بنگلہ دیش آٹھ ڈویژنز اور 64 اضلاع پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک ڈویژن اور ضلع راج شاہی ہے۔ یہاں مذہب سے وابستگی رکھنے والے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں اور کئی بڑے دینی مدارس بھی موجود ہیں۔ شیخ عبدالرزاق بن یوسف نے ڈھاکہ کے علاوہ راج شاہی میں بھی 250 کنال پر مشتمل ایک بڑا ادارہ قائم کر رکھا ہے۔ 15 فروری کو سہ پہر میں برادر عبداللہ بن عبدالرزاق اور حافظ ابوبکر ایوب کے ہمراہ ڈھاکہ سے راج شاہی کیلئے روانہ ہوا۔ تقریباً 40 منٹ میں ہم راج شاہی پہنچ گئے۔ راج شاہی اس اعتبار سے ڈھاکہ سے مختلف ہے کہ یہاں بلند عمارتیں نسبتاً کم نظر آتی ہیں اور سڑکوں پر رش بھی قدرے کم ہوتا ہے۔ راج شاہی کے قرب وجوار میں بڑی تعداد میں دیہات ہیں‘ جن میں لہلہاتا سبزہ نظر آ رہا تھا۔ 16 فروری کو صبح ساڑھے دس بجے ہم اپنی رہائشگاہ سے جامعہ سلفیہ راج شاہی کیلئے روانہ ہوئے۔ ادارے میں پہنچے تو طلبہ واساتذہ نے پُرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ دینی تعلیم حاصل کرنے والے ہزاروں طلبہ اس پروگرام میں شریک تھے۔ تلاوتِ کلام پاک کے بعد باقاعدہ طور پر پروگرام کا آغاز ہوا اوراستقبالیہ تقریر کی گئی‘ جس کے بعد مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ دینی طلبہ کی بڑی تعداد دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ یہاں آنیوالے لوگوں کو علم کی اہمیت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ انہیں کچھ ترامیم اور کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو فرشتوں اور جنات کے بعد پیدا کیا لیکن حضرت آدم علیہ السلام کو علم کی نعمت سے بہرہ ور کر کے ان کو فرشتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت شموئیل علیہ السلام کے اس واقعہ کا بھی ذکر کیا کہ جب ان کی قوم کے لوگوں نے ایک بادشاہ کی ضرورت کا اظہار کیا تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے جنابِ طالوت علیہ السلام کو بادشاہ مقرر کر دیا جس پر بنی اسرائیل کے لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ جناب طالوت کے پاس مال و متاع نہیں تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے ان کو چُنا ہے اور ان کو علم اور طاقت میں وسعت عطا کی ہے؛ چنانچہ وہی حقیقت میں حکمرانی کے اہل ہیں۔ ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو بڑی سلطنت عطا کی اور سورۃ النمل میں اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کا خصوصی ذکر کرتے ہیں کہ حضرت دائود اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو علم عطا کیا گیا تھا۔ سورۃ النمل کی آیت: 15 میں ارشاد ہوا ''اور ہم نے یقینا دائود اور سلیمان کو علم دے رکھا تھا۔ اور دونوں نے کہا: تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے اہلِ ایمان بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو بھی علم کی بلندیوں سے ہمکنار کیا لیکن اس کے باوجود سورۂ طہٰ میں آپﷺ پر وحی کی گئی کہ آپ علم میں اضافے کی دعا مانگیں۔ سورۂ طہٰ کی آیت: 114 میں ارشاد ہوا ''اور دعا کرو اے میرے رب! مجھے زیادہ علم عطا کر‘‘۔ علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ چنانچہ ہمیں علم کے حصول پر بھرپور توجہ دینی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ باتوں کو ذہن نشین بھی کرنا چاہیے۔ پہلی بات یہ کہ علم دکھلاوے کیلئے نہیں بلکہ محض اللہ کی رضا کیلئے حاصل کرنا چاہیے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ دکھلاوے کیلئے جہاد کرنیوالے‘ دکھلاوے کیلئے خیرات کرنیوالے اور دکھلاوے کیلئے علم حاصل کرنیوالے لوگ قیامت کے دن ناکام ونامراد ٹھہریں گے۔ ایک عالم کو جو علم حاصل ہوتا ہے‘ اس کو اُس پر بھرپور طریقے سے عمل بھی کرنا چاہیے۔ لوگوں کو نصیحت کرنا اور خود علم پر عمل نہ کرنا بہت بڑے خسارے کی بات ہے۔ اسی طرح علم کے ابلاغ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ انبیاء کرام علیہم السلام علم کے ابلاغ کیلئے ساری زندگی وقف رہے۔ اسی طرح حق کو چھپانا نہیں چاہیے اور حق وباطل کی آمیزش سے بھی کام نہیں لینا چاہیے۔ طلبہ نے بڑی توجہ سے میری گفتگو سنی۔ بعد ازاں جامعہ سلفیہ کا وزٹ بھی کیا اور یہ بات جان کر بڑی خوشی ہوئی کہ جامعہ سلفیہ راج شاہی سے بہت سی دینی کتب بھی شائع کی جاتی ہیں جبکہ بنگالی اور عربی زبان میں ماہانہ دو‘ دو مجلے بھی شائع ہوتے ہیں۔
