مرکزضیاء السنہ راجہ جنگ کا ایک معروف تعلیمی ادارہ ہے‘ جہاں بڑی تعداد میں طلبہ دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ یہاں حفظ قرآن اور درسِ نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات کی کلاسز کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ یہاں فاضل اساتذہ طالب علموں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔ مرکز ضیاء السنہ کی انتظامیہ ہر سال ضیاء السنہ کانفرنس کا انعقاد کرتا ہے جس میں جید علما اور مقررین مختلف عناوین پر تقاریر کرتے ہیں اور فارغ التحصیل طلبہ میں اسناد اور انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس سال کانفرنس 22 فروری کو منعقد ہوئی۔ جب میں راجہ جنگ پہنچا تو قرآن وسنہ موومنٹ کے رہنما راشد میر محمدی اور برادر احسان الرحمان کارکنوں کے ہمراہ استقبال کے لیے موجود تھے۔ ان دوستوں کے ہمراہ جب میں ضیاء السنہ مدرسے میں پہنچا تو وہاں عوام کی کثیر تعداد کو موجود پایا۔ اس موقع پر بہت سے علماء نے اپنی قیمتی آرا لوگوں کے سامنے پیش کیں۔ مجھے بھی اس موقع پر خطاب کا موقع ملا‘ جس کو کچھ ترامیم اور کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تعالیٰ نے ہم پر بہت بڑی کرم نوازی کی کہ ہمیں انسان بنایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ التین کی آیت: 4 میں اس امر کو واضح کر دیا کہ ''یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں ہم پر یہ کرم نوازی کی کہ ہمیں انسان بنایا‘ وہاں اس سے بھی بڑا کرم یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمیں اسلام اور ایمان کی نعمت سے بہرہ ور فرمایا جس کی وجہ سے تمام نعمتیں معنی خیز ہو جاتی ہیں۔ ایمان کی عدم موجودگی میں سرداری‘ مال ودولت‘ حسب ونسب اور خاندانی وجاہت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ فرعون‘ ہامان‘ قارون‘ شداد اور نمرود دنیا میں بااثر ہونے کے باوجود اس لیے ناکام ونامراد ٹھہرے کہ وہ ایمان کی نعمت سے محروم تھے۔ آج دنیا میں ان کو شر کی علامت کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ان کے مدمقابل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے عزت وعظمت اس لیے عطا کی کہ وہ اللہ کے فضل وکرم سے نعمت ایمان سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر فاروق‘ حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم جیسی عظیم ہستیاں تاریخ میں اس لیے امر ہو چکی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کو ایمان‘ اسلام اور یقین کے ساتھ گزارا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کو ایک مکمل اور بہترین دین بنایا ہے اور اس کو نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں انسانیت کی فلاح کے لیے مکمل فرما دیا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیت: 3 میں ارشاد فرماتے ہیں ''آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہو گیا‘‘۔ اسلام کے بنیادی طور پر دو مآخذ ہیں۔ ایک اللہ کی کتاب اور دوسری نبی کریمﷺ کی سنت مبارکہ۔ اسلام کا پیغام ''روشنی‘‘ کا پیغام ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اسلام اور ایمان کی برکت سے اہلِ ایمان کو اندھیروں سے نکال کر روشنیوں کے راستے پر چلا دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 257 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اللہ ایمان لانے والوں کا حامی ومددگار ہے‘ وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے اور کافروں کے مددگار طاغوت ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں‘ یہ لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے‘‘۔ اگر کوئی انسان روشنی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے تو اس کو کتاب وسنت کے راستے پر چل نکلنا چاہیے۔ اللہ کی کتاب ہر قسم کے تغیر وتبدل اور کمی بیشی سے پاک ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لے رکھی ہے۔ اسی طرح نبی کریمﷺ کے فرامین مبارک کتاب اللہ کی کامل تفسیر اور تشریح کرتے ہیں۔
نبی کریمﷺ کی زندگی ہم سب لوگوں کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الاحزاب کی آیت: 21 میں ارشاد فرماتے ہیں ''یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ( کی حیات) میں بہترین نمونہ ہے‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور بکثرت اللہ کا ذکر کرتا رہتا ہو‘‘۔ آپﷺ کی اتباع کرنے والوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی محبتوں کا مرکز قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آل عمران کی آیت: 31 میں ارشاد فرماتے ہیں ''کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‘ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تو ہے ہی بڑا معاف کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ النساء میں نبی کریمﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 80 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جس نے رسول کی اطاعت کی درحقیقت اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ پھیر لے تو ہم نے آپ کو ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا‘‘۔ ان آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی اتباع ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور آپﷺ کی اتباع فقط آپﷺ ہی کی اتباع نہیں بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت ہے۔
نبی کریمﷺ نے انسانوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کی۔ عقائد‘ عبادات اور معاملات میں ان کو صراطِ مستقیم کا سبق دیا۔ آج امت کو اپنے عقائد اور افکارکو شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے اور شجر وحجر‘ سورج اور ستاروں سے امیدیں وابستہ کرنے کے بجائے فقط اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے سامنے اپنی التجائوں کو رکھنے کی ضرورت ہے۔ ارکانِ اسلام اور عبادات کی بجا آوری میں کوتاہی کرنا کسی بھی طور درست نہیں۔ آج امت مسلمہ اس حوالے سے کوتاہی اور تساہل کا شکار ہے جس پر قابو پانا انتہائی ضروری ہے۔ عقائد اور عبادات کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اپنے معاملات کو دین کے تابع کرنا بھی انتہائی اہم ذمہ داری ہے۔ آج ہماری بہت سی رسومات‘ شادی بیاہ کے طریقہ کار‘ کاروباری اور سیاسی معاملات میں دینی تعلیمات سے انحراف پایا جاتا ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ ہماری زندگی کے ہر شعبے کے کامل اور مکمل رہنما ہیں اور آپﷺ کی اتباع میں کسی بھی قسم کی کمی اور کوتاہی کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ نے زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کی مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔ آپﷺ نے بیک وقت ایک کامیاب سپہ سالار‘ ایک کامیاب قاضی اور ایک کامیاب حکمران کی حیثیت سے نمایاں اور مثالی کردار ادا کیا۔ آج بہت سے مسلمان عقائد اور عبادات کے حوالے سے تو دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا چاہتے ہیں لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ معاملات کے حوالے سے وہ اپنی من مانی چاہتے ہیں جبکہ معاملات کو بھی کلی طور پر دین کے تابع ہونا چاہیے۔ کاروباری امور ہوں یا سیاسی معاملات‘ ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کو دیگر تمام باتوں پر فوقیت دینی چاہیے۔ نبی کریمﷺ کی کامل اتباع کر کے ہی ہم صراط مستقیم پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ہمیں کبھی بھی کامیابی‘ رفعت اور نجات نہیں مل سکتی اور ہم دنیا وآخرت کے عروج سے بہرہ ور نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم دنیاوی اور اخروی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں نبیﷺ کی کامل اتباع کرنی چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کے تساہل‘ سستی اور غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نبی کریمﷺ کی سنت کی اتباع کرنے کی توفیق دے‘ آمین!
اس موقع پر حاضرین مجلس نے بڑی توجہ کے ساتھ تقریر کو سنا۔ بعدازاں کامیاب طلبہ میں اسناد اور انعامات کی تقسیم کی گئی۔ یوں یہ کانفرنس اپنے جلو میں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے مکمل ہوئی۔