سیاسی جماعتوں میں شفافیت یقینی بنانے کے لیے احتساب کمیٹی کا قیام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اصولی طور پر جمہوری سیاسی جماعتوں میں ایسی بااختیار احتساب کمیٹی ہونی چاہیے جو جماعت کے اندر ایک نگہبان کی طرح کام کرے‘ جو مالی معاملات کی جانچ پڑتال کرے اور تنظیمی اصولوں کی پاسداری اور رہنماؤں وکارکنوں کے طرزِ عمل کا جائزہ لیتی رہے۔ داخلی احتسابی کمیٹی کے فعال کردار سے جماعت کے مالی معاملات میں شفافیت آ سکتی ہے‘ فنڈز کے استعمال کا آڈٹ ہو سکتا ہے اور مالی بے ضابطگی کی نشاندہی اور تدارک ممکن ہو پاتا ہے۔ یہ کمیٹی یقینی بنائے گی کہ جماعت کے اندر تمام فیصلے میرٹ اور اصولوں کے مطابق ہو رہے ہیں‘ کسی قسم کی جانبداری یا اقربا پروری کو فروغ نہیں مل رہا۔ یہ کمیٹی کارکنوں کی شکایات سننے اور ان کے ازالے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کر سکتی ہے جس سے جماعت کے اندر بے چینی اور ناراضی کوکم کرنے میں مدد ملے گی۔
خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی نے بھی صوبائی حکومت میں شفافیت برقرار رکھنے کے لیے تین رکنی داخلی احتسابی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ اس کمیٹی کے تین ارکان میں خیبر پختونخوا کے سابق گورنر شاہ فرمان‘ سینئر قانون دان اور پارٹی رہنما قاضی انور ایڈووکیٹ اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے انسدادِ بدعنوانی بریگیڈیئر (ر) مصدق عباسی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی صوبائی کابینہ کے ارکان کی کارکردگی کا جائزہ لینے‘ بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی شکایات کی سماعت کرنے‘ سرکاری محکموں میں ٹرانسفر‘ تعیناتیوں اور ترقیوں میں بے ضابطگیوں کی نگرانی کرنے اور مالی معاملات میں شفافیت یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے رہنماؤں اور حکومتی عہدیداروں کے ضابطہ اخلاق کی پاسداری یقینی بنانے پر محیط ہے۔ رواں سال جنوری میں اس کمیٹی نے تمام وزرا سے چھ ماہ کی کارکردگی رپورٹ طلب کی تھی۔ اس کمیٹی کے چند ماہ قبل اس وقت بھی چرچے ہوئے جب صوبائی وزیر شکیل خان نے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ حقیقت میں یہ اندرونی لڑائی کا شاخسانہ تھا۔ دراصل انہیں عہدے سے برطرف کیا گیا تھا‘ بعد ازاں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ پی ٹی آئی کی داخلی احتساب کمیٹی نے اپنے سابق صوبائی وزیر خزانہ اور وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کے خلاف بدانتظامی‘ کرپشن اور ناقص حکمرانی کے الزامات پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تیمور جھگڑا پر متعدد بے قاعدگیوں کا شبہ ظاہر کیا گیا ہے جن میں بالخصوص غیر منصفانہ اور ضرورت سے زائد عملے کی بھرتی‘ غیر ذمہ دارانہ اور صوبائی خزانے پر بوجھ ڈالنے والے پالیسی فیصلے اور مختلف مدات میں سرکاری فنڈز کا غلط استعمال نمایاں ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ تیمور جھگڑا کے ان مبینہ اقدامات کے نتیجے میں صوبائی خزانے کو ناقابل تلافی مالی نقصان پہنچا ہے۔ تحقیقات کا محور تیمور جھگڑا کے دورِ وزارت میں ہونے والی مبینہ مالی بدانتظامی کے گرد گھومتا ہے۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ان کے دورِ اقتدار میں پختونخوا کو متعدد مواقع پر اپنی مالی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا جو صوبائی معیشت کی کمزور صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے پنشن اور گریجویٹی کے اکاؤنٹ سے غیر واضح اور غیر قانونی طریقے سے تقریباً 36 ارب روپے نکالنے پر بھی سخت سوالات اٹھائے ہیں۔ کمیٹی اس معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہتی ہے کہ آیا اس بھاری رقم کے نکالنے اور ممکنہ طور پر واپسی کے عمل میں مفادات کا کوئی تصادم تو موجود نہیں تھا۔ اسی طرح تیمور جھگڑا پر اپنے قریبی رشتے داروں سمیت ضرورت سے زائد عملے کو مختلف سرکاری محکموں میں بھرتی کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق یہ بھرتیاں قواعد وضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کی گئیں اور مبینہ طور پر بھرتی ہونے والے افراد نے طویل مدتی مالی فوائد حاصل کرنے کے بعد جلد ہی اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا۔ کمیٹی نے ایک مالیاتی ادارے کی جانب سے جاری کردہ مشکوک قرضوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس ادارے کے منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری کے طریقہ کار پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں جسے واضح طور پر بھرتی کے قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ بطور صوبائی وزیر صحت تیمور جھگڑا کو صحت کارڈ پروگرام کے انتظام‘ طبی آلات کی خریداری کے عمل اور کووڈ 19 کے ریلیف فنڈز کے استعمال میں بھی سنگین نوعیت کی کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ متعدد ایسے نجی ہسپتالوں کوصحت کارڈ پروگرام کے پینل پہ ڈال دیا گیا جو مقرر کردہ معیار پر پورا نہیں اترتے تھے لیکن تیمور جھگڑا نے اس حوالے سے کوئی تسلی بخش وضاحت پیش نہیں کی اور نہ ہی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے کوئی مؤثر اقدام کیا۔ کمیٹی نے گزشتہ دورِ حکومت کی چھان بین شروع کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ تیمور جھگڑا سے 13 الزامات پر جواب طلب کیا ہے۔ ایک قابل ذکر الزام مختلف سرکاری ہسپتالوں کے لیے باڈی سکینر مشینوں کی خریداری میں مہنگے داموں خریداری کا ہے ۔ مبینہ طور پر یہ مشینیں آج تک نہ تو نصب کی گئی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے استعمال میں لائی گئی ہیں۔
تیمور سلیم جھگڑا نے ان تمام الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی کی جانب سے شروع کی گئی اس انکوائری کو سیاسی طور پر بدنیتی پر مبنی اور حقائق سے عاری قرار دیا ہے۔ فی الوقت پی ٹی آئی کی احتساب کمیٹی اس انتہائی اہم اور حساس معاملے پر تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان تحقیقات کے نتیجے میں کیا انکشافات سامنے آتے ہیں اور کیا کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے‘ مگر پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات‘ جنہیں کافی عرصے سے چھپانے کی کوشش کی جا رہی تھی‘ اب وہ آ شکار ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے صوبائی صدر جنید اکبر خان پارٹی اختلافات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یوں لگتا ہے اب بات بڑھ گئی ہے۔ عاطف خان‘ شہرام ترکئی اور اسد قیصر سمیت کئی رہنما علی امین گنڈاپور کی جانب سے الزامات عائد کئے جانے پر مرکزی قیادت سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا ہے کہ شہرام ترکئی‘ عاطف خان اور اسد قیصر کو خود بانی پی ٹی آئی نے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ نہیں دیا۔ علی امین گنڈاپور نے خان صاحب سے منسوب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے پیغام دیا تھا کہ تینوں سازشی ہیں‘ بعد میں سازش کریں گے۔ علی امین گنڈاپور نے جذبات میں آ کر جو بیان دیا ہے اس سے خان صاحب کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں کیونکہ مذکورہ تینوں شخصیات اس معاملے پر خان صاحب کا مؤقف جاننا چاہ رہی ہیں۔
کسی بھی سیاسی جماعت کی قیادت کا مقام ایک مضبوط درخت کی مانند ہوتا ہے جس کی جڑیں نظریات کی زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور شاخیں عوام تک پیغام رسانی اور حمایت کے حصول کے لیے پھیلی ہوتی ہیں۔ قیادت کا سایہ پارٹی کے کارکنوں کے لیے ایک پناہ گاہ اور اتحاد کی علامت ہوتا ہے‘ لیکن جب اس مضبوط درخت کے تنے کھوکھلے ہو جائیں تو یہ خاموشی سے پوری جماعت کوکھوکھلا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب قیادت میں اختلافات کھلے میدان جنگ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں تو پارٹی ایک ایسے جہاز کی مانند ہو جاتی ہے جس میں سبھی دست وگریباں ہوں۔ ایسی صورتحال میں طوفان سے لڑنا تودور کی بات‘ یہ جہاز اپنی اندرونی کشمکش ہی سے ڈوبنے لگتا ہے۔ پی ٹی آئی کو ایسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے مگر ان سے نمٹنے کے لیے اہل قیادت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