"AIZ" (space) message & send to 7575

قیامِ امن

کسی بھی ریاست کی بقا اور استحکام کے لیے وہاں امن وامان کا ہونا اور انسانی جان کا تحفظ انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک انسانی جان کی حرمت سب سے زیادہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ المائدہ کی آیت: 32 میں انسانی جان کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر فرض کر دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو‘ قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک کی جان بچا لے‘ اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا‘‘۔ اگر مقتول مومن ہو تو گناہ کی سنگینی مزید بڑھ جاتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت: 93 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے‘ اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘ اس پر اللہ کا غضب ہے‘ اسے اللہ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار رکھا ہے‘‘۔
زمین پر قتل وغارت گری کرنے والے اور فساد پھیلانے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ البقرہ کی آیت: 205 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اللہ فساد کو ناپسند کرتا ہے‘‘۔ نبی کریمﷺ نے خطبۂ حجۃ الوداع کے موقع پر بڑے شاندار انداز سے انسانی جان‘ اموال اور عزت کی حرمت کو اجاگر کیا۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''تمہارے خون اور تمہارے مال (راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپﷺ نے آعراضکم یعنی ''اور تمہاری آبرو‘‘ کا لفظ بھی فرمایا) تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے آج کے دن (یومِ عرفہ) کی حرمت تمہارے اس مہینے (ذوالحج) میں۔ سن لو! یہ خبر حاضر غائب کو پہنچا دے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی برگزیدہ ہستیاں اپنے شہروں اور وطن کے لیے امن کی دعا مانگتی رہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جن دعائوں کا ذکر کیا‘ ان میں ایک دعا مکۃ المکرمہ کے پُرامن شہر بننے کی بھی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ ابراہیم کی آیت: 35 میںارشاد فرماتے ہیں ''(ابراہیم کی یہ دعا بھی یاد کرو) جب انہوں نے کہا کہ اے میرے پروردگار! اس شہر کو امن والا بنا دے‘ اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناہ دے‘‘۔ سورۃ البقرہ کی آیت: 126 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو ان الفاظ میں ذکر کیا گیا کہ ''جب ابراہیم نے کہا: اے پروردگار! تُو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والے ہوں‘ پھلوں کی روزیاں عطا فرما‘‘۔
معاشرے میں قیامِ امن کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے احکامات کا نزول فرمایا جن میں اہم ترین ''قانونِ قصاص‘‘ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قانونِ قصاص کے حوالے سے سورۃ البقرہ کی آیت: 178 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے‘ آزاد آزاد کے بدلے‘ غلام غلام کے بدلے‘ عورت عورت کے بدلے۔ ہاں جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمہارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے‘ اس کے بعد بھی جو سرکشی کرے اسے درد ناک عذاب ہو گا‘‘۔ لوگوں کی جان‘ اموال اور عزتوں کا تحفظ کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
پاکستان میں بدقسمتی سے جہاں آئے روز قتل وغارت گری کے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں وہیں ملک کے مختلف حصوں میں لسانی‘ گروہی اور فرقہ وارانہ بنیاد پر بدامنی کے واقعات بھی سننے کو ملتے ہیں‘ جن سے دردِ دل رکھنے والا ہر انسان پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے پارا چنار میں بدامنی اور کشیدگی کی خبریںسننے کو مل رہی ہیں۔ ان واقعات کے محرکات اور تدارک پر غور وخوض کرنے کے لیے چند روز قبل وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا ایک مراسلہ مجھے موصول ہوا جس میں انہوں نے 27 جنوری کو اسلام آباد میں خیبر پختونخوا ہائوس میں ایک مجلسِ مشاورت کے انعقاد کا ذکر کیا تھا‘ جس میں ملک کے دینی رہنمائوں اور مذہبی تحریکوں کے قائدین کو مدعو کیا گیا تھا تاکہ اس بدامنی اور خلفشار پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔
