منگل 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کے مسافروں میں سے کسی کو یہ اندیشہ نہ تھا کہ چند لمحوں میں ان کا سفر ایک خوفناک سانحے میں تبدیل ہونے والا ہے۔ اچانک ایک زوردار دھماکا ہوا جس سے ٹرین لرز گئی۔ دھماکے کے بعد ٹرین رک گئی‘ سکون کی چادر تار تار ہو گئی۔ دہشت گرد بھیڑیوں کی طرح ٹرین پر ٹوٹ پڑے۔ ان کی آنکھوں میں وحشت کا سمندر موجزن تھا اور ہاتھوں میں موت کے ہتھیار۔ معصوم مسافر ان کی سفاکیت کا نشانہ بن گئے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ‘ چیخ و پکار اور خون کی ہولی نے ٹرین کو میدانِ جنگ بنا دیا۔ حادثے کے متاثرہ اور عینی شاہد جعفر ایکسپریس ٹرین کے ڈرائیور امجد یاسین کہتے ہیں کہ جب وہ بولان پہنچے تو انجن کے نیچے زوردار دھماکا ہوا جس سے انجن کا فیول ٹینک پھٹ گیا‘ ایمرجنسی بریک لگانے سے چار بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں۔ اسی دوران پہاڑوں سے بی ایل اے کے مسلح اہلکار اُترآئے اور فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ کے تبادلے میں ڈرائیور کو بھی گولی لگی جو شیشے سے ٹکرا کر اسے چھو کر گزر گئی۔ ابتدائی اطلاعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بی ایل اے کا اصل ہدف سکیورٹی اہلکار تھے۔ جب ٹرین رک گئی اور فائرنگ کا تبادلہ ختم ہوا تو دہشت گرد ٹرین میں داخل ہوگئے۔ یہاں سے ان کی سفاکیت کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ دہشت گردوں نے مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کرنا شروع کر دیے جس کا مقصد سکیورٹی اہلکاروں کی شناخت کرنا تھا۔ ٹرین پر حملے کے بعد جب یہ معلوم ہو گیا ہے کہ حملہ آوروں نے مسافروں کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات پیش کر دیے ہیں تو ریاست نے لچک کا مظاہرہ کرنے کے بجائے بظاہر سخت مؤقف اپنایا جو کئی اعتبار سے درست ثابت ہوا کیونکہ اس موقع پر ریاستی سطح پر نرمی کا مظاہرہ کیا جاتا تو شاید تاخیر ہو جاتی‘ شدت پسند مقررہ ڈیڈ لائن کے بعد مسافروں کو جان سے مار دیتے تو ہم سوال اٹھا رہے ہوتے کہ بروقت کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ٹرین پر حملے کے بعد پاک فوج نے فوری اور مؤثر کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا حالانکہ دہشت گردوں نے مسافروں کو یرغمال بنا کر ٹرین کو اپنی پناہ گاہ بنا لیا تھا جس سے آپریشن پیچیدہ ہو گیا تھا ایسے میں پاک فوج کے سپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کمانڈوز نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مشکل صورتحال پر قابو پایا۔ دہشت گردوں نے ٹرین کے اندر اور باہر پوزیشنیں سنبھال رکھی تھیں جس سے مسافروں کی جانوں کو خطرہ لاحق تھا۔ پاک فوج نے انتہائی احتیاط اور مہارت سے آپریشن کا آغاز کیا۔ ایس ایس جی کمانڈوز نے ٹرین کے مختلف حصوں میں داخل ہو کر دہشت گردوں کو گھیر لیا انہوں نے مسافروں کو کم سے کم نقصان پہنچائے بغیر دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے انتہائی مہارت سے کام لیا۔ دہشت گردوں کی موجودگی کے باوجود کمانڈوز نے مسافروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا عمل جاری رکھا۔ کمانڈوز نے دہشت گردوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے ڈرون اور دیگر نگرانی کے آلات کا استعمال کیا جس سے انہیں دہشت گردوں کی پوزیشنوں کا درست اندازہ لگانے میں مدد ملی۔ سکیورٹی فورسز نے انتہائی مہارت سے دہشت گردوں کو نشانہ بنایا اور مسافروں کو محفوظ نکالا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق فورسز کے آپریشن میں 33 دہشت گرد ہلاک ہوئے اورفورسز نے 354 یرغمالی بازیاب کروائے۔ ان میں 37 زخمی ہیں‘ فورسز کے آپریشن کے دوران ایک بھی مغوی نہیں مارا گیا۔ شہید ہونے والے 26 افراد میں سے 18 کا تعلق آرمی اور ایف سی سے ہے اور دہشت گرد کسی مسافرکویرغمال بنا کر اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔
جعفر ایکسپریس پر حملہ شدت پسند تنظیم بی ایل اے نے کیا ہے جو علیحدگی پسند تنظیم ہے۔یہ تنظیم گیس پائپ لائنوں کو اڑانے‘ سکیورٹی فورسز پر حملوں اور غیر مقامی افراد کو نشانہ بنانے جیسی کارروائیوں میں ملوث رہی ہے۔ پاکستان میں اس تنظیم پر پابندی کے بعد اس کے کچھ رہنما ملک سے باہر بیٹھ کر فتنہ انگیزی کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ بیرونی ممالک میں پناہ لیے ہوئے ہیں جہاں سے وہ اپنی تنظیم کی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور دہشت گردی کی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ رہنما سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے اپنے نظریات کو فروغ دیتے ہیں اور نوجوانوں کو دہشت گردی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ بلوچ قوم پر ہونے والے مظالم کے نام پر جذبات بھڑکاتے ہیں اور علیحدگی پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔ ان کی یہ کوششیں نہ صرف بلوچستان کے امن و امان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پورے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ان کی سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ بی ایل اے کو ان قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ جعفر ایکسپریس پر حملہ کرنے والے بی ایل اے کے دہشت گردوں کے افغانستان سے روابط کی تصدیق کی گئی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق بلوچستان میں ہونیوالے حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث دہشت گرد افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے رابطے میں تھے۔ واقعے کے دوران ٹریس شدہ کالز میں افغانستان سے رابطوں کا واضح ثبوت ملا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیر اکرم نے سلامتی کونسل سے خطاب میں اس بات کا انکشاف کیا کہ بی ایل اے کے افغانستان میں موجود دیگر دہشتگرد گروہوں‘ جیسا کہ ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ کے ساتھ گہرے روابط ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی مشترکہ کوششوں میں مصروف ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سپانسر ہے۔حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیار بشمول گزشتہ واقعات میں استعمال ہونے والے ہتھیار بھارتی اور افغان ساختہ تھے۔بھارت غلط معلومات کی جنگ کی سرپرستی کر رہا ہے اور جعفر ایکسپریس ہائی جیکنگ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کر رہا ہے۔بھارتی میڈیا نے پروپیگنڈا پھیلانے کیلئے واقعے کی جعلی فوٹیج دکھائی۔ مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ تصاویر اور جعلی وڈیوز شیئر کرکے ایک بیانیہ تخلیق کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ ٹرین کو ہائی جیک کرنے کا بھیانک منصوبہ افغانستان میں موجود شدت پسندوں اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے بنایا گیا۔ دنیا بھر میں مسافر گاڑیوں‘ جہازوں اور ٹرینوں کو ہائی جیک کرنے کا رجحان موجود ہے‘ نہتے مسافروں کو یرغمال بنانا سفاکیت کی انتہا ہے تاہم پاکستان میں ٹرین کو ہائی جیک کر کے مطالبات منوانے کا یہ پہلا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس سے قبل بلوچستان میں ٹرینوں پر حملوں کے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن ٹرین کو روک کرمسافروں کو یرغمال بنانے کا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس کے سدباب کیلئے سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔ اس معاملے پر سیاسی تقسیم نہیں ہونی چاہئے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد کی طرز کی اے پی سی کی تجویز دی ہے۔ شنید ہے کہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی نے بھی کل جماعتی کانفرنس کی حمایت کی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کیونکہ دہشت گردی قومی مسئلہ ہے جو ہماری سلامتی اور بقا کیلئے سنگین خطرہ ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے قومی اتفاقِ رائے کی اشد ضرورت ہے۔ ہماری آپسی تقسیم ہمیں مزید کمزور کر دے گی اور دشمن کو ہمارے خلاف سازشیں کرنے کا موقع فراہم کرے گی۔ ہمیں اپنی تمام تر توانائیاں اور وسائل دہشت گردی کے خاتمے کیلئے وقف کرنا ہوں گے۔ سیاسی‘ مذہبی اور لسانی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں ایک قوم بن کر اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہو گا۔