17 فروری کو بعد از نمازِ مغرب بنگلہ دیش کے نامور عالم دین ڈاکٹر اسد اللہ غالب نے نودا پورہ میں قائم اپنے مرکز الاسلامیہ میں مدعو کیا۔ مرکز الاسلامیہ بہت بڑا ادارہ ہے‘ اس ادارے میں ڈاکٹر اسد اللہ غالب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مغرب کی نماز سے قبل ہمارا پُرتپاک استقبال کیا۔ طلبہ اور عوام کی کثیر تعداد نے اس تقریب میں شرکت کی۔ تلاوتِ قرآن مجید کے بعد کلام اقبال بھی پڑھا گیا۔ میں نے سامعین کے سامنے جن گزارشات کو رکھا‘ ان کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد انسانوں کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا تھا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتیں ایک دوسرے سے مختلف تھیں لیکن اس کے باوجود جس نکتے پر جمیع انبیاء کرام علیہم السلام کا اتفاق رہا‘ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت ہے۔ نبی کریمﷺ نے دعوتِ توحید کے حوالے سے زبردست جدوجہد کی۔ آپﷺ نے بت پرستی کی سختی سے تردید کی اور اس بات کو واضح کیا کہ وہ بت ہمارے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہو سکتے جو اپنے نفع ونقصان کا بھی کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ اسی طرح آپﷺ نے اجرامِ سماویہ کی پوجا کا بھی انکار کیا اور اللہ کے اس حکم کو واضح کر دیا کہ ہمیں سورج اور چاند کے سامنے سجدہ کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے سجدہ کرنا چاہیے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اجرامِ سماویہ کی حقیقت کو واضح کیا تھا۔ سورج‘ چاند اور ستارے کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر اپنے چہرے کا رُخ اس پروردگار کی طرف کیا جو زمین و آسمان کا خالق ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آپﷺ ستاروں کے انسانی زندگی پر اثرات کی کُلی تردید فرماتے تھے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حضرت زید بن خالد الجہنیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی۔ رات کو بارش ہو چکی تھی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپﷺ نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور فرمایا: معلوم ہے تمہارے رب نے کیا فرمایا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں ( آپؐ نے فرمایا کہ) تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ صبح ہوئی تو میرے کچھ بندے مجھ پر ایمان لائے اور کچھ میرے منکر ہوئے۔ جس نے کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہمارے لیے بارش ہوئی تو وہ مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ فلاں تارے کے فلانی جگہ پر آنے سے بارش ہوئی وہ میرا منکر ہے اور ستاروں پر ایمان لانے والا‘‘۔
نبی کریمﷺ نے آتش پرستوں کے عقیدۂ ثنویت کا رد کیا اور اس بات کو واضح کیا کہ کائنات کو چلانے والا ایک ہی پروردگار ہے اور کائنات میں دوئی کی کوئی گنجائش نہیں۔ نصرانی سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی ذات کا حصہ مانتے تھے‘ نبی کریمﷺ نے اس بات کو بھی مسترد کیا اور واضح کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے تو ہیں لیکن معبود نہیں۔ آپﷺ نے دعوتِ توحید کو اس انداز میں واضح کیا کہ شجر وحَجر‘ اجرام سماویہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بندگی کے بجائے اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی پرستش کا درس دیا۔ چنانچہ جزیرۃ العرب کے لوگ صراطِ مستقیم پر گامزن ہوئے اور توحید کی دعوت ہر سو پھیل گئی۔ آج بھی مسلمانوں کو بڑے اہتمام سے دعوتِ توحید دینی چاہیے اور اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ شرکائے مجلس نے بڑی توجہ سے گفتگو سنی۔ بعد ازاں ڈاکٹر اسداللہ غالب کے ساتھ ایک غیر رسمی بیٹھک ہوئی جس میں علماء اور اکابرین بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یوں راج شاہی کا یہ دورہ اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوا۔