ملک میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات اور بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنانے کے بعد آرمی چیف کی جانب سے ہارڈ سٹیٹ کا بیان بظاہر ایک ناگزیر اور درست اقدام معلوم ہوتا ہے۔ جب خون آشام درندے شہروں کو قبرستانوں میں بدلنے پر تلے ہوں تو ریاست خاموش تماشائی بن کر نہیں رہ سکتی۔ کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کو بے یار و مددگار یا حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتی تاہم ہارڈ سٹیٹ بنانا بھی کسی فولادی چٹان کو سر کرنے سے کم نہیں ہو گا۔ اس میں نہ صرف سخت قوانین اور فولادی سکیورٹی اقدامات کی ضرورت ہو گی بلکہ انسانی حقوق اور آزادیوں کے نازک ترازو کو بھی متوازن رکھنا ہو گا۔ حکومت کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال بین الاقوامی تنہائی کے گھنے بادلوں کو جنم دے گا اور ملک کے اندر بھی سماجی اور سیاسی آتش فشاں پھٹ پڑے گا جس سے عدم استحکام کی آگ بھڑک اٹھے گی۔ اس لیے حکومت کو ایک جامع حکمت عملی اپنانی ہو گی جس میں فولادی ہاتھ اور مخملی دستانے دونوں شامل ہوں۔ ذیل کے سطور میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاح کیوں استعمال ہوتی ہے اور حقیقت میں اس سے مراد کیا ہے؟ ہارڈ سٹیٹ کی خصوصیات میں مضبوط مرکزی حکومت‘ قانون کا سخت نفاذ‘ سخت سکیورٹی اقدامات‘ اظہارِ رائے کی آزادی پر پابندیاں اور معاشی کنٹرول شامل ہے۔ تاریخ میں کئی ممالک نے ہارڈ سٹیٹ بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ان تجربات کے نتائج مثبت ہونے کے بجائے ملے جلے رہے ہیں۔ سوویت یونین جو چند دہائیاں قبل ایک ہارڈ سٹیٹ تھا‘ جس نے مضبوط مرکزی حکومت‘ سخت قوانین اور عوامی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا‘ ابتدائی طور پر معاشی اور فوجی طاقت حاصل کرنے کے باوجود طویل مدت میں معاشی جمود‘ سیاسی جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا شکار ہوا۔ 1991ء میں سوویت یونین کا ٹوٹنا اس کی داخلی کمزوریوں کا ہی نتیجہ تھا۔ اسی طرح شمالی کوریا‘ ایک آمریت‘ پروپیگنڈا اور فوجی طاقت پر انحصار کرنے والی ہارڈ سٹیٹ نے اپنے عوام کو غربت اور تنہائی میں دھکیل دیا ہے اور اس کی جوہری ہتھیاروں کی خواہش نے بین الاقوامی سطح پر تناؤ پیدا کیا ہے۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت ایک ہارڈ سٹیٹ تھی جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ سیاسی جبر اور معاشی بدحالی کا شکار رہی‘ اس کی جارحانہ پالیسیوں نے علاقائی عدم استحکام پیدا کیا اور بین الاقوامی جنگوں کا باعث بنا۔ آخر کار یہ حکومت 2003ء میں اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکی۔ بعض صورتوں میں ہارڈ سٹیٹ نے مختصر مدت کے لیے استحکام اور معاشی ترقی حاصل کی ہے لیکن طویل مدت میں اس قسم کی ریاست اکثر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ سیاسی جبر اور معاشی جمود کا باعث بنتی ہے۔ ہارڈ سٹیٹ کی قلیل مدتی کامیابی کا انحصار کئی عوامل پر ہوتا ہے جن میں حکومت کی قانونی حیثیت‘ معاشی حالات اور خارجی خطرات شامل ہیں‘ تاہم یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہارڈ سٹیٹ بنانے کے خطرات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ سیاسی جبر اور معاشی جمود کے علاوہ ہارڈ سٹیٹ عدم استحکام اور تنازعات کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
آرمی چیف کا یہ بیان کہ ''کب تک سافٹ سٹیٹ بن کر بے پناہ جانوں کی قربانی دیتے رہیں گے‘‘ ایک اہم سوال اٹھاتا ہے جو ہماری قومی سلامتی اور بقا سے جڑا ہوا ہے۔ بلاشبہ سافٹ سٹیٹ کی پالیسی اختیار کرنا کئی طرح سے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جب ریاست کو ایسے عناصر کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی قسم کے اصولوں اور قوانین کی پروا نہیں کرتے تو سافٹ سٹیٹ کی پالیسی غیر مؤثر ثابت ہوتی ہے۔ جب شدت پسند عناصر معصوم شہریوں کو بے دریغ نشانہ بنانے پر اُتر آئیں تو ریاست کے لیے ہارڈ سٹیٹ کا مؤقف اختیار کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا۔ ایسی صورتحال میں جہاں انسانی جانوں کا تقدس پامال ہو رہا ہو اور ریاستی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہو حکومت کی اولین ذمہ داری اپنے شہریوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ روایتی طریقوں سے نمٹنے کی کوششیں جب ناکام ہو جائیں اور شدت پسند عناصر اپنی سفاکیت پر قائم رہیں تو ہارڈ سٹیٹ کا مؤقف اختیار کرنے سے حکومت کو فوری اور فیصلہ کن اقدامات کی طاقت ملتی ہے‘ جس سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو توڑنے‘ ان کی سپلائی لائنز کو منقطع کرنے اور ان کی کارروائیوں کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ ایسے حالات میں انسانی حقوق اور انفرادی آزادیوں پر عارضی پابندیاں عائد کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے تاکہ ریاست کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔
سوال یہ ہے کہ جب ہارڈ سٹیٹ میں بھی نقصان ہے اور سافٹ سٹیٹ میں بھی تو ریاست کون سا راستہ اختیار کرے؟ تو جواب ہے سڑانگ سٹیٹ۔ سٹرانگ سٹیٹ ایک ایسی ریاست ہے جو مؤثر حکمرانی ‘ مضبوط اداروں اور قانون کی حکمرانی کے ذریعے کنٹرول برقرار رکھتی ہے۔ سٹرانگ سٹیٹ میں حکومت کو اپنی طاقت کو استعمال کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن اس طاقت کا استعمال قانون اور آئین کے مطابق ہوتا ہے۔ سٹرانگ سٹیٹ کا تصور اکثر ان ممالک سے منسلک ہوتا ہے جو مضبوط جمہوریتیں‘ مؤثر بیوروکریسی اور شفاف عدالتی نظام رکھتے ہیں۔ سٹرانگ سٹیٹ ایک ایسے مضبوط قلعے کی مانند ہے‘ جس کی بنیادیں صرف عسکری طاقت پر نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی استحکام کی مضبوط چٹانوں پر رکھی جاتی ہیں۔ سٹرانگ سٹیٹ کے قیام کے لیے سیاسی تقسیم کو کم کرنا ناگزیر ہے‘ اس مقصد کے حصول کے لیے قومی سطح کی کسی بھی جماعت کو مشترکہ عمل سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔ نہ ہی حکومت کو کسی جماعت کو باہر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان تعاون اور مکالمے کا فروغ قومی اتحاد کو مضبوط بنانے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر مشترکہ اہداف کے حصول کے لیے کام کرنا ہو گا۔ حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع فراہم کرے‘ اس مقصد کیلئے اگر دوبارہ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہو تو قومی مفاد میں اس کا آغاز بھی کیا جائے کیونکہ عدم استحکام کی دلدل میں دھنسی ریاست محض طاقت کے بل بوتے پر خود کو مضبوط ثابت نہیں کر سکتی۔ اس قلعے کی تعمیر کے لیے جمہوری اداروں کو مضبوط ستونوں کی طرح کھڑا کرنا‘ معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا اور قانون کی حکمرانی کو ایک ناقابلِ تسخیر دیوار کی طرح قائم کرنا ضروری ہے۔ سیاسی قیادت کو دور اندیشی کا عَلم تھام کر قومی مفاد کو ترجیح دینی ہو گی اور معاشی پالیسیوں کو عوام کی خوشحالی کے سبزہ زاروں کی آبیاری کے لیے استعمال کرنا ہو گا۔ سٹرانگ سٹیٹ کا حقیقی روپ تب ہی آشکار ہو گا جب انصاف کی فراوانی‘ معاشی ترقی اور سیاسی استحکام ہو گا۔