27 جنوری کو جب اجلاس میں پہنچے تو وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے شرکا کا پُرتپاک استقبال کیا۔ شرکائے اجلاس میں ملی یکجہتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر ابو الخیر زبیر‘ جماعت اسلامی کے نائب امیر اور ملی یکجہتی کونسل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ‘ مرکزی مسلم لیگ کے رہنما قاری یعقوب شیخ‘ سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا‘ تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر علی‘ بیرسٹر سیف‘ اسد قیصر‘ سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی‘ راہِ حق پارٹی کے رہنما ابراہیم قاسمی‘ مولانا عارف واحدی‘ مولانا شبیر میثمی‘ زاہد محمود قاسمی اور دیگر رہنما موجود تھے۔ اس موقع پر بریفنگ دیتے ہوئے علی امین گنڈاپور نے کہا کہ ملک کے کسی بھی حصے میں بدامنی ہو تو ریاست کے ساتھ ساتھ دینی طبقات کو بھی اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس دہشت گردی اور بدامنی پر قابو پانے کے لیے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ ڈاکٹر ابوالخیر زبیر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دینی جماعتوں نے ہمیشہ قیامِ امن کے لیے حکومتوں کا ساتھ دیا ہے۔ جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ وہ عناصر جو ملک میں بدامنی پھیلانا چاہتے ہیں‘ ان کا کڑے طریقے سے احتساب ہونا چاہیے۔ راہِ حق پارٹی کے رہنما مولانا ابراہیم قاسمی نے کہا کہ ملک میں امن وامان برقرار رکھنے کے لیے مقدساتِ امت کے احترام کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے‘ اگر مقدسات کی حرمت کو یقینی بنا دیا جائے تو ملک میں امن وامان کی صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو شرکائے مجلس کے سامنے رکھا ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
کسی بھی معاشرے میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے تین نکات کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ (1) عدل وانصاف: عدل وانصاف کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ انسان خواہ کسی سے نفرت ہی کیوں نہ کرتا ہو‘ اگر وہ حقدار ہے تو اس کا حق اس کو دلایا جائے اور انسان کسی کے ساتھ خواہ کتنی قربت کیوں نہ رکھتا ہو‘ اگر وہ ناحق ہے تو اس کا ساتھ کسی بھی طور نہ دیا جائے۔
(2) جھوٹ سے احتراز: بدنصیبی سے ہماری سیاست میں جھوٹ کا عنصر بہت زیادہ شامل ہو چکا ہے اور ہم جھوٹ کو سیاست کا ایک حصہ سمجھتے ہیں جبکہ معاشروں میں امن وامان قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے کے لیے سچائی سے کام لینا ازحد ضروری اور معاہدوں کی پاسداری کرنا ناگزیر ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ کئی مرتبہ حکومت یا ذمہ دار لوگ معاہدہ تو کر لیتے ہیں مگر دبائو پڑنے کی وجہ سے اس پر صحیح طریقے سے عمل درآمد کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔
(3) ہم آہنگی کا فروغ: معاشرے میں ہم آہنگی کے فروغ کے لیے تمام طبقات کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے لیکن اس حوالے سے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ لوگ جو بلاجواز اشتعال انگیزی کرتے‘ توہین آمیز گفتگو کرتے یا مقدسات کی حرمت کے بارے میں بے احتیاطی کرتے ہیں‘ ان کا کڑا احتساب کیا جائے۔ اگر ان اصول وضوابط کو مدنظر رکھا جائے تو یقینا معاشرے میں امن وامان کے قیام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر شرکائے مجلس کی تمام آرا کو نوٹ کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ حکومت اوردینی جماعتوں اور رہنمائوں کے درمیان قریبی رابطہ مستقبل میں بھی برقرار رہنا چاہیے اور قیام امن کے لیے تمام دینی طبقات‘ حکومت اور اداروں کو ایک پیج پر آ کر انسانی جان ومال کو تلف کرنے والے عناصر کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے یکسو ہونا چاہیے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں