"RS" (space) message & send to 7575

خیبرپختونخوا کا ایکشن پلان!

2013ء کے عام انتخابات میں تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں دیگر جماعتوں پر برتری حاصل کر لی تھی مگر یہ نشستیں حکومت بنانے کیلئے ناکافی تھیں‘ اسے آزاد امیدواروں کی حمایت درکار تھی۔ مولانا فضل الرحمن کے اصرار کے باوجود میاں نواز شریف نے پی ٹی آئی کو خیبرپختونخوا میں حکومت سازی کا موقع فراہم کیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو اس نے قبائلی اضلاع کو صوبے میں ضم کرنے کا ایجنڈا پیش کیا؛ چونکہ ہر خاص و عام قبائلی اضلاع کی پسماندگی اور محرومیوں کے خاتمے کا خواہاں تھا اس لیے پی ٹی آئی کے اس ایجنڈا کو مقبولیت حاصل ہوئی۔ ہم جیسے کئی صحافیوں نے انضمام کی حمایت کی تاکہ اس علاقے کی محرومیوں کا خاتمہ ہو سکے حالانکہ اس وقت مولانا فضل الرحمن سمیت کئی توانا آوازیں انضمام کی مخالفت کر رہی تھیں۔ قبائلی اضلاع کا صوبے میں انضمام اگرچہ دیرینہ مطالبہ اور وقت کی اہم ضرورت تھی مگر پی ٹی آئی کو اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا۔ قبائلی اضلاع کا صوبے میں انضمام مئی 2018ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں ہوا تھا‘ تاہم اس کا کریڈٹ پی ٹی آئی نے لیا۔ انضمام کے وقت وفاقی حکومت نے 10 سالہ ایک ہزار ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا جس کے تحت ہر سال ضم شدہ اضلاع کو 100 ارب روپے جاری کیے جانے تھے۔ پی ٹی آئی آج قبائلی اضلاع کے فنڈز پر سیاست کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ 2018ء سے 2022ء تک وفاق اور صوبے میں پی ٹی آئی کی ہی حکومت تھی‘ اس حساب سے دیکھا جائے تو وعدے کے مطابق پی ٹی آئی کے دور میں وفاق سے چار سو ارب روپے قبائلی اضلاع کو جاری ہونا تھے مگر اس عرصے میں وفاق سے ایک سو ارب روپے بھی قبائلی اضلاع کو جاری نہ ہو سکے۔ پی ٹی آئی وفاق سے فنڈز کی عدم دستیابی کا رونا روتی ہے‘ بظاہر یہ شکوہ بجا لگتا ہے اور یہ عوام کا حق بھی ہے کہ صوبائی قیادت ان کیلئے آواز اٹھائے مگر قیادت کو پورا سچ بولنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کو یہ شکوہ خود سے کرنا چاہیے اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ قبائلی اضلاع کو انضمام کے فوری بعد جن فنڈز کی اشد ضرورت تھی‘ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت وہ فنڈز جاری کرنے میں ناکام رہی۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ اُس وقت خان صاحب اس بحث میں اُلجھے ہوئے تھے کہ صوبوں کے پاس زیادہ فنڈز جانے سے وفاق کے پاس خرچ کرنے کیلئے کچھ بچتا ہی نہیں ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ جب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی اور وفاق نے صوبے کے فنڈز روک رکھے تھے تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے اس سے فنڈز کی فراہمی کا نہ مطالبہ کیا اور نہ ہی وفاق کے خلاف احتجاج کی دھمکی دی مگر وفاق میں جونہی کسی دوسری جماعت کی حکومت آئی تو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے تمام تر ذمہ داری وفاق پر ڈالنے کی مہم شروع کر دی۔ جو پارٹی گزشتہ تین ادوار سے صوبے پر حکمرانی کر رہی ہے‘ کیا وہ وفاق پر سارا ملبہ ڈال کر خود کو صوبے کے مسائل سے یکسر الگ کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!
خیبرپختونخوا کو کئی ایسے چیلنجز درپیش ہیں کہ دوسرے صوبوں کو ویسے مسائل اور چیلنجز کا سامنا نہیں۔ دہشت گردی صوبے کا مستقل مسئلہ بن چکا ہے۔ صوبے کی طویل سرحد افغانستان سے ملتی ہے جہاں سے دراندازی معمول بن چکی ہے۔ زیادہ تر افغان شہری چونکہ اسی صوبے میں قیام پذیر ہیں اس لیے کئی مسائل اس حوالے سے بھی جنم لے رہے ہیں۔ ضم شدہ اضلاع کے مسائل انضمام کے باوجود آج بھی اسی شدت کے ساتھ اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا صوبے کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ایک بار پھر وفاق پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ وفاق نے افغان مہاجرین کی واپسی کی واضح پالیسی اختیار کی‘ افغان شہریوں کی رضا کارانہ واپسی کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد اب ان کی بے دخلی کا عمل شروع ہو چکا ہے تو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو نہ صرف اس پر تشویش ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے صوبے سے کسی افغان شہری کو زبردستی نہیں نکالا جائے گا۔ دوسری جانب قومی سطح پر ایکشن پلان ہونے کے باوجود چند روز قبل خیبرپختونخوا حکومت نے صوبے میں امن و امان کی بحالی اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے صوبائی ایکشن پلان تشکیل دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت ہونے والے اہم اجلاس میں اس پلان کے سات بنیادی ستون بتائے گئے ہیں۔
انسدادِ دہشت گردی اقدامات‘ سیاسی و سماجی اقدامات‘ قانونی اقدامات‘ گڈ گورننس کے اقدامات‘ عمومی اقدامات‘ مانیٹرنگ اور آگہی کے تحت 18 مختلف موضوعات پر مجموعی طور پر 84 اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جن پر عملدرآمد کیلئے تمام متعلقہ صوبائی اور وفاقی اداروں کو ٹائم لائنز کے ساتھ ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ اس ایکشن پلان کا بنیادی مقصد ریاستی نظام پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنا ہے‘ جس کیلئے دہشت گردوں کو قرار واقعی سزائیں دینے کیلئے ریاستی اداروں کی استعداد کو مؤثر طریقے سے ظاہر کیا جائے گا۔ شرپسندوں کے خلاف کائینیٹک آپریشنز کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوانین پر سختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ عوامی خدمات کی فراہمی کے نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور سکیورٹی و ترقیاتی امور میں عوامی رائے کو شامل کیا جائے گا۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف منظم کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی اور ان کا جامع ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے گا۔ شیڈول فورتھ کو باقاعدگی سے اَپڈیٹ کیا جائے گا اور اس میں شامل افراد کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ ضلعی سطح پر ماہانہ ڈسٹرکٹ سکیورٹی اسیسمنٹ کی جائے گی تاکہ دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور سکیورٹی خدشات کے تناظر میں اقدامات تجویز کیے جا سکیں۔ سول انتظامیہ کو دہشت گردی کے خلاف کلیدی کردار دیا جائے گا اور پولیس و کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کی استعداد کار میں تیزی سے اضافہ کیا جائے گا۔ سرحد پار سے دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کیلئے پالیسی تشکیل دی جائے گی اور افغان قبائلی عمائدین سے مذاکرات کیے جائیں گے۔ انٹیلی جنس کلیکشن اور شیئرنگ کا ایک مربوط نظام وضع کیا جائے گا اور تھانوں کی سطح پر پبلک لائزن کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔ سماجی اور معاشی شعبے میں نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور متبادل روزگار کی فراہمی پر توجہ دی جائے گی۔ ضم اضلاع کیلئے خصوصی اقتصادی منصوبے ترتیب دیے جائیں گے اور عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والی آبادی کی بحالی کیلئے اقدامات کیے جائیں گے۔ قانونی اقدامات کے تحت لیگل فریم ورک کو مضبوط بنایا جائے گا اور کریمنل جسٹس سسٹم میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ دہشت گردی کے خلاف آگہی مہم چلائی جائے گی اور گڈ گورننس کی حکمت عملی پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ اس ایکشن پلان پر عملدرآمد کی مؤثر نگرانی کیلئے خصوصی ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں۔ اعلانات اور کاغذات کی حد تک دیکھا جائے تو یہ ایکشن پلان تازہ ہوا کا جھونکا معلوم ہوتا ہے مگر صوبے کے حالات عملی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ اجلاس میں جن 84 مخصوص اقدامات کا خاکہ پیش کیا گیا ہے‘ کئی روز گزرنے کے باوجود ان میں سے کسی ایک پر بھی عملی طور پر پیشرفت دکھائی نہیں دیتی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں اگر اعلانات ہوتے ہیں تو گراؤنڈ پر وہ منصوبے نظر بھی آتے ہیں‘ اس کے برعکس خیبرپختونخوا میں ہمیں ویسے ترقیاتی منصوبے نظر نہیں آتے۔
پی ٹی آئی قیادت ہمیشہ وفاق کو اپنے حالات کا ذمہ دار ٹھہراتی آئی ہے، عوام بھی آنکھیں بند کرکے اس پر اعتماد کر لیتے تھے‘ اب بھی پی ٹی آئی کی کوشش ہے کہ صوبے کی پسماندگی کا ملبہ وفاق پر ڈال دیا جائے مگر اب یہ آسان نہیں رہا کیونکہ عوام حقائق جانتے ہیں‘ وہ آنے والے دنوں میں صوبائی حکومت کی کارکردگی پر سوال بھی اٹھائیں گے۔ کیا خیبرپختونخوا کی پی ٹی آئی قیادت عوام کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں