ وہیں دوست احباب بھی ان صدمات کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے اعزہ و اقارب کی جدائی کا صدمہ سہا ہے۔ میری عمر اس وقت فقط 15برس تھی جب والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ زندگی کے طویل برسوں کے دوران حاصل ہونے والی ہر کامیابی اور خوشی کے موقع پر ان کی یاد ستاتی رہی۔ اسی طرح زندگی میں ہر پریشانی اور غم کے دوران بھی ان کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ میں نے اپنی عمر کی ابھی 19 بہاریں مکمل کی تھیں کہ والدہ محترمہ بھی یکایک اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔ والدین کو اپنی اولاد میں سے خصوصاً بڑے بیٹے سے پیار زیادہ ہوتا ہے۔ والدہ محترمہ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتی تھیں اور میری تعلیم وتربیت اور دیگر معاملات پر بہت زیادہ توجہ دیا کرتی تھیں۔ انہوں نے جہاں میری دنیاوی تعلیم کیلئے نمایاں کردار ادا کیا وہیں ایف ایس سی کے امتحانات دینے کے بعد حفظ قرآن کی رغبت بھی دلائی۔ ان کی اس ترغیب کی وجہ ہی سے میں نے ایف ایس سی کے نتائج آنے سے قبل ہی اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے 18پارے حفظ کر لیے تھے اور باقی ماندہ منزل کو انجینئرنگ کے پہلے اور دوسرے سال کی تعطیلات میں مکمل کر لیا۔ والدہ محترمہ کی شفقت یقینا نہ صرف ایک مامتا کی شفقت تھی بلکہ انہوں نے والد مرحوم کی کمی کو پورا کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ یہ بات کبھی تصور میں بھی نہیں تھی کہ وہ اچانک اس دنیائے فانی سے کوچ کر جائیں گی لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ وہ اچانک دل کی تکلیف میں مبتلا ہوئیں اور فقط چند ہی گھنٹوں میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ ان کی محبت‘ شفقت اور پیار یقینا زندگی کا ایک اہم باب ہے جس کو کسی بھی طور پر فراموش کرنا ممکن نہیں اور جب بھی کبھی زندگی میں خوشی اور غم کے لمحات آتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ان کی یاد تازہ ہو جاتی ہے بلکہ ان کیلئے دل کی گہرائیوں سے دعائیں بھی نکلتی ہیں۔
مہر عمران کی والدہ کے انتقال کی خبر نے مجھے ماضی میں دھکیل دیا اور میں اُن لمحات کو یاد کرنے لگا کہ جب انسان اس قسم کے صدمات سے گزرتا ہے۔ مہر عمران کی والدہ کے انتقال پر کھڈیاں میں تعزیت کیلئے جانے کا موقع ملا تو وہاں موجود سب دوست احباب جہاں صدمے سے متاثر تھے وہیں صبر ورضا کی تصویر بھی بنے ہوئے تھے۔ چنانچہ ان کے اس رویے کو دیکھ کر تسلی ہوئی کہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کے سامنے سرتسلیم کو خم کرنا ہی کامیابی کا راستہ ہے۔
14 اپریل ہی کو یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اٹھیل پور‘ قصور سے تعلق رکھنے والے قرآن مجید کے ایک ماہر قاری‘ قاری خالد زمان بھٹی کی اہلیہ اُن کو داغِ مفارقت دے گئی ہیں۔ شوہر اور بیوی کی رفاقت اس اعتبار سے دنیا کا ایک منفرد تعلق ہے کہ زندگی کے نشیب وفراز کے دوران انسان اس تعلق کی وجہ سے راحت اور قوت کو محسوس کرتا اور زندگی کے صدمات کو برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ شوہر اور بیوی کی رفاقت کی وجہ سے زندگی کی خوشیاں دوبالا ہو جاتی ہیں اور بچوں کی کفالت‘ ان کی نگرانی اور ان کی کامیابیوں کی خوشیاں بھی دوچند ہو جاتی ہیں۔ شوہر یا بیوی کی جدائی کو برداشت کرنا آسان کام نہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مرتبہ اس جدائی کی وجہ سے دوسرا شخص اضطراب اور غم کا اس انداز سے شکار ہو جاتا ہے کہ زندگی کی رونقیں اُس سے روٹھ جاتی ہیں اور وہ زندگی کے رنگوں سے خوبصورتی کشیدکرنا بند کر دیتا ہے۔ اس طرح کے صدمات یقینا انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کے قطعی ہونے کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
ان صدمات کو دیکھنے کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ موت سے کسی کو بھی فرار نہیں ہے اور ہر شخص کو جلد یا بدیر موت کا مزہ چکھنا ہی پڑے گا۔ چنانچہ بڑی بڑی اکابر ہستیاں اور شخصیات موت کی وادی میں اُتر گئیں یہاں تلک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے برگذیدہ انبیاء کرام کو بھی اس دنیا سے اپنے مشن کی تکمیل کے بعد رخصت ہونا پڑا۔ ان تمام واقعات کو دیکھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان کا قیام دنیا میں عارضی ہے اور اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ انسان دوسروں کو تو مرتا دیکھتا ہے لیکن درحقیقت اپنی موت کے بارے میں اس کو یقین نہیں ہوتا۔ دنیا کے زیب وزینت کو جمع کرنا اُس کا ہدف بنا ہوتا ہے اور وہ اس کیلئے ہی اپنی تمام تر توانائیوں کوصرف کیے رکھتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ التکاثر میں انسان کی اس کوتاہ بینی کا کچھ یوں ذکر فرمایا ''زیادتی کی چاہت نے تمہیں غافل کر دیا۔ یہاں تک کہ تم قبرستان جا پہنچے۔ ہرگز نہیں! تم عنقریب معلوم کر لو گے۔ ہرگز نہیں! پھر تمہیں جلد علم ہو جائے گا۔ ہرگز نہیں! اگر تم یقینی طور پر جان لو۔ تو بیشک تم جہنم دیکھ لو گے۔ اور تم اسے یقین کی آنکھ سے دیکھ لو گے۔ پھر اس دن تم سے ضرور بالضرور نعمتوں کا سوال ہو گا‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اپنی اخروی زندگی میں کامیاب ہونے کیلئے دنیاوی زندگی میں بھرپور انداز سے تگ و دو کرنی چاہیے اور اس بات کو ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ کل قیامت کے روز اچھے اعمال کرنے والے شخص کو اللہ کی طرف سے جزا اور برے اعمال کرنے والے شخص کو خدا کی ناراضی اور غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کامیابی کی اس حقیقت کو سورۂ آل عمران کی آیت 185 میں بڑی وضاحت سے بیان فرما دیا ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جائو گے؛ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بیشک وہ کامیاب ہوگیا‘ اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حقیقی کامیابی اسی کا مقدر بنے گی جو آگ سے بچ کر جنت میں داخل ہو گیا۔
دنیا میں لوگوں کی نظروں میں کامیابی اقتدار‘ شہرت اور وسائل کے حصول کا نام ہے اور لوگ اسی کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں کو صرف کر کے گمان کرتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے جبکہ حقیقی کامیابی درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کر کے بغیر کسی عذاب کے اس کی جنتوں میں داخل ہونا ہے۔ دنیا میں ہونے والے حادثات اور واقعات درحقیقت ہماری توجہات کو اسی سمت مبذول کراتے ہیں لیکن بہت سے بے بصیرت لوگ ان حادثات سے گزرنے کے باوجود بھی اپنی اصلاح نہیں کرتے جبکہ عقلمند لوگ اس طرح کے حادثات سے گزرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنے زاویۂ نگاہ کو تبدیل کرتے بلکہ عملی طور پر بھی اپنی اصلاح کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنی خوشنودی اور رضا کے لیے کام کرنے کی توفیق دے تاکہ کل کو ہم اس کی جنتوں میں داخل ہو کر ہمیشہ کی خوشیاں اور کامیابیاں حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں‘ آمین!