ہمارا دین ظلم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینے کی تلقین کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کو ظلم انتہائی ناپسند ہے اور جو شخص مظلوم ہو‘ اس کی آہ و فغاں کے دوران نکل جانے غلط الفاظ پر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ مواخذہ نہیں کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 148میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اللہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کی بری بات ظاہر کرے مگر وہ جس پر ظلم ہوا ہو‘ اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔ سورۃ المائدہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک جان کے ناحق قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 93 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘ اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ نے بھی ظلم کے حوالے سے بڑے واضح ارشادات فرمائے ہیں۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن دینارؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''ظلم قیامت کے دن اندھیروں کا سبب بنے گا‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘ پس اس پر ظلم نہ کرے اور نہ ظلم ہونے دے۔ جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا۔ جو شخص کسی مسلمان کی ایک مصیبت کو دور کرے‘ اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مصیبتوں میں سے ایک بڑی مصیبت کو دور فرمائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کے عیب کو چھپائے اللہ تعالیٰ قیامت میں اس کے عیب چھپائے گا‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت سعید بن زیدؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ''جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی‘ اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا‘‘۔ صحیح بخاری ہی میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''مالدار کی طرف سے (قرض ادا کرنے میں) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور اگر کسی کا قرض کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو وہ اسے قبول کرے‘‘۔ صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ میری ماں نے میرے باپ سے مجھے ایک چیز ہبہ دینے کے لیے کہا (پہلے تو انہوں نے انکار کیا کیونکہ دوسری بیوی سے بھی ان کی اولاد تھی) پھر وہ راضی ہو گئے اور مجھے وہ چیز ہبہ کر دی۔ لیکن ماں نے کہا کہ جب تک نبی کریمﷺ کو اس معاملے میں گواہ نہ بنائیں‘ میں اس پر راضی نہ ہوں گی۔ چنانچہ والد میرا ہاتھ پکڑ کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں ابھی نوعمر تھا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اس لڑکے کی ماں عمرہ بنت رواحہ مجھ سے ایک چیز اسے ہبہ کرنے کے لیے کہہ رہی ہیں۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: اس کے علاوہ اور بھی تمہارے لڑکے ہیں ؟ انہوں نے کہا: جی‘ اور بھی ہیں۔ نعمانؓ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے کہ آنحضرتﷺ نے اس پر فرمایا: ''تُو مجھ کو ظلم کی بات پر گواہ نہ بنا‘‘۔ اور ابوہریرہؓ نے شعبی سے یہ نقل کیا کہ آپﷺ نے فرمایا: ''میں ظلم کی بات پر گواہ نہیں بنتا‘‘۔
نبی کریمﷺ نے جہاں ظلم کی حوصلہ شکنی کی وہیں خلفائے راشدینؓ بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرتے رہے۔ صحیح بخاری میں حضرت زید بن اسلمؓ نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ ''حضرت عمر بن خطابؓ نے ہنی نامی اپنے ایک غلام کو (سرکاری) چراگاہ کا حاکم بنایا تو اسے یہ ہدایت کی: اے ہنی! مسلمانوں سے اپنے ہاتھ روکے رکھنا (ان پر ظلم نہ کرنا) اور مظلوم کی بددعا سے ہر وقت بچتے رہنا کیونکہ مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اور ہاں ابن عوف اور ابن عفان اور ان جیسے (امیر صحابہ) کے مویشیوں کے بارے میں تجھے ڈرتے رہنا چاہیے۔ (یعنی ان کے امیر ہونے کی وجہ سے دوسرے غریبوں کے مویشیوں پر چراگاہ میں انہیں مقدم نہ رکھنا) کیونکہ اگر ان کے مویشی ہلاک بھی ہو جائیں تو یہ رئوسا اپنے کھجور کے باغات اور کھیتوں سے اپنا معاش حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن گنے چنے اونٹوں اور گنی چنی بکریوں کا (غریب) مالک کہ اگر اس کے مویشی ہلاک ہو گئے تو وہ اپنے بچوں کو لے کر میرے پاس آئے گا اور فریاد کرے گا: یا امیرالمؤمنین! یا امیرالمؤمنین! تو کیا میں انہیں چھوڑ دوں گا؟ اس لیے ( پہلے ہی سے) ان کے لیے چارے اور پانی کا انتظام کر دینا میرے لیے اس سے زیادہ آسان ہے کہ میں ان کے لیے سونے چاندی کا انتظام کروں اور خدا کی قسم! وہ (اہلِ مدینہ) یہ سمجھتے ہوں گے کہ میں نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے کیونکہ یہ زمینیں انہی کی ہیں‘ انہوں نے جاہلیت کے زمانہ میں اس کے لیے لڑائیاں لڑی ہیں اور اسلام لانے کے بعد بھی ان کی ملکیت کو بحال رکھا گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ اموال (گھوڑے وغیرہ) نہ ہوتے جن پر جہاد میں لوگوں کو سوار کرتا ہوں تو ان کے علاقوں میں ایک بالشت زمین کو بھی میں چراگاہ نہ بناتا‘‘۔
جہاں ظلم کی مذمت ضروری ہے وہیں اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے درد کو محسوس کرنا بھی ضروری ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''مسلمان (باہم) ایک جسد کی طرح ہیں‘ اگر اس کی آنکھ میں تکلیف ہو تو سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے اور اگر سر میں تکلیف ہو تو اس کے سارے جسم کو تکلیف ہوتی ہے‘‘۔ چنانچہ خون ناحق کے حوالے سے مسلمانوں کو انتہائی حساس ہونا چاہیے اور اگر دنیا کے کسی مقام پر کسی مسلمان پر ظلم ہو رہا ہو تو اس بارے میں بہت زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ المیہ کی بات یہ ہے کہ ایک عرصہ سے کشمیر‘ فلسطین اور برما (میانمار) میں رہنے والے مسلمان ظلم اور تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران اہلِ غزہ کے اوپر ظلم وستم کے تمام پہاڑ توڑ دیے گئے لیکن اس کے باوجود یہ بات محسوس کی جا رہی ہے کہ اقوام عالم نے اس مسئلے کو بری طرح نظر انداز کر رکھا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے مسلمانوں کی کیفیت کا تو عوام الناس میں تو اس حوالے سے خاصا اضطراب پایا جاتا ہے لیکن مسلم حکمران اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو اس انسانی المیے کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے اور اس قتل عام کو روکنے کے لیے مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر اسرائیل ننگی جارحیت سے باز نہیں آتا تو عرب حکمرانوں کے ساتھ ساتھ تمام مسلم حکمرانوں کو نہ صرف یہ کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے بلکہ اسرائیل کی عسکری جارحیت کو روکنے کے لیے بھی منظم حکمت عملی تیار کرنی چاہیے۔
غزہ کے مسلمان ایک عر صہ سے اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے منتظر ہیں لیکن یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ مسلمان اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور طریقے سے ادا نہیں کر پا رہے۔ اگر وہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کرتے تو جہاں دنیا میں ان کو ندامت‘ شرمساری اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا وہیں وہ عنقریب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں بھی اس حواے سے جوابدہ ہوں گے۔ غزہ کے بہت سے مذہبی اور سماجی رہنمائوں کے بیان یقینا اقوام عالم اور مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہیں لیکن افسوس کہ اس آہ وبکا کے باوجود بھی اُس ردعمل کا اظہار نہیں کیا جا رہا جس کی اہلِ غزہ کو مسلم حکمرانوں سے توقع ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مسلم حکمران جلد اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں گے اور ظلم کے خاتمے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں گے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے تاکہ ہم اپنے مظلوم مسلمان بھائیوں کے کام آ سکیں اور ان پر ہونے والے ظلم اور تشدد کا مداوا ہو سکے‘ آمین!